حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قم المقدسہ/گروہ مطالعاتی آثار شہید مطہری(رہ) و تحریک بیداری امت مصطفی(ص) شعبہ قم كی جانب سے مركز تحقیقات اسلامی بعثت میں پندره رمضان المبارك كو جشن ولادت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام كی ولادت كی مناسبت سے علمی نشست بعنوان "بررسی اسباب و نتائج صلح امام حسنعلیہ السلام" منعقد ہوئی ۔
نشست كے میزبان حجۃ الاسلام و المسلمین آقای مظفر حسین بٹ نے حجۃ الاسلام و المسلمین آقای محمد غالب حیات اور حجۃ الاسلام و المسلمین آقای یزدان حیدر سے سوالات كئے جس سے دونوں خطباء نے بہت خوبصورت جوابات دیئے۔
حجۃ الاسلام و المسلمین آقای محمد غالب حیات نے امام حسن علیہ السلام كی صلح كے اسباب و عوامل ذكركرتے ہوئے كہا كہ آج بھی امام حسن علیہ السلام كی صلح كے بارے میں لوگوں اور بالخصوص جوانوں كے ذہن میں مختلف شبہات و سوالات پائے جاتے ہیں۔انہوں نے كہا كہ اگر ہم صلح كے اسباب و عوامل پر نگاہ ڈالیں تو ان سوالات و شبہات كا جواب ہمیں آسانی سے مل سكتا ہے۔
انہوں نے امام حسن علیہ السلام كی بیعت كے وقت كوفہ كے سیاسی اور اجتماعی حالات كی تجزیہ و تحلیل كرتے ہوئے كہا كہ امیر المؤمنین علیہ السلام كی شہادت كے بعد كوفہ میں رہنے والے لوگوں نے امام حسن كے ہاتھ پر بیعت كی۔ تاریخ میں آیا ہے كہ یہ افراد مختلف نظریات و افكار كے حامل تھے اور ان میں سے ہر ایک كے اپنے خاص اغراض و مقاصد تھے جن كے تحت امام كی بیعت كی، ان میں سے كچھ دنیا طلب تھے تو كچھ عافیت طلب، كچھ سست عناصر تھے تو كچھ مفاد پرست، البتہ ان كے علاوہ ایک گروہ خالص و حقیقی شیعہ كا تھا جو امام علیہ السلام كو مفترض الطاعة (جن كی اطاعت واجب ہو) سمجھتے تھے اور خداوند متعال كی جانب سے ہر حال میں امام كی اطاعت كو اپنے لئے لازم و ضروری قرار دیتے تھے لیكن باقی افكار و نظریات كے حامل لوگ اس عقیدہ كے قائل نہیں تھے بلكہ وه بیعت كركے اپنے اہدف كے حصول كے درپے تھے اسی لئے جب امام علیہ السلام نے اپنی بیعت كے كچھ دنوں بعد لوگوں كو معاویہ كے خلاف جہاد كے لئے بلایا تو ایک بہت بڑی تعداد نے لیت و لعل (تردید) سے كام لیا اور جو لشكر تشكیل پایا وہ بھی تشتت آرا پر مشتمل تھا اور ہر ایک كے افكار و نظریات دوسرے سے ٹكراتے تھے اور خود یہ امر ایک بہت بڑی مشكل بنی جس كا امام كو سامنا پڑا، اس لئے ہم دیكھتے ہیں كہ جب معاویہ كی طرف سے طمع و لالچ دی جاتی ہے تو اس لشكر كی ایک بہت بڑی تعداد امام كو چھوڑ كر معاویہ كے ساتھ جا ملتی ہے اسی طرح اس لشكر كی ایک اور قابل توجہ تعداد بے شعور اور بے بصیرت لوگوں پر مشتمل تھی جو معاویہ كے پروپیگنڈہ كا شكار ہوكر الٹا امام كے خلاف اقدام كرنے پر تل جاتی ہے۔ لوگوں كی یہ عدم آمادگی، سست عنصری، جاہ و مقام طلبی، دنیا پرستی، بے شعوری و بے بصیرتی وغیرہ وہ عوامل تھے جس كی وجہ سے امام علیہ السلام معاویہ سے صلح كرنے پر مجبور ہوئے۔
حجۃ الاسلام و المسلمین آقای یزدان حیدر نے صلح امام حسن علیہ السلام كی ماہیت بیان كرتے ہوئے كہا كہ طول تاریخ میں مسئلہ صلح امام حسن علیہ السلام دوستوں كی غفلت اور دشمنوں كے مورد تہمت واقع ہوا ہے جو ابھی تک اكثر و بیشتر نامفہوم ہے۔ عموماً جب صلح امام کا نام لیا جاتا ہے تو ذہن میں صلح کی یہ تصویر ابھر كر سامنے آتی ہے كہ صلح یعنی دشمن كے سامنے تسلیم ہونا اور اس كے ساتھ سازباز كرنا ہے درحالانکہ صلح ایک جنگی حكمت عملی ہے جس كے ذریعے پھر سے دشمن پر آمادگی كے ساتھ محكم اور كاری ضرب لگانے ہے ۔
اس كے بعد انہوں نے شرائط صلح امام حسن علیہ السلام كی طرف اشارہ كرتے ہوئے اسلام و تشیع كی بقاء و حفاظت، بنو امیہ کی رسوائی، اور معاشرے كی فكری رشد كو نتائج اور اہداف صلح امام حسن علیہ السلام كے طور پر ذكر كیا۔