۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
News ID: 366477
11 مارچ 2021 - 05:45
بعثت

حوزه/تقویم حوزہ:۲۷ رجب المرجب ۱۴۴۲؛بعثتِ حضرت رسول صلی الله علیه و آله و سلم، ہجرت سے تیرہ سال پہلے،مَبعَث یا بعثت، اسلامی اصطلاح میں اس دن کو کہا جاتا ہے جس میں حضرت محمدؐ کو پیغمبری پر مبعوث کیا گیا۔روایات میں مبعث کی رات اور دن کے بعض اعمال ذکر ہوئے ہیں جن کو انجام دینا مستحب ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسیl

آج:

Thursday - 11 March 2021
جمعرات، ۲۷رجب المرجب۱۴۴۲

آج کا دن منسوب ہے:

حضرت حسن بن علي العسكري عليهما السّلام

آج کے اذکار:
- لا اِلهَ اِلّا اللهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ الْمُبین (100 مرتبه)
- یا غفور یا رحیم (1000 مرتبه)
- یا رزاق (308 مرتبه) وسعت رزق کے لیے

رونما واقعات:
بعثتِ حضرت رسول صلی الله علیه و آله و سلم، ہجرت سے تیرہ سال پہلے

درپیش مناسبتیں:
▪️6 روز تا ولادت امام حسین علیه السلام
▪️7 روز تا ولادت حضرت عباس علیه السلام
▪️8 روز تا ولادت حضرت سجاد علیه السلام
▪️14 روز تا ولادت حضرت علی اکبر علیه السلام
▪️18 روز تا ولادت حضرت صاحب الزمان (عج)

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

مَبعَث یا بعثت، اسلامی اصطلاح میں اس دن کو کہا جاتا ہے جس میں حضرت محمدؐ کو پیغمبری پر مبعوث کیا گیا۔ یوں یہ دن دین اسلام کا سر آغاز قرار پاتا ہے۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو اس وقت آپؐ کی عمر 40 سال تھی اور آپ غار حراء جو کوه نور (مکہ سے نزدیک ایک پہاڑی) میں واقع ہے، میں خدا کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول تھے۔ شیعوں کے یہاں مشہور ہے کہ یہ واقعہ 27 رجب کو ہجرت سے 13 سال قبل پیش آیا ہے۔

پیغمبر اکرمؐ کی بعثت سے پہلے مکہ اور اس کے گرد و نواح کے لوگ اکثر بت پرست تھے۔ جبکہ بعض دیگر آسمانی شریعتوں کے ماننے والے بھی اس سرزمین کے بعض حصوں میں زندگی بسر کرتے تھے لیکن آپؐ کی بعثت کے بعد دین اسلام تیزی سے پھیلنے لگا یوں حجاز سے بت پرستی کا قلع و قمع ہوا۔

یہ دن مسلمانوں بالاخص شیعوں کے یہاں نہایت خوشی کا دن ہے اور عید مبعث کے نام سے مشہور ہے جسے ہر سال 27 رجب کو نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔

دینی اصطلاح میں خدا کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کیلئے کسی نبی یا رسول کے بھیجنے کو بعثت کہا جاتا ہے۔اس بنا پر روز مبعث یا عید مبعث اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن حضرت محمدؐ رسالت پر مبعوث ہوئے۔

یہ لفط قرآن کریم کی مختلف سورتوں میں مذکورہ معنی میں استعمال ہوا ہے۔اسی طرح قرآن کریم میں قیامت کے دن مردوں کے زندہ ہونے کو بھی بعثت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان تمام موارد میں بعثت کو "اللہ" کی طرف نسبت دی گئی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسولوں کا بھیجنا اور مردوں کو زنده کرنا خدا کا کام ہے۔

پیغمبر اکرمؐ 40 سال کی عمر میں مبعوث بہ رسالت ہوئے جبکہ غیر مشہور قول کے مطابق 43 سال کی عمر میں مبعوث ہوئے۔ اس اختلاف کی وجہ بعثت کے مفہوم میں اختلاف ہے کہ بعثت کا آغاز قرآن کی پہلی آیت کے نزول سے ہوتا ہے یا پہلی بار باقاعدہ طور پر دین اسلام کی تبلیغ سے۔

مورخین کے مطابق بعثت کا واقعہ پیر کے دن 27 رجب سنہ 40 عام الفیل کو پیش آیا ان دنوں ایران میں خسرو پرویز کی حکومت بیسویں سال میں داخل ہو چکی تھی۔ بعض قول کے مطابق روز مبعث 17 یا 18 رمضان، یا ربیع الاول کے مہینے کی کسی تاریخ کو یہ واقعہ پیش آیا، اگرچہ اہل تشیع کے نزدیک پہلا قول درست ہے۔

حضرت محمدؐ غار حراء میں عبادت میں مشغول تھے اسی اثنا میں سورہ علق کی پہلی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ آپؐ کی بعثت کا آغاز ہوا اور سورہ مدثر کی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ وحی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔

پیغمبر اکرمؐ نے سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ(س) اور اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؑ کو اس واقعے سے آگاہ فرمایا۔ اس واقعے کے تین سال بعد سورہ شعراء کی آیت نمبر 214 وَأَنذِرْ عَشِیرَتَک الْأَقْرَبِینَ (ترجمہ: اور پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے) کے نزول کے ساتھ آپؐ کی رسالت اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئی اور اسی سال سورہ حجر کی آیت نمبر 94 فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکینَ (ترجمہ: پس جو ذمہ داری تمہیں دی گئی ہے اسے انجام دو اور مشرکان سے دوری اختیار کرو) کے نزول کے ذریعے آپؐ کو اپنی پیغمبری کا عمومی اعلان کرتے ہوئے اپنی دعوت کے دائرہ کو وسیع کرنے کا حکم آیا یوں آپؐ نے پہلی بار بازار عکاظ میں جہاں پر سب لوگ تجارت کے لئے جمع تھے اور کچھ لوگ اپنے نئے اشعار سنارہے تھے، عمومی طور پر دین اسلام کی دعوت دی۔

اس دن ابو لہب نے آپ کا مذاق اڑایا جسے دیکھ کر بعض دوسروں نے بھی آپؐ کو اذیت وآزار پہنچائی لیکن حضرت ابوطالب نے آپؐ کی حمایت کرتے ہوئے ان لوگوں کی تنبیہ کی۔ کچھ لوگوں نے آپ پر ایمان لے آیا اور ان لوگوں میں شامل ہو گئے جنہوں نے پہلے تین سالوں میں مخفیانہ طور پر آپ پر ایمان لا چکے تھے۔

جب حضرت محمدؐ پر پہلی مرتبہ جبرائیل وحی لے کر آئے تو رسالت کے اس عظیم ذمہ داری کا بوجھ آپ پر سنگینی کر رہا تھا۔ چنانچہ جب آپؐ گھر تشریف لے آئے تو اپنی زوجہ سے فرمایا: "میرے اوپر کپڑا ڈال دو"، لیکن کسی قسم کے ابہام اور شگفتی کے بارے میں کچھ بیان نہیں ہوا ہے، اور اس سے پہلے کہ جبرائیل آپؐ پر وحی لے کر نازل ہو اور آپؐ کی نظر مبارک جبرئیل پر پڑھے آپؐ اس کے آثار سے واقف تھے۔ بچپن سے ہی آپ اپنی اندرونی پاکی اور مکہ کے فاسد معاشرے کی وجہ سے ہمیشہ شہر سے دور اکیلا ہی رہنا پسند فرماتے تھے۔ اسی لئے آپ ایک مہینہ مکے کے اطراف پہاڑوں پر گزارتے اور پھر شہر واپس لوٹتے اور عالم غیب کے بارے میں بھی کچھ خواب دیکھے ہوئے تھے، بعثت سے پہلے وحی کی آواز فرشتے کی زبانی سننا اور ٣ سال اسرافیل اور ٢٠ سال جبرائیل سے رابطہ برقرار رکھنے (٢٣) کی وجہ سے آپ ذھنی طور پر پیغمبری کے لئے تیار تھے۔ اگر ان روایات کو قبول کریں، تو دوسری روایات جو حضرت پیغمبرؐ کے بارے میں بیان ہوئی ہیں کہ جب آپ پر وحی نازل ہوئی اور آپ پریشان حال گھر میں داخل ہوئے اور حضرت خدیجہ (س) سے مشورت لی اور ورقہ بن نوفل جو کہ آپکی پیغمبری کے گواہ تھے انہوں نے آپ کو دلداری دی، یہ روایات آپؐ کی رسالت کی اس بھاری ذمہ داری میں آپکی بصیرت و بینش کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔

بعثت کا واقعہ مسلمانوں کی رسومات میں ایک خاص منزلت رکھتا ہے۔ شیعہ 27 رجب کو عید مبعث کی مناسبت سے جشن مناتے ہیں۔ اہل سنت کے مطابق بعثت کا واقعہ ماہ مبارک رمضان میں پیش آیا لیکن چونکہ کوئی خاص تاریخ معین نہیں لہذا کوئی خاص جشن وغیرہ نہیں مناتے ہیں۔ایران اور عراق کے بعض صوبوں میں اس دن عام تعطیل ہوتی ہے۔

روایات میں مبعث کی رات اور دن کے بعض اعمال ذکر ہوئے ہیں جن کو انجام دینا مستحب ہے۔

مبعث کے دن اور رات کے اعمال
رات کے اعمال
  • غسل کرنا
  • زیارت امیرالمومنینؑ پڑھنا
  • ۱۲ رکعت نماز اس طرح پڑھنا کہ ہر رکعت میں سورہ حمد، فلق اور ناس ایک بار اور سورہ اخلاص چار مرتبہ پڑھے۔ نماز کے بعد یہ کہا جائے: لا اله الا الله والله اکبر الحمد لله وسبحان الله ولا حول ولا قوه الا بالله العلی العظیم

بعثت کی شب کو لیلۃ المحیاٗ کہا جاتا ہے جو شب بیداری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ 

دن کے اعمال
  • غسل کرنا۔
  • روزہ رکھنا۔
  • محمد و آل محمد پر صلوات بھیجنا۔
  • زیارت رسول خدا پڑھنا۔
  • 12 رکعت اس طرح پڑھنا کہ جس کی ہر رکعت میں سورہ حمداور سورہ یسٓ پڑھی جائے۔ نماز کے بعد چار مرتبہ سورہ حمد پڑھے پھر چار مرتبہ یہ کہے اللہ ربی لا اشرک به شیئا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .