حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید علی ہاشم عابدی نے اپنی ایک تحریر میں کہا کہ اسلام و انسانیت کا پاسبان واقعہ کربلا نظام قدرت میں شامل ہے اور یہ دنیا کا واحد واقعہ ہے جس کی یاد جس طرح واقعہ رونما ہونے کے بعد منائی جا رہی ہے اسی طرح واقعہ رونما ہونے سے پہلے بھی منائی گئی۔
انبیائے الہی کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر نبی نے امام حسین علیہ السلام پر گریہ کیا اور آپ کے قاتلوں خصوصاً یزید پلید پر لعنت فرمائی۔ رسول اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی پیشنگوئی کی اور اس پر گریہ فرمایا۔ اسی طرح امیرالمومنین علیہ السلام ، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور امام حسن علیہ السلام نے مختلف مواقع پر اس کو صراحت سے بیان فرمایا۔
واقعہ کربلا کے مورخین کا اتفاق ہے کہ حاکم شام کے دنیا سے گذر جانے کے بعد یزید پلید تخت نشین ہوا اور اس نے حاکم مدینہ کو خط لکھا کہ عبداللہ بن زبیر، عبد اللہ بن عمر اور امام حسین علیہ السلام سے بیعت لے لے۔ اگر وہ بیعت سے انکار کریں تو ان کا سر قلم کر کے اس کے پاس شام بھیج دیں۔
حاکم مدینہ نے مرکزی طاغوتی حکومت کے حکم کے مطابق امام حسین علیہ السلام کو دربار میں طلب کیا اور بیعت کا مطالبہ کیا اور اس سے سلسلہ میں گفتگو کی۔ بحث و مباحثہ میں امام حسین علیہ السلام نے اس مطالبہ کو ٹھکرا دیا اور ۲۸ رجب ۶۰ ہجری کو مدینہ سے رخصت ہوئے اور ۳ شعبان المعظم کو حرم الہی مکہ مکرمہ پہنچے۔ ۸ ذی الحجہ ۶۰ ہجری کو عین حج کے دن حرمت کعبہ کے تحفظ کی خاطر مکہ سے رخت سفر باندھا اور دو محرم کو وارد کربلا ہوئے۔
اگر ہم ۲۸ رجب بلکہ اس سے پہلے مطالبہ بیعت کے وقت سے عاشور تک کے حالات پر اجمالی نظر کریں تو ہمیں یہی ملے گا کہ امام عالی مقام نے اپنی تقریر و تحریر میں سنتوں کی پامالی اور بدعتوں کی ایجادات پر لوگوں کو متوجہ فرمایا۔ احکام الہی کی تعطیل اور بندگان خدا کے بے جرم و خطا بہتے خون اور ظالم حکومتوں کی جانب سے عوام پر ہو رہے مظالم کہ جس سے انسانیت محزون اور بشریت اشکبار تھی آگاہ کیا۔
دوسری جانب یزید کی پوری کوشش تھی کہ سابق کی طرح ظلم کی نئی تاریخ رقم کرے اور ساتھ ہی برا کہنے کے بجائے اسے خلیفۃ المسلمین و امیرالمومنین بھی کہا جائے۔ لیکن اللہ رے حکمت حسینی کہ اس کے سارے منصوبوں پر پانی پھر گیا۔ کیوں کہ امام حسین علیہ السلام نے جہاں مختصر لیکن معتبر اشخاص پیر و جواں ساتھ لائے جنہوں نے اپنی قربانیوں سے موت کو مات دے دی وہیں ان قربانیوں کی تبلیغ، ترویج اور تحفظ کے لئے اہل حرم بھی ہمراہ لائے جنہیں رسن بستہ قید کیا گیا لیکن ان اسیروں نے یزیدیت کو ہمیشہ کے لئے اسیر کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں خون جیت گیا تلوار ہار گئی۔ ستمدیدہ سرخرو اور ستمگر شکست کھا گئے۔ مظلوم فتحیاب ہوئےاور ظالم ہار گئے کہ حاکم مدینہ کو قتل حسین علیہ السلام کا حکم دینے والا یزید جو اپنی فتح کا نقارہ بجا رہا تھا وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہو کر سارے جرائم کا ذمہ دار ابن زیاد کو بتانے لگا۔ لیکن حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کے علم و حکمت اور فہم و فراست نے اس کی کوئی چال کامیاب نہ ہونے دی اور رہتی دنیا تک نام یزید داخل دشنام ہو گیا۔ نہ صرف یزید بلکہ پورے سلسلہ کے چہرے سے نقابیں الٹ گئیں اوران کی اسلام دشمنی لوگوں پر عیاں ہو گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم کردگار سے میدان غدیر میں ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی ولایت و امامت کا اعلان کرتے ہوئے رہتی دنیا کی ہدایت کے لئے جس مکتب امامت کا آغاز کیا تھا آپ کی شہادت کے بعد بلا تاخیر منافقین نے اسی مکتب امامت کے مقابلے میں مکتب خلافت کو شروع کیا۔ اگرچہ یہ سازش حضور کی حیات طیبہ میں ہی رچی جا چکی تھی۔
منافقین نے حجۃ البلاغ (حجۃ الوداع) میں ہی اعلان غدیر سے پہلے مکہ مکرمہ میں صحیفہ ملعونہ لکھ کر کعبہ کے پاس دفن کر دیا، اعلان غدیر اور امیرالمومنین علیہ السلام کی بیعت کرنے کے بعد جب منافقین مدینہ واپس آئے تو دوبارہ ایک گھر میں جمع ہوئے جہاں دوسرا صحیفہ ملعونہ لکھا گیا۔ جس کے نتیجہ میں حضورؐ کے حکم کے باوجود لشکر اسامہ میں شمولیت سے کنارہ کشی کی گئی۔ نماز جماعت میں امامت کی کوشش اور کاغذ و قلم سے انکار اسی مکتب خلافت کے ابتدائی اقدامات میں سے ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی اور اپنے فرزند کی جان مکتب امامت کی پاسبانی اور مکتب خلافت کی مخالفت میں قربان فرما دی۔ شب کی تاریکی میں مولا علی، امام حسن و امام حسین علیہم السلام کےہمراہ احقاق حق اور ابطال باطل کی خاطر انصار کے گھر گئیں، مسجد میں جا کر خطبہ دیا جسے خطبہ فدک کہتے ہیں۔ اسی طرح امیرالمومنین علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام نے ہر موقع پر مکتب امامت کی حقانیت اور مکتب خلافت کے بطلان کی جانب لوگوں کو متوجہ کیا۔
یہی مکتب خلافت تھا جس نے امیرالمومنین علیہ السلام کو حکومت سے محروم کیا جس کے نتیجہ میں انسانیت قیامت تک اللہ کے بنائے نظام ہدایت سے محروم ہو گئی۔ سنہ ۱۱ ہجری میں شروع ہونے والا مکتب خلافت سنہ ۴۱ہجری میں ملوکیت میں بدل گیا۔ جس کے نتیجہ میں صلح کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یزید پلید کی ولی عہدی کا اعلان ہوا۔ حاکم شام کے بعد اس کا بیٹا حاکم ہوا اور اسنے اپنے اسلاف کی طرح امامت کو خلافت و ملوکیت کا تابع بنانے کی خاطر امام حسین علیہ السلام سے مطالبہ بیعت کیا۔ امام حسین علیہ السلام نے انکار بیعت کے ہنگام فرمایا:مثلی لا یبایع مثلہ؛ یعنی حسین (علیہ السلام) جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا جس کا واضح مطلب ہے کہ یہاں شخص یزید کا انکار نہیں بلکہ پورے سلسلہ کا انکار ہے۔ چاہے وہ ماضی ہو، حال ہو یا مستقبل میں ہو۔
ہمارے مدعا کی دلیل زیارت عاشورا ہے کہ اس میں جہاں پورے سلسلہ پر بالترتیب لعنت اور اظہار برائت موجود ہے۔ نیز شہدائے کربلا یعنی امام حسین علیہ السلام کے اصحاب و انصار کو زیارت شہداء میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے صرف آپ کا انصار نہیں کہا بلکہ پنجتن کے انصار کے عنوان سے مخاطب کر کے سلام کیا جس سے واضح ہوتا ہے کربلا کی جنگ صرف یزید کے خلاف نہیں تھی بلکہ پورے مکتب کے خلاف تھی۔
کتنے تعجب کی بات ہے کہ تمام شواہد و قرائن کے باوجود لوگ اس انقلاب اور عظیم قیام کو یزید تک محدود کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ اہلبیت علیہم السلام نے مکتب خلافت سے اختلاف کے باوجود کبھی بھی اس کے خلاف قیام نہیں کیا جب کہ تاریخی شواہد و قرائن اس بات کے غماز ہیں کہ مکتب امامت ہمیشہ مکتب خلافت و ملوکیت سے برسر پیکار رہا۔ اسی لئے مکتب خلافت کے پیروکاروں نے امام حسین علیہ السلام کے تذکرہ کو یہ کہتے ہوئے حرام قرار دیا کہ اس سے بغض صحابہ پیدا ہوتا ہے۔
ظاہر جب ایک با شعور انسان کتاب کربلا کا مطالعہ کرے گا تو اسے یہ جستجو دامن گیر ہو گی کہ آخر یزید جیسا فاسق و فاجر، قاتل و ظالم کیسے بر سر اقتدار ہوا؟ وہ کس سلسلہ کی کڑی تھا؟ کس مکتب کا نقیب تھا؟ تو تحقیق و جستجو یہی نتیجہ دیں گی کہ وہ اسی سلسلہ کی کڑی تھا جس نے شہادت رسول کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کو حکومت سے محروم کیا اور وہ اسی مکتب خلافت و ملوکیت کا نقیب تھا جو مکتب امامت کے مقابلہ میں وجود آیا۔ یہی وہ نکتہ جو کوشش کرنے والوں کی ساری کوششوں کا ناکام بنا دیتا ہے کہ مکتب امامت کے رہبر و پیشوا امام حسین علیہ السلام کا قیام صرف یزید نہیں بلکہ پورے مکتب خلافت و ملوکیت کے خلاف تھا ۔
کربلا میں تو مری لاش پڑی ہے ورنہ
واقعہ یہ ہے کہ مقتل ہے سقیفہ میرا (وقار سلطانپوری)