۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
News ID: 386199
30 نومبر 2022 - 12:19
دل کے خریدار

حوزہ/ اسلام چونکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات کا نام ہے،اپنی فکری اور نظریاتی درستی کے ساتھ ساتھ تمدنی زندگی کے لئے بھی ایک واضح عملی منصوبہ بھی دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے،اسلام محض عقیدہ ہی نہیں،بلکہ ایک تہذیب ایک تحریک اور تمدن بھی ہے،گفتگو یا تحریر سے بعض اوقات فخر و مباہات اور شہرت مقصود ہوتی ہے،اسلام اس مصنوعی گفتگو کی مخالفت کرتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | ایک بادشاہ نے اعلان کر رکھا تھا کہ جو اچھی بات کہے گا اس کو چار سو دینار (سونے کے سکے) دیئے جائیں گے۔ ایک دن بادشاہ رعایا کی دیکھ بھال کرنے نکلا۔ اس نے دیکھا ایک نوے سال کی بوڑھی عورت زیتون کے پودے لگا رہی ہے۔ بادشاہ نے کہا: تم پانچ دس سال میں مر جاؤ گی اور یہ درخت بیس سال بعد پھل دیں گے تو اتنی مشقت کرنے کا کیا فائدہ؟ بوڑھی عورت نے جواباً کہا: جو ہم نے پھل کھائے وہ ہمارے بڑوں نے لگائے تھے اور اب ہم لگا رہے ہیں تاکہ ہماری اولاد کھائے! بادشاہ کو اس بوڑھی عورت کی بات پسند آئی حکم دیا: اس کو چار سو دینار دے دیئے جائیں۔ جب بوڑھی عورت کو دینار دیئے گئے وہ مسکرانے لگی۔ بادشاہ نے پوچھا کیوں مسکرا رہی ہو؟ بوڑھی عورت نے کہا کہ زیتون کے درختوں نے بیس سال بعد پھل دینا تھا جبکہ مجھے میرا پھل ابھی مل گیا ہے! بادشاہ کو اس کی یہ بات بھی اچھی لگی اور حکم جاری کیا: اس کو مزید چار سو دینار دئے جائیں۔ جب اس عورت کو مزید چار سو دینار دیئے گئے تو وہ پھر مسکرانے لگی! بادشاہ نے پوچھا: اب کیوں مسکرائی؟ بوڑھی عورت نے کہا: زیتون کا درخت پورے سال میں صرف ایک بار پھل دیتا ہے جبکہ میرے درخت نے دو بار پھل دے دیئے ہیں۔ بادشاہ نے پھر حکم دیا: اس کو مزید چار سو دینار دیئے جائیں۔ یہ حکم دیتے ہی بادشاہ تیزی سے وہاں سے روانہ ہو گیا۔ وزیر نے کہا: حضور آپ جلدی سے کیوں نکل آئے؟ بادشاہ نے کہا: اگر میں مزید اس عورت کے پاس رہتا تو میرا سارا خزانہ خالی ہو جاتا مگر عورت کی حکمت بھری باتیں ختم نہ ہوتیں۔ حاصل کلام اچھی بات دل موہ لیتی ہے۔ نرم رویہ دشمن کو دوست بنا دیتا ہے۔ حکمت بھرا جملہ بادشاہوں کو بھی قریب لے آتا ہے۔ اچھی بات دنیا میں دوست بڑھاتی اور دشمن کم کرتی ہے اور آخرت میں ثواب کی کثرت کرتی ہے۔ آپ مال و دولت سے سامان خرید سکتے ہیں مگر دل کی خریداری صرف اچھی بات سے ہو سکتی ہے لہذا دل کے خریدار بنیں مال کے طلب گار نہ بنیں۔

مہذب گفتگو کرنا اسلام کا ایک ایسا زرّیں اصول ہے،جس سے مسلمانوں کا قومی تشخص اجاگر ہو کر سامنے آتا ہے،اگر تاریخ کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز اسلام کو دوسری اقوام سے ممتاز کرتی ہے،وہ یہی مہذب گفتگو ہے، یہی وہ خوبی ہے،جس نے دوسری قوموں کے افراد کو اسلام کا گرویدہ بنایا اور ان کو اسلام قبول کرنے کی طرف رغبت دلائی،چنانچہ ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے، یعنی لوگوں سے مہذب گفتگو کرو،اس سے جو بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے،وہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کی شناخت مہذب گفتگو ہے،عظیم قومیں تہذیب اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتیں،مسلمان چونکہ ایک عظیم قوم ہیں اس لئے ان پر لازم ہے،کہ وہ ہر لمحہ اور ہر موقع پر مہذب گفتگو کرنے کی عادت ڈالیں،اب خواہ وہ کاروبار تجارت ہو یا باہمی لین دین،مجلسی زندگی ہو یا گھریلو معاملات سیاست ہو یا معیشت،سماجی معاشرتی اور قومی معاملات ہر موقع پر مسلمانوں کے ملی تشخص کو جو چیز برقرار رکھتی ہے،وہ یہی مہذب گفتگو ہے،جو قوم اورجو ملک مہذب گفتگو کرنے کو اپنا شعائر نہیں بناتا،وہ قوم یا ملک اخلاقی تنزل اور تمدنی گراوٹ سے دو چار ہو جاتا ہے اور جس قوم میں ثقافتی تنزل اور تہذیبی پستی آجائے تو وہ قوم دنیا میں ترقی کے مدارج طے نہیں کر سکتی’’ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات یعنی مہذب گفتگو کرو،اللہ تمہارے کاموں کو سنوارے گا اور تمہارے گناہ معاف کرے گا‘‘۔

''قول معروف یعنی مہذب گفتگو کرنااور درگزر کرنااس خیرات سے بہتر ہے،جس کے پیچھے دل آزاری ہو۔''

جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہییے،کہ وہ مہذب گفتگو کرنے کی تاکید کرے یا چپ رہے غرض اسلامی تعلیمات میں نہ صرف مہذب گفتگو کرنے کی تاکید ہے،بلکہ فضول باتوں سے پرہیز کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے اور اگر کوئی مخاطب لغو باتیں کرے یا سب وشتم کہے تو قرآن مجید کی ہدایت یہ ہے،کہ ایسے جاہل کا جواب بھی تلخی سے نہ دیا جائے اور ہر حال میں اپنی سلامت روی کو باقی رکھا جائے،چنانچہ سورۂ فرقان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اور جب نا سمجھ ان کو خطاب کریں،تو وہ جواب میں سلامتی کی بات یعنی مہذب لہجہ اختیار کریں۔''

بات یہ ہے،کہ نرمی اور شائستگی سے مخاطب کے دل پر اثر ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیان دشمنی اور عداوت میں کمی آتی ہے،مہذب گفتگو سے لڑائی جھگڑا اور فساد پیدا نہیں ہوتا،اب سوال یہ ہے،کہ مہذب گفتگو کا مطلب کیا ہے؟تو اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے ،کہ بات ایسی کرنی چاہیے،جو فائدہ مند ہو اور اس سے دوسرے آدمی کے دل کو تکلیف نہ پہنچے،جن میں طعن و تشنیع یا دوسروں کی تحقیر کا پہلو ہو،تاکہ باہمی محبت،بھائی چارہ اور اخوت میں اضافہ ہو،سختی یا چیخ چیخ کر بات کرنا حماقت کی دلیل ہے،قرآن مجید نے مسلمانوں کی جو صفات بیان کی ہیں،ان میں سے ایک یہ ہے،کہ وہ جب بات کرتے ہیں،تو سوچ سمجھ کے کرتے ہیں،بے تکی اور لغو باتوں سے اجتناب کرتے ہیں،درحقیقت انسان کی زبان،انسان کا ذریعہ اظہار ہے،اس لئے ضروری ہے،کہ پہلے مطلب یعنی گفتگو کے مقصد کا تعین ہو جانا چاہیے،پھر یہ بھی ضروری ہے،کہ گفتگو بقدر ضرورت ہونا چاہیے،انسان کی زبان ایسی چیز ہے،کہ اگر زبان میٹھی ہو تو دوستی کی فضا پیدا ہوتی ہے اور اگر تلخ ہو تو دشمنی پھیلتی ہے،اسی لئے کہا جاتا ہے،کہ تلوار کا زخم بھر جاتا ہے،مگر بات کا زخم نہیں بھرتا۔گفتگو میں جلدی جلدی نہیں کرنا چاہیے،کہ بات مخاطب کی سمجھ میں نہ آسکے اور وہ بات کے مفہوم کو بھی گرفت میں نہ لا سکے،رسول اکرمؐ کا کلام ایک دوسرے سے الگ ہوتا تھا اور جو شخص اس کو سنتا تھا،سمجھ لیتا تھا اس سے جو تعلیم ملتی ہے،کہ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرنا چاہیے،تیزی کے ساتھ نہیں۔

اسلام چونکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات کا نام ہے،اپنی فکری اور نظریاتی درستی کے ساتھ ساتھ تمدنی زندگی کے لئے بھی ایک واضح عملی منصوبہ بھی دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے،اسلام محض عقیدہ ہی نہیں،بلکہ ایک تہذیب ایک تحریک اور تمدن بھی ہے،گفتگو یا تحریر سے بعض اوقات فخر و مباہات اور شہرت مقصود ہوتی ہے،اسلام اس مصنوعی گفتگو کی مخالفت کرتا ہے، حدیث میں ہے،کہ جو شخص ایسا اسلوب کلام اختیار کرتا ہے،کہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے،اللہ قیامت کے دن اس کا فدیہ اور توبہ قبول نہیں کرے گا۔اس لئے چاہیے،کہ ہم زندگی کے ہر شعبہ میں خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی،معاشرتی ہو یا قانونی،مادی ہو یا روحانی،معاشی ہو یا بین الاقوامی ہر موقع پر مہذب گفتگو کو اپنا شعار بنائیں،اسی میں قوم و ملک کی سربلندی اور دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

اچھی بات کی اہمیت: عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع قَالَ: الْقَوْلُ الْحَسَنُ يُثْرِي الْمَالَ وَ يُنْمِي الرِّزْقَ وَ يُنْسِي‏ فِي‏ الْأَجَلِ‏ وَ يُحَبِّبُ إِلَى الْأَهْلِ وَ يُدْخِلُ الْجَنَّةَ.- علی ابن الحسین علیہما السلام فرماتے ہیں: پیاری گفتگو مال کی فراوانی کا سبب اور موت کو ٹال دیتی ہے، حسن کلام انسان کو لوگوں کے درمیان محبوب کر دیتا ہے اور جنت میں داخل کر دیتا ہے۔{ابن بابويہ، محمد بن على، الأمالي ؛ النص ؛ ص2}۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .