۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
تقویم

حوزه/تقویم حوزہ: ۱ شعبان المعظم ۱۴۴۲

حوزہ نیوز ایجنسیl

آج:
Monday - 15 March 2021
سوموار: ۱ شعبان المعظم ۱۴۴۲

عطر قرآن:
مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿سورة الأنعام،١٦٠﴾؛جو شخص بھی نیکی کرے گا اسے دس گنا اجر ملے گا اور جو برائی کرے گا اسے صرف اتنی ہی سزا ملے گی اور کوئی ظلم نہ کیا جائے گا۔

عطر حدیث:
روي عن رسول الله ( صلى الله عليه و آله ) أنهُ قَالَ : من صام أول يوم من شعبان كتب الله له سبعين حسنة، الحسنة تعدل عبادة سنة؛جوکوئی ماہ شعبان کے پہلے دن روزہ رکھے تو اللہ اس کے لیے ستّر نیکیاں تحریر فرمادیتا ہے،ایسی ستّر نیکیاں جس کی ہر نیکی ایک سال کی عبادت کے برابر ہے۔۔[وسائل الشيعة ج 10 ص 481 ـ 500]

منسوب دن:
سبط النبي حضرت امام حسن مجتبی علیه السّلام
سیدالشهدا و سفينة النجاة حضرت امام حسین علیهما السّلام

 اذکار:
- یا قاضِیَ الْحاجات (100 مرتبه)
- سبحان الله و الحمدلله (1000 مرتبه)
- یا لطیف (129 مرتبه) کثرت مال کے لیے

رونما واقعات:
ولادت عقیلہ بنی ھاشم،فہیمہ غیر مفہمہ عالمہ غیر معلمہ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا بنت امیر المومنین علیؑ ابن ابی طالب، آپ یکم شعبان (اور  بعض منابع کے مطابق  5 جمادی‌ الاول 5 یا 6ھ کو مدینہ میں  اس دنیا میں تشریف لائیں۔

درپیش مناسبتیں:
▪️2 روز تا ولادت امام حسین علیه السلام
▪️3 روز تا ولادت حضرت عباس علیه السلام
▪️4 روز تا ولادت حضرت سجاد علیه السلام
▪️10 روز تا ولادت حضرت علی اکبر علیه السلام
▪️14 روز تا ولادت حضرت صاحب الزمان (عج)

آج کی مستحب نماز: 

امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت ہے: جو کوئی دو شنبےکو دس رکعت نماز بجالائے اور ہر رکعت میں «حمد» اور دس مرتبہ سورۂ «توحید»  پڑھے، حق‌تعالی قیامت میں اس کے لیے ایک ایسا نور قرار دے گا جو اس کی منزل[موقف] کو روشن رکھے گا اور سبھی اس پر غبطہ کریں گے۔راوی نے امامؑ سے پوچھا کہ دن کے کس وقت یہ نماز پڑھے؟ آپؑ نے فرمایا: طلوع آفتاب اور ظہر کے آغاز کے پہلے حصے میں۔

آج کے دن کی دعا:

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ، الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِى لَمْ يُشْهِدْ أَحَداً حِينَ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ، وَلَا اتَّخَذَ مُعِيناً حِينَ بَرَأَ النَّسَمَات ، لَمْ يُشَارَكْ فِى الْإِلٰهِيَّةِ، وَلَمْ يُظاهَرْ فِى الْوَحْدَانِيَّةِ، كَلَّتِ الأَلْسُنُ عَنْ غَايَةِ صِفَتِهِ، وَالْعُقُولُ عَنْ كُنْهِ مَعْرِفَتِهِ، وَتَوَاضَعَتِ الْجَبابِرَةُ لِهَيْبَتِهِ، وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِخَشْيَتِهِ، وَانْقَادَ كُلُّ عَظِيمٍ لِعَظَمَتِهِ، فَلَكَ الْحَمْدُ مُتَواتِراً مُتَّسِقاً، وَمُتَوالِياً مُسْتَوْسِقاً وَصَلَوَاتُهُ عَلَىٰ رَسُو لِهِ أَبَداً، وَسَلامُهُ دَائِماً سَرْمَداً،اللّٰهُمَّ اجْعَلْ أَوَّلَ يَوْمِى هٰذَا صَلاحاً، وَأَوْسَطَهُ فَلاحاً، وَآخِرَهُ نَجَاحاً؛ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ يَوْمٍ أَوَّلُهُ فَزَعٌ، وَأَوْسَطُهُ جَزَعٌ، وَآخِرُهُ وَجَعٌ . اللّٰهُمَّ إِنِّى أَسْتَغْفِرُكَ لِكُلِّ نَذْرٍ نَذَرْتُهُ، وَكُلِّ وَعْدٍ وَعَدْتُهُ، وَكُلِّ عَهْدِ عَاهَدْتُهُ ثُمَّ لَمْ أَفِ بِهِ،وَأَسْأَلُكَ فِى مَظَالِمِ عِبَادِكَ عِنْدِى، فَأَيُّما عَبْدٍ مِنْ عَبِيدِكَ أَوْ أَمَةٍ مِنْ إِمَائِكَ، كَانَتْ لَهُ قِبَلِى مَظْلِمَةٌ ظَلَمْتُهَا إِيَّاهُ، فِى نَفْسِهِ، أَوْ فِى عِرْضِهِ، أَوْ فِى مَالِهِ، أَوْ فِى أَهْلِهِ وَ وَلَدِهِ، أَوْ غِيبَةٌ اغْتَبْتُهُ بِهَا، أَوْ تَحَامُلٌ عَلَيْهِ بِمَيْلٍ أَوْ هَوَىً، أَوْ أَنَفَةٍ أَوْ حَمِيَّةٍ أَوْ رِيَاءٍ أَوْ عَصَبِيَّةٍ، غَائِباً كَانَ أَوْ شَاهِداً، وَ حَيّاً كَانَ أَوْ مَيِّتاً، فَقَصُرَتْ يَدِى، وَضَاقَ وُسْعِى عَنْ رَدِّهَا إِلَيْهِ وَالتَّحَلُّلِ مِنْهُ؛ فَأَسْأَلُكَ يَا مَنْ يَمْلِكُ الْحَاجَاتِ، وَهِىَ مُسْتَجِيبَةٌ لِمَشِيَّتِهِ، وَمُسْرِعَةٌ إِلَىٰ إِرادَتِهِ، أَنْ تُصَلِّىَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَأَنْ تُرْضِيَهُ عَنِّى بِمَا شِئْتَ، وَتَهَبَ لِى مِنْ عِنْدِكَ رَحْمَةً، إِنَّهُ لَاتَنْقُصُكَ الْمَغْفِرَةُ، وَلَا تَضُرُّكَ الْمَوْهِبَةُ، يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ،اللّٰهُمَّ أَوْلِنِى فِى كُلِّ يَوْمِ اثْنَيْنِ نِعْمَتَيْنِ مِنْكَ ثِنْتَيْنِ، سَعادَةً فِى أَوَّ لِهِ بِطَاعَتِكَ، وَنِعْمَةً فِى آخِرِهِ بِمَغْفِرَتِكَ، يَا مَنْ هُوَ الْإِلٰهُ، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ سِوَاهُ.

آج کی زیارت:

زیارت سبط النبي حضرت امام حسن مجتبی علیه السّلام

السَّلامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ أَمِيرِالْمُؤْمِنِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ فاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا حَبِيبَ اللّٰهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا صِفْوَةَ اللّٰهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا أَمِينَ اللّٰهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا حُجَّةَ اللّٰهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا نُورَ اللّٰهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا صِرَاطَ اللّٰهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا بَيَانَ حُكْمِ اللّٰهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا نَاصِرَ دِينِ اللّٰهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا السَّيِّدُ الزَّكِىُّ؛السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْبَرُّ الْوَفِىُّ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْقَائِمُ الْأَمِينُ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْعَالِمُ بِالتَّأْوِيلِ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْهَادِى الْمَهْدِىُّ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الطَّاهِرُ الزَّكِىُّ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا التَّقِىُّ النَّقِىُّ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْحَقُّ الْحَقِيقُ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الشَّهِيدُ الصِّدِّيقُ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكاتُهُ.

زیارت سیدالشهدا و سفينة النجاة حضرت امام حسین علیه السّلام

السَّلامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللّٰهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ أَمِيرِالْمُؤْمِنِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ سَيِّدَةِ نِساءِ الْعالَمِينَ، أَشْهَدُ أَنَّكَ أَقَمْتَ الصَّلاَةَ، وَآتَيْتَ الزَّكَاةَ، وَأَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهَيْتَ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَعَبَدْتَ اللّٰهَ مُخْلِصاً، وَجَاهَدْتَ فِى اللّٰهِ حَقَّ جِهادِهِ حَتَّىٰ أَتَاكَ الْيَقِينُ، فَعَلَيْكَ السَّلامُ مِنِّى مَا بَقِيتُ وَبَقِىَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ، وَعَلَىٰ آلِ بَيْتِكَ الطَّيِّبِينَ الطَّاهِرِينَ؛أَنَا يَا مَوْلَاىَ مَوْلىً لَكَ وَ لِآلِ بَيْتِكَ، سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ، وَحَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ، مُؤْمِنٌ بِسِرِّكُمْ وَجَهْرِكُمْ، وَظَاهِرِكُمْ وَبَاطِنِكُمْ، لَعَنَ اللّٰهُ أَعْداءَكُمْ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ، وَأَنَا أَبْرَأُ إِلَى اللّٰهِ تَعالىٰ مِنْهُمْ، يَا مَوْلَاىَ يَا أَبا مُحَمَّدٍ، يَا مَوْلَاىَ يَا أَبا عَبْدِاللّٰهِ، هٰذا يَوْمُ الإِثْنَيْنِ وَهُوَ يَوْمُكُما وَبِاسْمِكُما وَأَنَا فِيهِ ضَيْفُكُما، فَأَضِيفانِى وَأَحْسِنا ضِيَافَتِى، فَنِعْمَ مَنِ اسْتُضِيفَ بِهِ أَنْتُمَا، وَأَنَا فِيهِ مِنْ جِوارِكُما فَأَجِيرانِى، فَإِنَّكُمَا مَأمُورانِ بِالضِّيافَةِ وَالْإِجارَةِ، فَصَلَّى اللّٰهُ عَلَيْكُمَا وَآلِكُمَا الطَّيِّبِينَ.

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

شعبان کا مہینہ پیغمبر اکرم (ص) سے منسوب ہے۔ آنحضرت شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے تھے اور اسے ماہ رمضان کے ساتھ متصل کرتے تھے۔ ماہ شعبان کی فضیلت کے حوالے سے معصومین (ع) سے احادیث نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق بہشت اور اس کے نعمات اور کرامات سے بہرہ مند ہونا اس مہینے کے روزے کا ثواب بتایا گیا ہے۔
امام صادق(ع) فرماتے ہیں:
" جب شعبان کا چاند نمودار ہوتا تھا تو امام زین العابدین علیہ السلام تمام اصحاب کو جمع کرکے فرماتے تھے: جانتے ہو کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ فرمایا کرتے تھے کہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی کی محبت اور خدا کی قربت کے لیے اس مہینے میں روزہ رکھو۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی بن الحسین کی جان ہے، میں نے اپنے پدر بزرگوار حسین بن علی علیہما السلام سے سنا، وہ فرماتے تھے: میں نے اپنے والد گرامی امیرالمومنین علیہ السلام سے سنا کہ جو شخص محبت رسول اور تقرب خدا کے لیے شعبان میں روزہ رکھے تو خدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کرے گا قیامت کے دن اس کو عزت و حرمت ملے گی اور جنت اس کے لیے واجب ہو جائے گی۔"

شیخ طوسی نے صفوان جمال سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں:
"امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا جو اشخاص تمہارے آس پاس میں ہیں انہیں ماہ شعبان میں روزہ رکھنے کی ترغیب دیں۔ میں نے کہا میں آپ پر قربان ہو جاوں کیا اس کی فضیلت میں کوئی چیز ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا: ہاں بتحقیق جب بھی شعبان کا چاند نظر آتا تو رسول اکرم (ص) منادی کو حکم دیتے تھے کہ مدینہ میں اعلان کریں: اے ہل مدینہ میں پیغمبر خدا کی جانب سے یہ پیغام دے رہا ہوں، آپ فرماتے ہیں کہ آگاہ ہو جاو شعبان میرا مہینہ ہے پس خدا اس شخص پر رحمت نازل فرمائے جو اس مہینے میں میری مدد کرے یعنی اس مہینے میں روزہ رکھے۔ "

امام صادق (ع) نے امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت فرماتے تھے:

"جب سے پیغمبر اکرم (ص) کا منادی نے ندا یا مجھ سے شعبان کا روزہ ترک نہیں ہوا اور جب تک میں زندہ ہوں ترک نہیں ہوگا ان شاء اللہ۔ اور فرماتے تھے ماہ شعبان اور ماہ رمضان کا روزہ خدا کی مغفرت کی طرف لوٹنے کا توبہ ہے۔" 

اعمال ماه شعبان
کتاب مفاتیح الجنان میں ماہ شعبان کے اعمال میں درج ذیل اعمال مذکور ہیں:

اعمال ماه شعبان
اعمال مشترک 
روزہ رکھنا
صلوات بھیجنا
صدقہ دینا
مناجات شعبانیہ کا پڑھنا
روزانہ 70 مرتبہ اَسْتَغْفِرُاللهَ وَ اَسْئَلُهُ التَّوْبَةَ کہنا
روزانہ 70 مرتبہ اَسْتَغْفِرُاللهَ الَّذى لااِلهَ اِلاّ هُوَ الرَّحْمنُ الرَّحیمُ الْحَىُّ الْقَیّوُمُ وَ اَتُوبُ اِلَیْهِ کہنا
اس مہینے میں ہزار دفعہ لا اِلهَ اِلا اللهُ وَلا نَعْبُدُ اِلاّ اِیّاهُ مُخْلِصینَ لَهُ الدّینَ وَ لَوُ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ کہنا

اس مہینے کی ہر جمعرات کو دو رکعت نماز پڑھنا جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد 100 مرتبہ سورہ توحید اور سلام کے بعد 100 مرتبہ صلوات بھیجنا

ظہر کے وقت اور نصف شب، صلوات شعبانیہ کا پڑھنا جو امام سجاد(ع) سے منقول ہے اور وہ یہ ہے:
اَللّهُمََّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ و َآلِ مُحَمَّدٍ شَجَرَةِ النُّبُوَّةِ وَ مَوْضِعِ الرِّسالَةِ وَ مُخْتَلَفِ الْمَلاَّئِکَةِ وَ مَعْدِنِ الْعِلْمِ وَ اَهْلِ بَیْتِ الْوَحْىِ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ و َآلِ مُحَمَّدٍ الْفُلْکِ الْجارِیَةِ فِى اللُّجَجِ الْغامِرَةِ یَامَنُ مَنْ رَکِبَها وَ یَغْرَقُ مَنْ تَرَکَهَا الْمُتَقَدِّمُ لَهُمْ مارِقٌ وَالْمُتَاَخِّرُ عَنْهُمْ زاهِقٌ وَاللاّزِمُ لَهُمْ لاحِقٌ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ الْکَهْفِ الْحَصینِ وَ غِیاثِ الْمُضْطَرِّ الْمُسْتَکینِ وَ مَلْجَاءِ الْهارِبینَ وَ عِصْمَةِ الْمُعْتَصِمینَ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ صَلوةً کَثیرَةً تَکُونُ لَهُمْ رِضاً وَ لِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ اَداَّءً وَ قَضاَّءً بِحَوْلٍ مِنْکَ وَ قُوَّةٍ یا رَبَّ الْعالَمینَ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ الطَّیِّبینَ الاْبْرارِ الاْخْیارِ الَّذینَ اَوْجَبْتَ حُقُوقَهُمْ وَ فَرَضْتَ طاعَتَهُمْ وَ وِلایَتَهُمْ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَاعْمُرْ قَلْبى بِطاعَتِکَ وَلا تُخْزِنى بِمَعْصِیَتِکَ وَارْزُقْنى مُواساةَ مَنْ قَتَّرْتَ عَلَیْهِ مِنْ رِزْقِکَ بِما وَسَّعْتَ عَلَىَّ مِنْ فَضْلِکَ وَ نَشَرْتَ عَلَىَّ مِنْ عَدْلِکَ وَ اَحْیَیْتَنى تَحْتَ ظِلِّکَ وَ هذا شَهْرُ نَبِیِّکَ سَیِّدِ رُسُلِکَ شَعْبانُ الَّذى حَفَفْتَهُ مِنْکَ بِالرَّحْمَةِ وَالرِّضْوانِ الَّذى کانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَ آلِه وَ سَلَّمَ یَدْاَبُ فى صِیامِهِ وَ قِیامِهِ فى لَیالیهِ وَ اَیّامِهِ بُخُوعاً لَکَ فى اِکْرامِهِ وَاِعْظامِهِ اِلى مَحَلِّ حِمامِهِ. اَللّهُمَّ فَاَعِنّا عَلَى الاِْسْتِنانِ بِسُنَّتِهِ فیهِ وَ نَیْلِ الشَّفاعَةِ لَدَیْهِ اَللّهُمَّ وَاجْعَلْهُ لى شَفیعاً مُشَفَّعاً وَ طَریقاً اِلَیْکَ مَهیَعاً وَاجْعَلْنى لَهُ مُتَّبِعاً حَتّى اَلْقاکَ یَوْمَ الْقِیمَةِ عَنّى راضِیاً وَ عَنْ ذُنُوبى غاضِیاً قَدْ اَوْجَبْتَ لى مِنْکَ الرَّحْمَةَ وَالرِّضْوانَ وَ اَنْزَلْتَنى دارَ الْقَرارِ وَ مَحَلَّ الاْخْیارِ.
 

پہلی رات 
12 رکعت نماز جسکی ہر رکعت میں حمد کے بعد 11 مرتبہ سورہ توحید
پہلا دن 
روزہ رکھنا
روز سوم 
روزہ رکھنا

اس دعا کا پڑھنا: اَللّهُمَّ اِنّى اَسْئَلُکَ بِحَقِّ الْمَوْلُودِ فى هذَا الْیَوْمِ الْمَوْعُودِ بِشَهادَتِهِ قَبْلَ اْستِهْلالِهِ وَ وِلادَتِهِ بَکَتْهُ السَّماَّء ُوَ مَنْ فیها وَالاْرْضُ وَ مَنْ عَلَیْها وَ لَمّا یَُطَاْ لابَتَیْها قَتیلِ الْعَبْرَةِ وَ سَیِّدِ الاُْسْرَةِ الْمَمْدُودِ بِالنُّصْرَةِ یَوْمَ الْکَرَّةِ الْمُعَوَّضِ مِنْ قَتْلِهِ اَنَّ الاْئِمَّةَ مِنْ نَسْلِهِ وَالشِّفاَّءَ فى تُرْبَتِهِ والْفَوْزَ مَعَهُ فى اَوْبَتِهِ والاْوصِیاَّءَ مِنْ عِتْرَتِهِ بَعْدَ قاَّئِمِهِمْ وَ غَیْبَتِهِ حَتّى یُدْرِکُوا الاْوْتارَ وَ یَثْاَروُا الثّارَ وَ یُرْضُوا الْجَبّارَ وَ یَکُونُوا خَیْرَ اَنْصارٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِمْ مَعَ اْختِلافِ اللیلِ وَالنَّهارِ. اَللّهُمَّ فَبِحَقِّهِمْ اِلَیْکَ اَتَوَسَّلُ وَ اَسْئَلُ سُؤالَ مُقْتَرِفٍ مُعْتَرِفٍ مُسیَّئٍ اِلى نَفْسِهِ مِمَّا فَرَّطَ فى یَوْمِهِ وَ اَمْسِهِ یَسْئَلُکَ الْعِصْمَةَ اِلى مَحَلِّ رَمْسِهِ. اَللّهُمَّ فَصَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ عِتْرَتِهِ وَاحْشُرْنا فى زُمْرَتِهِ وَ بَوِّئْنا مَعَهُ دارَ الْکَرامَةِ وَ مَحَلَّ الاِقامَةِ. اَللّهُمَّ وَ کَما اَکْرَمْتَنا بِمَعْرِفَتِهِ فَاَکْرِمْنا بِزُلْفَتِهِ وَارْزُقْنا مُرافَقَتَهُ وَ سابِقَتَهُ وَاجْعَلْنا مِمَّنْ یُسَلِّمُ لاِمْرِهِ وَ یُکْثِرُ الصَّلوةَ عَلَیْهِ عِنْدَ ذِکْرِهِ وَ عَلى جَمیعِ اَوْصِیاَّئِهِ وَ اَهْلِ اَصْفِیاَّئِهِ الْمَمْدُودین مِنْکَ بِالْعَدَدِ الاِْثْنَىْ عَشَرَ النُّجُومِ الزُّهَرِ وَالْحُجَجِ عَلى جَمیعِ الْبَشَرِ. اَللّهُمَّ وَهَبْ لَنا فى هذَا الْیَوْمِ خَیْرَ مَوْهِبَةٍ وَ اَنْجِحْ لَنا فیهِ کُلَّ طَلِبَةٍ کَما وَ هَبْتَ الْحُسَیْنَ لِمُحَمَّدٍ جَدِّهِ وَ عاذَ فُطْرُسُ بِمَهْدِهِ فَنَحْنُ عائِذُونَ بِقَبْرِهِ مِنْ بَعْدِهِ نَشْهَدُ تُرْبَتَهُ وَننْتَظِرُ اَوْبَتَهُ آمینَ رَبَّ الْعالَمینَ.
 

اس دعا کا پڑھنا: اَللّهُمَّ اَنْتَ مُتَعالِى الْمَکانِ عَظیمُ الْجَبَرُوتِ شَدیدُ الِمحالِ غَنِى َُّعنِ الْخَلایِقِ عَریضُ الْکِبْرِیاَّءِ قادِرٌ عَلى ما تَشاَّءُ قَریبُ الرَّحْمَةِ صادِقُ الْوَعْدِ سابِغُ النِّعْمَةِ حَسَنُ الْبَلاَّءِ قَریبٌ إذا دُعیتَ مُحیطٌ بِما خَلَقْتَ قابِلُ التَّوبَةِ لِمَنْ تابَ اِلَیْکَ قادِرٌ عَلى ما اَرَدْتَ وَ مُدْرِکٌ ما طَلَبْتَ وَ شَکُورٌ اِذا شُکِرْتَ وَ ذَکُورٌ اِذا ذُکِرْتَ اَدْعُوکَ مُحْتاجاً وَ اَرْغَبُ اِلَیْکَ فَقیراً وَ اَفْزَعُ اِلَیْکَ خاَّئِفاً وَ اَبْکى اِلَیْکَ مَکْرُوباً وَ اَسْتَعینُ بِکَ ضَعیفاً وَ اَتوَکَّلُ عَلَیْکَ کافِیاً اُحْکُمْ بَیْنَنا وَ بَیْنَ قَوْمِنا (بِالْحَقِّ) فَاِنَّهُمْ غَرُّونا وَ خَدَعُونا وَ خَذَلُونا وَ غَدَرُوابِنا وَ قَتَلُونا و نَحْنُعِتْرَةُ نَبِیِّکَ وَ وَُلَْدُ حَبیبِکَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللهِ الَّذِى اصطَفَیْتَهُ بِالرِّسالَةِ وَائْتَمَنْتَهُ عَلى وَحْیِکَ فَاجْعَلْ لَنا مِنْ اَمْرِنا فَرَجاً وَ مَخْرَجاً بِرَحْمَتِکَ یا اَرْحَمَ الرّاحِمینَ.

 الـّلـهـم صـَل ِّ عـَلـَی مـُحـَمـَّدٍ وَآل ِ مـُحـَمـَّدٍ وَعـَجــِّل ْ فــَرَجـَهـُم 

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

عقیلہ بنی ھاشم،فہیمہ غیر مفہمہ عالمہ غیر معلمہ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا بنت امیر المومنین علیؑ ابن ابی طالب، آپ یکم شعبان (اور  بعض منابع کے مطابق  5 جمادی‌ الاول 5 یا 6ھ کو مدینہ میں  اس دنیا میں تشریف لائیں

کئی روایات میں ہے کہ  حضرت زینب  ع کا نام پیغمبر اسلامؐ نے رکھا تھا۔ کہا گیا ہے کہ جبرئیل نے خدا کی طرف سے یہ نام پیغمبر اکرمؐ تک پہنچایا تھا۔
 کتاب "الخصائص الزینبیۃ" میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت زینب کا بوسہ لیا اس کے بعد فرمایا: "میری امت کے حاضرین غایبین کو میری پوتی زینب کے کرامت سے آگاہ کریں؛ بتحقیق میری پوتی اپنی نانی حضرت خدیجہ کی طرح ہیں۔
 زینب لغت میں "نیک منظر
 اور خوشبودار درخت"
 یا "باپ کی زینت" کے معنی میں آتا ہے۔

حضرت زینبؑ کے دسیوں القاب ہیں من جملہ بعض مشہور القاب یہ ہیں:
عقیلۂ بنی ہاشم، عالمۃ غَیرُ مُعَلَّمَہ، عارفہ، موثّقہ، فاضلہ، كاملہ، عابدہ آل علی، معصومۂ صغری، امینۃ اللہ، نائبۃ الزہرا، نائبۃ الحسین، عقیلۃ النساء، شریكۃ الشہداء، بلیغہ، فصیحہ اور شریكۃ الحسین۔

آپ نے زندگی میں بہت زیادہ مصائب دیکھے۔ جیسے رسول اللہ کی وفات،اپنی والدہ فاطمہ  ع اور حضرت علی ع کی زندگی کی سختیاں،
شہادت امام حسن مجتبی ،
 واقعۂ کربلا 
اور کوفہ و شام کی اسیری
 ان وجوہات کی بنا پر آپ کو ام المصائب کے لقب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔

فضائل، مناقب، اورعلم
کوفہ اور دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار حضرت زینب کا عالمانہ کلام و خطبات آپ کے علمی کمالات کا واضح ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے والد ماجد حضرت علیؑ اور والدہ ماجدہ حضرت زہراؑ سے احادیث بھی نقل کی ہیں.
اس کے علاوہ آپ کوفہ میں حضرت علیؑ کی خلافت کے دوران خواتین کے لئے قرآن کی تفسیر کا درس بھی آپ کی علم دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔ 

حضرت زينبؑ رسول اللہؐ اور علی و زہراءؑ کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسولؐ تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں.
حضرت زینبؑ نے حضرات معصومینؑ سے متعدد حدیثیں مختلف موضوعات میں نقل کی ہیں منجملہ: شیعیان آل رسولؐ کی منزلت، حب آل محمد، واقعۂ فدک، ہمسایہ، بعثت وغیرہ.

سننے والوں کیلئے آپ کے خطبات اپنے والد ماجد امیر المؤمنین حضرت علیؑ کے خطبات کی یاد تازہ کرتی تھی۔
 کوفہ اور یزید کے دربار میں آپ کا خطبہ نیز عبیداللہ بن زیاد کے ساتھ آپ کی گفتگو اپنے والد گرامی کے خطبات نیز اپنی والدہ گرامی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدکیہ کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے۔

کوفہ میں آپ کے خطبے کے دوران ایک بوڑھا شخص روتے ہوئے کہہ رہا تھا:

"میرے ماں باپ ان پر قربان ہوجائے، ان کے عمر رسیدہ افراد تمام عمر رسیدہ افراد سے بہتر، ان کے بچے تمام بچوں سے افضل اور ان کی مستورات تمام مستورات سے افضل اور ان کی نسل تمام انسانوں سے افضل اور برتر ہیں۔
عبادت
حضرت زینب كبریؑ راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں آپ نے کبھی بھی نماز تہجد کو ترک نہيں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں۔
 آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی راتوں کو بھی ترک نہ ہوئی۔ فاطمہ بنت الحسینؑ کہتی ہیں:

شب عاشور پھوپھی زینبؑ مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں اور نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے۔ 

خدا کے ساتھ حضرت زینبؑ کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ حسینؑ نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا:

"یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل" ترجمہ: میری بہن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا۔[
صبر و استقامت
حضرت زینبؑ صبر و استقامت میں اپنی مثال آپ تھیں۔ آپ زندگی میں اتنے مصائب سے دوچار ہوئیں کہ تاریخ میں آپ کو ام المصائب کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ کربلاء میں جب اپنے بھائی حسینؑ کے خون میں غلطاں لاش پر پہنچیں تو آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کیا:

بار خدایا! تیری راہ میں ہماری اس  قربانی کو قبول فرما۔
آپ نے بارہا امام سجّادؑ کو موت کے منہ سے نکالا؛ منجملہ ان موارد میں سے ایک ابن زیاد کے دربار کا واقعہ ہے، جب امام سجّادؑ نے عبید اللہ بن زياد سے بحث کی تو اس نے آپؑ کے قتل کا حکم دیا. اس موقع پر حضرت زینبؑ نے بھتیجے کی گردن میں ہاتھ ڈال کر فرمایا: "جب تک میں زندہ ہوں انہیں قتل نہيں کرنے دونگی۔

حوالہ جات
 ابن اثیر، أسدالغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۳۲۔
 کحّالہ، أعلام النساء، ۲۰۰۸،‌ ج۲، ص۹۱۔
 ابوالحسن العلوی، اخبار الزینبیات، ۱۴۱۰ق، ص۲۳۔
 شریف القرشی، السیدہ زینب، ۱۴۲۲ق، ص۳۹۔
 جزائری، الخصائص الزینبیۃ، ۱۴۲۵ق، ص۴۴۔
 ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ‌ج۱، ص۴۵۳، ‌ذیل واژہ «زنب»۔
 مرتضی زبیدی، تاج العروس، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۶۰۔
 نورالدین جزائری، الخصائصۃ الزینبیۃ، ص 52و53۔
 امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۳۷۔
 محلاتی،ذبیح اللہ، ریاحین الشریعہ،ج3،ص33/ محمّدی اشتہاردی، حضرت زینب فروغ تابان كوثرص 17
 قزوینی، محمد کاظم،زینب الکبری من المہد الی اللحد،ص434۔
 ابن عساکر، اعلام النسا، ص190؛ ریاحین الشریعہ، ج3، ص41۔
 مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، 1413ق، ج2، ص125۔
 امین، اعیان الشیعۃ، ج7، ص137۔
 ابن عساکر،اعلام النسا، ص189
 دلائل الامامہ طبری، ج 3. ذبیح الله محلّاتی، ،ص57۔
 نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج 16، ص 210؛ وسایل الشیعہ، ج 1، ص 13 و 14 و بحارالانوار، ج 6، ص 107۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

تبصرہ ارسال

You are replying to: .