۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 366506
12 مارچ 2021 - 03:38
تقویم

حوزه/تقویم حوزہ:رسول اللہ(ص) مشرکین کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مکہ سے ہجرت کر مدینہ آنے پر مجبور ہوئے تو فرزندِ رسول(ص) کو ان مشرکین کی منافق اولاد کی سازشوں کی بنا پر ۲۸رجب ۶۰ہجری کو مدینہ چھوڑ کر مکہ اور پھر عراق کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ یہ مشرکین اور منافقین کی مشرک اور منافق اولاد ہی تھی جس نے امام حسین(ع) کو قتل کر کے کہا: کاش میرے بدر میں مارے گئے آباء و اجداد آج زندہ ہوتے اور میرے اس کارنامے کو دیکھ کر کہتے تیرے ہاتھ سلامت رہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسیl

آج:
 Friday - 12 March 2021
جمعہ، ۲۸رجب المرجب ۱۴۴۲

آج کا دن منسوب ہے:
صاحب العصر و الزمان حضرت حجة بن الحسن العسكري عليهما السّلام

آج کے اذکار:
- اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَعَجِّلْ فَرَجَهُمْ (100 مرتبه)
- یا ذاالجلال و الاکرام (1000 مرتبه)
- یا نور (256 مرتبه) عزیز ہونے کے لیے

رونما واقعات:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ اور امام علی علیہ السلام کے توسط سے پہلی نماز جماعت قائم ہوئی
امام حسین علیہ السلام کا مدینے سے مکہ کی جانب سفر "۶۰ہجری "

درپیش مناسبتیں:
▪️5 روز تا ولادت امام حسین علیه السلام
▪️6 روز تا ولادت حضرت عباس علیه السلام
▪️7 روز تا ولادت حضرت سجاد علیه السلام
▪️13 روز تا ولادت حضرت علی اکبر علیه السلام
▪️17 روز تا ولادت حضرت صاحب الزمان (عج)

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

رسول اللہ(ص) مشرکین کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مکہ سے ہجرت کر مدینہ آنے پر مجبور ہوئے تو فرزندِ رسول(ص) کو ان مشرکین کی منافق اولاد کی سازشوں کی بنا پر ۲۸رجب ۶۰ہجری کو مدینہ چھوڑ کر مکہ اور پھر عراق کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ یہ مشرکین اور منافقین کی مشرک اور منافق اولاد ہی تھی جس نے امام حسین(ع) کو قتل کر کے کہا: کاش میرے بدر میں مارے گئے آباء و اجداد آج زندہ ہوتے اور میرے اس کارنامے کو دیکھ کر کہتے تیرے ہاتھ سلامت رہیں۔

مدینہ سے مکہ اور عراق کی طرف امام حسین(ع) کی ہجرت اسلام کے دعویداروں کی سازشوں کا نتیجہ تھی۔ یہاں اس ہجرت کے حوالے سے اختصاراً مدینہ سے امام حسین(ع) کی روانگی کا ذکر کرتے ہیں:

واقعہ کربلا کا آغاز حضرت امام حسین علیہ السلام جب پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفی(ص) کی زندگی کے آخری لمحات سے لے کرامام حسن(ع) کی حیات کے آخری ایام تک بحرمصائب وآلام کے ساحل سے گزرتے ہوئے زندگی کے اس عہد میں داخل ہوئے جس کے بعد آپ کے علاوہ پنجتن میں کوئی باقی نہ رہا توآپ کا سفینہ حیات خود گرداب مصائب میں آ گیا امام حسن کی شہادت کے بعد سے معاویہ کی تمام تر جدوجہد یہی رہی کہ کسی طرح امام حسین کاچراغ زندگی بھی اسی طرح گل کر دے، جس طرح حضرت علیؑ اورامام حسنؑ کی شمع حیات بجھا چکا ہے اور اس کے لیے وہ ہرقسم کا داؤں کرتا رہا اور اس سے کا مقصد صرف یہ تھا کہ یزید کی خلافت کے منصوبہ کو پروان چڑھائے، بالآخراس نے ۵۶ ء میں ایک ہزارکی جمیعت سمیت یزید کے لیے بیعت لینے کی غرض سے حجاز کا سفر اختیار کیا اور مدینہ منورہ پہنچا۔

وہاں امام حسینؑ سے ملاقات ہوئی اس نے بیعت یزید کا ذکر کیا، آپ نے صاف لفظوں میں اس کی بدکرداری کا حوالہ دے کر انکار کر دیا، معاویہ کو آپ کا انکار کھلا تو بہت زیادہ لیکن چند الٹے سیدھے الفاظ کہنے کے سوا اور کچھ کر نہ سکا اس کے بعد مدینہ اور پھر مکہ میں بیعت یزید لے کر شام کو واپس چلا گیا۔

علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ معاویہ نے جب مدینہ میں بیعت کاسوال اٹھایا تو حسین بن علی، عبدالرحمن بن ابی بکر،عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر نے بیعت یزید سے انکار کر دیا اس نے بڑی کوشش کی لیکن یہ لوگ نہ مانے اور امام حسین کے علاوہ سب مدینہ سے چلے گئے۔ (روضة الشہداء ص ۲۳۴) ۔

معاویہ بڑی تیزی کے ساتھ بیعت لیتا رہا اور بقول علامہ ابن قتیبہ اس سلسلہ میں اس نے ٹکوں میں لوگوں کے دین بھی خرید لیے، الغرض رجب 60ھ میں معاویہ رخت سفر باندھ کر دنیا سے چلا گیا، یزید جو اپنے باپ کے مشن کو کامیاب کرنا ضروری سمجھتا تھا سب سے پہلے مدینہ کی طرف متوجہ ہو گیا اور اس نے وہاں کے والی ولید بن عقبہ کو لکھا کہ امام حسین،عبدالرحمن بن ابی بکر،عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیرسے میری بیعت لے لے، اور اگر یہ انکار کریں تو ان کے سر کاٹ کر میرے پاس بھیج دے، ابن عقبہ نے مروان سے مشورہ کیا اس نے کہا کہ سب بیعت کر لیں گے لیکن امام حسینؑ ہرگز بیعت نہ کریں گے اور تجھے ان کے ساتھ پوری سختی کا برتاؤ کرنا پڑے گا۔

صاحب تفسیرحسینی علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ ولید نے ایک شخص (عبدالرحمن بن عمربن عثمان) کو امام حسین اورابن زبیر کو بلانے کے لیے بھیجا، قاصد جس وقت پہنچا دونوں مسجد میں محوگفتگو تھے آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم چلو ہم آتے ہیں، قاصد واپس چلا گیا اور یہ دونوں آپس میں بلانے کے سبب پرتبادلہ خیالات کرنے لگے امام حسین نے فرمایا کہ میں نے آج ایک خواب دیکھا ہے جس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ معاویہ نے انتقال کیا اور یہ ہمیں بیعت یزید کے لیے بلا رہا ہے ابھی یہ حضرات جانے نہ پائے تھے کہ قاصد پھر آ گیا اور اس نے کہا کہ ولید آپ حضرات کے انتظارمیں ہے امام حسین نے فرمایا کہ جلدی کیا ہے جا کرکہہ دو کہ ہم تھوڑی دیرمیں آ جائیں گے۔

اس کے بعدامام حسینؑ دولت سرا میں تشریف لائے اور ۳۰ بہادروں کو ہمراہ لے کر ولید سے ملنے کا قصد فرمایا آپ داخل دربار ہو گئے اور بہادران بنی ہاشم بیرون خانہ درباری حالات کا مطالعہ کرتے رہے ولید نے امام حسین کی تعظیم کی اورخبرمرگ معاویہ سنانے کے بعد بیعت کا ذکرکیا، آپ نے فرمایاکہ مسئلہ سوچ بچارکا ہے تم لوگوں کوجمع کرو اورمجھے بھی بلا لو میں ”علی روس الاشہاد“ یعنی عام مجمع میں اظہارخیال کروں گا۔

ولید نے کہا بہترہے، پھرکل تشریف لائیے گا ابھی آپ جواب بھی نہ دینے پائے تھے کہ مروان بول اٹھا اے ولید اگر حسین اس وقت تیرے قبضہ سے نکل گئے تو پھر ہاتھ نہ آئیں گے ان کو اسی وقت مجبور کر دے اور ابھی ابھی بیعت لے لے اوراگر یہ انکارکریں توحکم یزید کے مطابق سرتن سے اتار لے یہ سننا تھا کہ امام حسین کوجلال آ گیا آپ نے فرمایا ”یابن الزرقا“ کس میں دم ہے کہ حسین کوہاتھ لگا سکے، تجھے نہیں معلوم کہ ہم آل محمد ہیں فرشتے ہمارے گھروں میں آتے رہتے ہیں ہمیں کیونکر مجبورکیا جا سکتا ہے کہ ہم یزید جیسے فاسق وفاجر اور شرابی کی بیعت کر لیں، امام حسین کی آواز کا بلند ہونا تھا کہ بہادران بنی ہاشم داخل دربار ہو گئے اورقریب تھا کہ زبردست ہنگامہ برپا کر دیں لیکن امام حسین نے انہیں سمجھا بجھا کر خاموش کر دیا اس کے بعد امام حسین واپس دولت سرا تشریف لے گئے ولید نے سارا واقعہ یزید کو لکھ کربھیج دیا اس نے جواب میں لکھا کہ اس خط کے جواب میں امام حسین کا سربھیج دو،ولید نے یزید کاخط امام حسین کے پاس بھیج کر کہلا بھیجا کہ فرزندرسول ،میں یزید کے کہنے پرکسی صورت سے عمل نہیں کرسکتا لیکن آپ کو باخبر کرتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کہ یزید آپ کے خون بہانے کے درپے ہے_

امام حسین نے صبرکے ساتھ حالات پرغورکیا اور نانا کے روضہ پر جا کردرد دل بیان فرمایا اور بے انتہا روئے، صبح صادق کے قریب مکان واپس آئے دوسری رات کو پھر روضہ رسول پرتشریف لے گئے اورمناجات کے بعد روتے روتے سو گئے خواب میں آنحضرت کو دیکھا کہ آپ حسین کی پیشانی کا بوسہ لے رہے ہیں اورفرما رہے ہیں کہ اے نورنظرعنقریب امت تمہیں شہید کر دے گی بیٹا تم بھوکے پیاسے ہوں گے تم فریاد کرتے ہوں گے اور کوئی تمہاری فریاد رسی نہ کرے گا امام حسین کی آنکھ کھل گئی آپ دولت سرا واپس تشریف لائے اور اپنے اعزا کو جمع کر کے فرمانے لگے کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ میں مدینہ کوچھوڑ دوں، ترک وطن کا فیصلہ کرنے کے بعد روضہ امام حسنؑ اورمزارجناب سیدہ سلام اللہ علیہا پرتشریف لے گئے بھائی سے رخصت ہوئے ماں کوسلام کیا قبرسے جواب سلام آیا، نانا کے روضہ پر رخصت آخری کے لیے تشریف لے گئے روتے روتے سوگئے سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ نے خواب میں صبرکی تلقین کی اورفرمایا بیٹا ہم تمہارے انتظارمیں ہیں۔

علماء کابیان ہے کہ امام حسین ۲۸/ رجب۶ ۰ ھ یوم سہ شنبہ کومدینہ منورہ سے بارادہ مکہ معظمہ روانہ ہوئے علامہ ابن حجرکاکہناہے کہ ”نفرلمکتہ خوفا علی نفسہ“ امام حسین جان کے خوف سے مکہ تشریف لے گئے (صواعق محرقہ ص ۴۷)۔

آپ کے ساتھ تمام مخدرات عصمت وطہارت اورچھوٹے چھوٹے بچے تھے البتہ آپ کی ایک صاحبزادی جن کانام فاطمہ صغری تھا اورجن کی عمراس وقت ۷/ سال تھی بوجہ علالت شدیدہ ہمراہ نہ جاسکیں امام حسینؑ نے آپ کی تیمارداری کے لیے حضرت عباس کی ماں جناب ام البنین کومدینہ میں ہی چھوڑدیاتھا اورکچھ فریضہ خدمت ام المومنین جناب ام سلمہ کے سپردکردیاتھا، آپ ۳/ شعبان ۶۰ ھ یوم جمعہ کومکہ معظمہ پہنچ گئے آپ کے پہنچتے ہی والی مکہ سعیدابن عاص مکہ سے بھاگ کرمدینہ چلاگیا اوروہاں سے یزیدکومکہ کے تمام حالات لکھے اوربتایاکہ لوگوں کارجحان امام حسینؑ کی طرف اس تیزی سے بڑھ رہاہے جس کاجواب نہیں ،یزیدنے یہ خبرپاتے ہی مکہ میں قتل حسینؑ کی سازش پرغورکرناشروع کردیا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .