تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | امام حسین علیہ السلام اور آپ کے باوفا اصحاب کی غم انگیز شہادت اور اہل حرم کی کرب ناک اسیری کے سبب یزید اور یزیدیوں میں خوشی منائی جا رہی تھی اور فتح کے نقارے بج رہے تھے تو دوسری جانب ہر لمحہ اسیران اہل حرم کی مصیبتوں میں اضافہ ہی ہو رہا تھا۔
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی مشہور حدیث ہے’’ اَلْهَمُّ نِصْفُ اَلْهَرَمِ‘‘ یعنی غم و اندوہ آدھا بڑھاپا ہے۔ یعنی غم و الم انسان کے حوصلے پست کر دیتے ہیں، آدمی ہمت ہار جاتا ہے، اپنا دفاع تو دور مزید ظلم سہنے میں ہی عافیت تصور کرتا ہے۔ لیکن کیا کہنا شیر خدا کی شیر دل بیٹی صدیقہ صغریٰ حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کا کہ ۲۸؍ رجب سن ۶۰ ہجری کو اپنے بھائی کے ہمراہ مدینہ سے سفر مظلومیت کا آغاز کیا، مدینہ سے بلد امین پہنچیں لیکن جب یہاں بھی امن نہ ملا اور وارث انبیاء سرکار سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے حرم الہی مکہ مکرمہ کی حرمت کی پاسبانی کی خاطر عین حج کے دن ۸؍ ذی الحجہ کو جب سارے حاجی مکہ مکرمہ میں موجود ہوتے ہیں توقبلہ ایمان امام حسین علیہ السلام نے قبلہ عبادت خانہ کعبہ کو خیرباد کہا تو بھائی کے مقصد میں شریک بہن نے بھی بیت الہی الوداع کہا۔
راہ کربلا میں سفیر حسینی حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام اور دیگر وفاداروں کی شہادت کی خبر ملی تو نہ صرف امام حسین علیہ السلام ہی غم زدہ ہوئے بلکہ پورا کاروان حسینی تصویر غم بن گیا۔ ۲؍ محرم سن ۶۱ہجری کو آخر یہ کاروان اپنی منزل پر پہنچ گیا۔ بھائی کے ہمراہ بہن نے بھی کربلا میں قیام کیا، کربلا میں تشنگی کی مصیبت آن پڑی تو ساقی کوثر کا گھرانہ تین دن تک پیاسا رہا۔ دسویں محرم کو تیر و کمان، نیزہ و خنجر سے پیاسے سیراب ہوئے۔ شہدائے کربلا نےشہادت پیش کر کے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا لیکن جو بچ گئے وہ اسیر محن ہوئے اور انکی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہی ہوا۔ دلوں میں عزیزوں اور چاہنے والوں کا غم تو آنکھوں سے ان گلہائے غم کی بشکل اشک خوشبو پھیلی اور ظالموں کے نہ رکنے والے مظالم کا سلسلہ تھا۔ ایسا غم کہ اگر کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار جاتا، اس کے حوصلے پست ہو جاتے، دفاع کی قوت سلب ہو جاتی، شہادت کے مشن کا تحفظ تو دور خود خدا کا انکار کر دیتا۔
درود و سلام ہو اسیران کربلا پر جنہوں نے پیغام کربلا کو نہ صرف تحفظ بخشا بلکہ اسکی تبلیغ بھی کی ۔ وہ ایسے اسیر تھے جنہوں نے رہتی دنیا تک انسانیت کو درس حریت دیا۔
لاکھوں درود و سلام ہو شیر خدا کی شیر دل بیٹی زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا پر کہ جب بارہویں محرم کو ابن زیاد ملعون اپنے جرائم اور قتل و غارت و اسارت کی خوشی کے نشے میں مست پوچھتا ہے کہ تم نے اللہ کو کیسا پایا تو زینت حیدر ؑ نے وہ جواب دیا جو قیامت تک موحدین کے لئے مشعل راہ ہے ’’وما رأیت الا جمیلا‘‘ یعنی ہم نے جمال و خوبصورتی کے سوا کچھ نہ دیکھا۔ حقیقت ہے اتنے غم و الم کے بعد خاتون تو کیا کوئی مرد بھی یہ جملہ نہیں کہہ سکتا تھا جو بی بی ؑ نے فرمایا۔ بے شک وہ اس باپ کی زینت تھیں جنہوں نے ضربت ظلم کھانے کے اپنی کامیابی کا اعلان کیا ۔ وہ اس معصوم بھائی کی شریکہ مقصد بہن تھیں جنہوں نے باوفا اصحاب اور دل کے ٹکڑوں کے لاشے اٹھانے کے بعد سر کو سجدہ آخر میں رکھ کر فرمایا : ’’خدایا میری قربانیوں کو قبول کر لے۔ ائے فریادیوں کی فریاد سننے والے میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں۔ ‘‘
حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا بھی اسی عظیم باپ کی عظیم بیٹی اور عظیم بھائی کی بہن تھیں کہ جب بھائی کے جنازے پر پہنچی تو بارگاہ خدا میں دست بہ دعا ہوئیں خدایا میری قربانی کو قبول کر لے۔ کیا کہنا اس عابدہ آل علیؑ کا جس کی عبادت کا قصیدہ زین العابدین علیہ السلام نے پڑھا کہ شام غریباں میں بھی میری پھوپھی کی نماز شب قضا نہیں ہوئی۔ شہزادیؑ نے اس ہولناک شب میں بھی جلے ہوئے خیام کی راکھ کے مصلی پر نماز شب ادا کی، غم و اندوہ ضعف کا سبب ہوئے لیکن عبادتوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ جب ضعف کے سبب کھڑی نہیں ہو سکتی تھیں تو بیٹھ کر ہی نماز ادا کی۔
کوفہ میں مصائب کا سلسلہ نہیں رکا بلکہ مقاتل میں مرقوم ہے کہ اسیران اہل حرم کو کوفہ سے شام لے جایا گیا اور راہ شام میں ان دشمنان اسلام وانسانیت کے لئے جتنا ممکن تھا اتنا ظلم کیا ۔ نہ جانے کتنے کم سن بچے راہ شام میں شہید ہو گئے۔ آخر اسیروں کا قافلہ شام پہنچا۔ ایک جانب اہلبیت ؑ کی مظلومیت تھی تو دوسری جانب امویوں اور یزیدیوں میں فتح کے نقارے تھے۔
اسی عالم میں کہ جب ہر جانب خوشی منائی جا رہی تھی اسیروں کو دربار یزید میں پیش کیا گیا ۔ وہ ملعون اپنے سجے دربار میں تخت پر بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے طشت میں مظلوم کربلا کا سر تھا ۔ جیسے ہی بہن کی نظر بھائی کے سر بریدہ پر پڑی ، با آواز بلند گریہ کرتے ہوئے نوحہ پڑھا ’’یا حُسَیْناهُ! یا حَبیبَ رَسُولِ اللهِ! یَابْنَ مَکَّهَ وَ مِنی، یَابْنَ فاطِمَهَ الزَّهْراءِ سَیِّدَهَ النِّساءِ، یَابْنَ بِنْتِ الْمُصْطَفی‘‘ راوی کا بیان ہے کہ جیسے ہی بی بی ؑ نے نوحہ و فریاد کی دربار کا ماحول بدل گیا اور وہاں موجود کوئی بھی اپنے آنسو نہ روک سکا اور خود یزید پر سکوت طاری ہو گیا ۔
عالمہ غیر معلمہ فہیمہ غیر مفہمہ ؑ کے اس اقدام کا پہلا اثر یہ ہوا کہ جب یزید نے سید الشہداءؑ کے دندان مبارک کی توہین کی تو وہاں موجود صحابی رسول جناب ابوبرزہ اسلمیؓ نے اس سرکش کی سرزنش کی اور امام حسین علیہ السلام کے فضائل پڑھے کہ تاریخ نے لکھا کہ دربار تو یزید کا تھا لیکن فضائل حسینؑ کے بیان ہوئے۔ آخر اس بے حیا نے وہ کفر آمیز شعر پڑھے جسمیں توحید و وحی کا بھی انکار تھا اور نبوت کا بھی انکار تھا ۔ جس نے نہ صرف یزید بلکہ پورے سلسلہ قبل و بعد کے چہرے پر پڑی اسلام کی نقاب کو اتار دیا۔
اس موقع پرحضرت زینب سلام اللہ علیہا نے خطبہ دیا جسمیں حمد و درود کے بعد آیت ’’وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ‘‘ (’’اور خبردار یہ کفاّر یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں کوئی بھلائی ہے- ہم تو صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ جتنا گناہ کرسکیں کرلیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔ ‘‘ سورہ آل عمران، آیت ۱۷۸) کی تلاوت فرما کر اس مغرور و ملعون کے غرور کو توڑ دیا کہ اپنی حکومت و ثروت اور لشکر پر غرور نہ کرو بلکہ یہ صرف خدا کی جانب سے مہلت ہے اور عذاب و رسوائی تیرا مقدر ہے۔
اس کے بعد شہزادیؑ نے ’’ اَ مِنَ الْعَدْلِ یَابْنَ الطُّلَقاءِ‘‘ (کیا یہی عدل ہے اے آزاد شدہ کے بیٹے) فرما کر اس کے خاندان پر رسول اکرمؐ کے گئے عظیم احسان کو بیان کر دیا کہ جب لشکر اسلام نے تمہارے آباء و اجداد کو اسیر کیا تو رسول رحمتؐ نے انہیں آزاد کر دیا تھا۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید کے کفریہ شعر کہ ’’ائے کاش میرے جنگ بدر میں مارے گئےبزرگ ہوتے۔۔۔۔‘‘ کے جواب میں فرمایا: ’’تو سید الشہداء ؑ کے دندان مبارک کی توہین کرتے ہوئے اپنے بے دین بزرگوں کو یاد کر رہا ہے ۔ عنقریب تو بھی ان کے پاس چلا جائے گا ۔ ‘‘ فرما کر پورے خاندان کے انکار دین اور اسلام دشمنی کو واضح کر دیا۔
اس کے بعد شہزادی ؑ نے شہداء کے مقام و مرتبے کو بیان کیا اور یزید و یزیدیوں کو قیامت کے دن عدل الہی کی یاد دلائی ۔ آخر میں ایک ایسی حکمت آمیز بات کہی کہ پوری یزیدیت لرزہ بہ اندام ہو گئی ۔ فرمایا: مجبوراً میں نے تجھے خطاب کیا ہے ورنہ تیری حیثیت نہیں کہ تجھے خطاب کیا جائے۔ آخر میں اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی حمد فرمائی۔
شیر خدا کی شیر دل بیٹی کے جوابات آج تک لا جواب ہیں بلکہ ہمیشہ ہی لاجواب رہیں گے اور آپؑ کے یہ جوابات رہتی دنیا تک مظلوموں اور کمزوروں کے لئے چراغ راہ ہیں کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں کبھی بھی ظلم کے سامنے سر نہ جھکانا بلکہ جب بھی موقع ملے ظلم کو آئینہ ضرور دکھا دینا۔