۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
عزاداری شهادت امام حسن مجتبی (ع) در کربلای معلی

حوزہ / محمد بشیر دولتی نے "سلسلہ جہاد تبیین" کے حوالے سے "کوفہ شناسی کیجئے" کے عنوان پر ایک تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے.

حوزہ نیوز ایجنسی | حصہ الف

مولا علی علیہ السلام کے وفادار صحابی حضرت صعصعہ بن صوحان عبدی فرماتے ہیں کہ کوفہ اسلام کا مرکز اور چھاونی اور بہترین،سخنوروں ، علمداروں اور رہبروں کا شہر ہے۔لیکن یہاں بداخلاق ، تند مزاج اور خشک مقدسی کی زندگی گزارنے والے لوگ بھی رہتے تھے جو اپنے رہبروں کے فرامین کی خلاف ورزی کرتے اور وحدت و اتحاد کو پارہ کرتے ہوۓ انہیں شکست سے دوچار کرتے تھے۔یہ ایسے لوگوں کی روش ہے کہ جو ظاہرا دین دار و قناعت کی زندگی بسر کرنے والے تھے۔ (۲)

اہل کوفہ کی اس مختصر و جامع تعریف کے بعد ہم دور امام علی علیہ السلام و امام حسن علیہ السلام میں کوفہ میں رہنے والے لوگوں کو چند گروہ میں تقسیم کرسکتے ہیں۔تاکہ کوفیوں اور امام حسن ع کی مشکلات اور اس زمانے کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

پہلا گروہ

امویوں کا آلہ کار:

اس گروہ کے بزرگوں میں عمرو بن حریث ، عمارہ بن ولید حجر بن عمرو عمر بن سعد ابوبردہ پسر ابوموسی اشعری طلحہ بن عبیداللہ کے دو بیٹے اسماعیل و اسحاق اور اسی طرح کے کچھ دوسرے لوگ شامل تھے۔

اس گروہ میں انتہاٸی طاقتور ، عوام میں اثر رسوخ رکھنے والے اور اپنے مخصوص پیروکار رکھنے والے لوگ شامل تھے۔یہی لوگ امام حسن کے خلاف افواہ پھیلاتے، سازشیں کرتے اور لشکر میں اختلافات پھیلاتے تھے۔

یہ طبقہ خفیہ طور پر معاویہ سے اپنے لیے مقام و منزلت اور عہدہ چاہتا تھا۔انہیں لوگوں نے معاویہ کو کوفہ پر لشکر کشی کرنے پر ابھارا اور باقاعدہ دعوت دی یہاں تک کہ معاویہ کو ضمانت دی کہ جب بھی ان کا لشکر امام حسن کے لشکر کے نزدیک پہنچے گا تو حسن ابن علی کو معاویہ کو تسلیم کرنے پر مجبور کریں گے اور بوقت ضرورت باندھ کر معاویہ کا حوالہ کریں گے ۔

اس گروہ کے بارے میں مسعودی لکھتا ہے کہ

“ ان میں سے اکثر لوگوں نے معاویہ کو خط لکھا تھا اور ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا تاکہ ان وعدوں کے ذریعے وہ معاویہ کا قرب حاصل کرسکیں ”

مسعودی مزید لکھتا ہے کہ

“معاویہ نے عمرو بن حریث اشعث بن قیس حجاز بن ابجر شبث بن ربعی کے ساتھ اپنے جاسوسوں کے ذریعے خفیہ معاہدہ کیا اور وعدہ کیا کہ اگر حسن ابن علی کو قتل کریں تو ایک لاکھ درھم انعام کے ساتھ شام کے کسی لشکر کی سرداری اور اپنی ایک بیٹی سے شادی کراۓ گا”۔

وہ مزید لکھتا ہے کہ اس خفیہ معاہدے کا جب امام حسن کو علم ہوا تو اپنے لباس کے نیچے ہمیشہ زرہ پہن رکھتےتھےاور بہت احتیاط کیا کرتے تھے یہاں تک کہ نماز بھی اسی حالت میں پڑھاتے تھے۔ایک دفعہ کسی دشمن نےنماز کے دوران آپ کو تیر مارا مگر زرہ پہن رکھنے کی وجہ سے آپ کو نقصان نہیں پہنچا۔

یہ ایک نمونہ کافی ہے جس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ امام حسن علیہ السلام کس مشکل دور میں زندگی بسر کرتے ہوۓ اپنی شرعی ذمہ داریوں کو ادا کر رہے تھے۔(٣)

دوسرا گروہ خوارج:

یہ وہ گروہ تھا جو حکمیت کے بعد امام علی علیہ السلام اور معاویہ دونوں کے خلاف دشمنی پر کمر بستہ ہوگیا تھا۔

اس گروہ کے سرکردگان میں عبد اللہ بن وھب الراسبی شبث بن ربعی عبداللہ بن الکوا اشعث بن قیس شمر بن ذی الجوشن قابل ذکر ہیں۔

یہ گروہ ابتداٸی بیعت کے دوران امام حسن کے پاس آۓ اور کہا کہ : ہم اس شرط پر آپ کی بیعت کریں گے کہ آپ معاویہ اور اہل شام کے ساتھ جنگ کروگے۔

اس پر امام حسن نے ان سے بیعت لینے سے انکار کیا کہ بغیر کسی شرط کے بیعت کروگے تو قبول ہے ورنہ قبول نہیں۔

اس پر یہ گروہ امام حسین علیہ السلام کے پاس گیااور کہا : ہم آپ کے ہاتھ بیعت کریں گے مگر آپ معاویہ کے ساتھ جنگ کروگے۔اس پر امام حسین نے فرمایا کہ نعوذ بااللہ بھیا حسن کی زندگی میں تمھاری بیعت کو قبول کروں؟ یوں یہ گروہ مایوس ہوکر دوبارہ امام حسن کی طرف گیا اور مجبورا بغیر کسی شرط کے امام حسن کی بیعت کی۔(٤)

لیکن تاریخ شاہد ہے کہ معاویہ سے جنگ کے لئے بےتاب اس طبقے کے سرداروں نے بھی معاویہ ہی کے ساتھ مل کر امام حسن کے خلاف بدترین سازشیں کیں ۔عام لوگوں کو بھی گمراہ کرنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہے۔

تیسرا گروہ شاکی طبقہ:

شیخ مفید علیہ الرحمہ امام حسن مجتبی کے لشکریوں کے بارے میں لکھتے ہوۓ اس گروہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ گروہ شک کرنے والے لوگ تھے جوکہ خوارج کے نظریات سے متاثر تھے مگر ان میں شامل نہیں تھے۔

سید مرتضی نے بھی اس گروہ کو شک کرنے والے کافروں میں قرار دیا ہے گویا ان کی نظر میں یہ لوگ خود دین کے اصل عقاٸد کے بارے میں شک کرتے اور متزلزل رہتے تھے۔

بہر حال یہ وہ گروہ ہے جو خود سے کوئی اچھائی کرنا نہیں چاہتا تھا مگر برائی کرنے کی قوت نہیں تھی ۔ ان کی اسی صفت کی وجہ سے شرپسند اور فسادی طبقہ ان کو خوب استعمال کرتا تھا یوں یہ طبقہ مکمل طور پر فتنہ پرور لوگوں کے ہاتھوں میں تھا۔جنہوں نے انہیں اپنے مقاصد کے لئے خوب استعمال کیا جوکہ لشکر امام حسن کے اصل فداکاروں اور جانبازوں کی کمزوری اور دل شکستگی کا باعث بنا۔(٥)

چوتھا گروہ الحمرا:

تاریخ طبری کے مطابق یہ بیس ہزار افراد پر مشتمل ایک مسلح گروہ تھا۔یہ قبیلہ بنی عبدالقیس کاہم پیمان تھا اگر چہ اس قبیلے کے افراد نہ تھے بلکہ یہ اہل عرب ہی نہ تھے۔یہ غلام اور کنیز زادے تھے ۔ان کی تعداد کوفہ اور بصرہ میں کافی تھی۔ یہ لوگ نہ فقط زیاد بن ابیہ کے ہمکار تھے بلکہ مال ودولت کی خاطر کسی بھی خائن یا ظالم کا دست و بازو بننے کے لٸے آمادہ رہتے تھے۔ بعض نے اس گروہ کو پارسی نسل ہونے کے سبب شیعہ بھی کہا ہے مگر ایسا بلکل نہیں البتہ ممکن ہے ان میں بعض شیعہ بھی ہو مگر اکثر شیعوں کے خطرناک دشمن اور اماموں کے خلاف سازش کرنے والوں کے آلہ کار رہے ہیں۔ (٦)

پانچواں گروہ شیعیان امام:

یہ طبقہ دوسرے طبقوں کے برعکس عقیدتا امام کے خاص ماننے اور چاہنے والے مخلص دین دار لوگ تھے۔ان میں سے بعض کا تعلق مہاجرین سے بعض کا تعلق انصار سے تھا جو امام علی ع کے کہنے پر ہجرت کر کے کوفہ آۓ تھے۔اکثر حضرت محمدﷺ اور امام علی علیہ السلام کے اصحاب میں شامل تھے۔

یہ گروہ شروع سے آخر تک اہلبیت علیھم السلام اور دین مبین سے مخلص رہے۔

اس گروہ کے قابل ذکر افراد میں حضرت حبیب ابن مظاہر اسدی ، حضرت حجر بن عدی حضرت عدی بن حاتم ، حضرت قیس بن سعد بن عبادہ ، عمرو بن الحمق خزاعی ، سعید بن قیس ہمدانی ، مسیب ابن نجیہ ، زیاد بن صعصعہ جیسے لوگ شامل تھے۔(٧)

حوالہ جات:

١۔شرح حال وفضاٸل خاندان نبوت

٢۔تاریخ مسعودی،تاریخ ابن اثیر

٣۔ارشاد شیخ مفید،طبرسی در کتاب اعلام الورای

٤۔تاریخ مسعودی و ابن اثیر

٥۔الامامہ والسیاسہ

٦۔ارشاد مفید،امالی شیخ صدوق

٧۔صلح امام حسن شیخ راضی آل یاسین

نوٹ۔ امام حسن علیہ سلام کی زندگی اور مشکلات پر عربی زبان میں ایک بہترین کتاب شیخ راضی آل یاسین کی کتاب صلح امام حسن علیہ سلام ہے جس کا ترجمہ رہبر معظم نے خود کیا ہے یہ مطالب اسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .