۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
عسکری امام خان

حوزہ/ جب کوفیوں نے اتنے ذوق و شوق سے امام(ع) کو دعوت دی تھی تو پھر نصرت کیوں نہیں کی، اور اتنا ہی نہیں بلکہ امام کے خلاف جنگ بھی کی، آخر کیوں ؟

تحریر: حجۃ الاسلام والمسلمین عسکری امام خان

حوزہ نیوز ایجنسی |، کوفیوں نے 12000 خطوط جو امام کو تحریر کیے تھے(۱) ان کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے ہے کہ ایک خاص طبقے اور گروہ کے لوگوں نے خطوط نہیں لکھے تھے بلکہ الگ الگ گروہ نے الگ الگ اہداف سے یہ خطوط امام علیہ السلام کو لکھے تھے،اس لئے کہ جہاں امام کے چاہنے والوں کے نام ملتے ہیں جیسے: سلیمان بن صرد خزاعی، مسیب بن نجبہ خزاری، زماعۃ بن شداد، حبیب بن مظاہر وغیرہ(۲)، وہیں اموی حکومت کے طرفداروں کے نام بھی ملتے ہیں جیسے: شبث بن ربعی(لعنة الله)کہ جس نے قتل امام علیہ السلام کے شکرانے میں مسجد بنوائی(۳)، حجار بن ابجر جو روز عاشور عمر بن سعد کی فوج کے سرداروں میں سے ایک تھا(۴)، اور یزید بن حارث بن یزید جو روز عاشورا امام(ع) سے اس بات کا منکر ہو گیا تھا کہ میں نے آپ کو خط لکھا تھا(۵)، یا عزرۃ بن قیس جو عمر بن سعد کے گھوڑے سوار فوج کا سپہ سالار تھا(۶)، و عمرو بن حجاج زبیدی (کہ جو فرات پر پانچ سو سواروں کے ساتھ تعینات تھا تا کہ امام علیہ السلام کے خیمے تک پانی نہ پہنچ سکے(۷)، اسی طرح اور بھی بہت سے نام ہیں، نیز ان کے خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ سب سے تحریک آمیز نامے انہوں نے ہی تحریر کیے ہیں، کہ ہمارے پاس آپ کے لئے "جند مجند" (آمادہ لشکر) ہے(۸)۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام (ع) کو خط لکھنے والے افراد کہ جن کا نام تاریخ میں ثبت نہیں بھی ہے، اکثر وہ افراد تھے جو مادی منفعت کے پیچھے تھے۔اور جناب مسلم کے ہاتھوں پر بیعت کرنے والوں کی اکثریت بھی ایسے ہی لوگوں کی تھی جو حالات پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے بلکہ اس کے بہاؤ میں بہہ جانے والے لوگ تھے لہذا جب اپنی دنیا و منفعت کو خطرے میں دیکھا تو مسلم کو کوفہ کی گلیوں میں تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔

یہی لوگ تھے جو کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے قتل کے درپے تھے، اس لئے کہ ابن زیاد نے انہیں دنیا کی لالچ دلائی اور انہوں نے بھی دیکھا کہ امام(ع) کے ساتھ آنے والی فوج مختصر ہے اور ابن زیاد کی جیت کا احتمال زیادہ ہے، لہذا اس کے ساتھ ہوگئے، انہیں میں سے کچھ لوگ وہ بھی تھے جو امام علیہ السلام سے جنگ تو نہیں کر رہے تھے مگر گوشوں میں کھڑے امام کے قتل کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور آنسو بہا رہے تھے اور دعا کر رہے تھے کہ خدایا حسین کی مدد فرما(۹) ۔

لہذا یہ کہہ سکتے ہیں کہ دعوت دینے والے افراد مختلف فکر و نظر کے لوگ تھے:

_ کچھ خالص شیعہ تھے جیسے: حبیب ابن مظاہر، مسلم بن عوسجہ وغیرہ

_ کچھ وہ سن رسیدہ افراد تھے، جنہوں نے حکومت علوی کی عدالت کوفہ میں دیکھی تھی اور اب بنی امیہ کے ظلم سے تنگ آ چکے تھے۔

_ اور کچھ وہ لوگ تھے جو چاہتے تھے کہ کوفے کی مرکزیت واپس آجائے اور اس بنا پر شام سے اختلاف رکھتے تھے۔

_ نیز کچھ قبیلے کے بزرگ افراد تھے جیسے شیث بن ربعی، حجار بن ابجر وغیرہ یہ لوگ اپنی قدرت و ریاست کی فکر میں تھے لہذا جب لوگوں کا سیل امام (ع) کی طرف دیکھا تو یہ لوگ بھی آگئے کہ کہیں قافلے سے دور نہ رہ جائیں۔

بہرحال عبید اللہ بن زیاد جب کوفہ میں داخل ہوا اور جب وہاں کے حالات کا جائزہ لیا تو وہ خود بھی گھبرا گیا، لیکن کیونکہ وہ اہل کوفہ کو جانتا تھا لہذا اس نے تہدید و تطمیع کے مختلف حربے اختیار کیے یعنی کچھ لوگوں کو ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ نزدیک ہے کہ شام کا لشکر تمہارے اس شہر کوفہ میں داخل ہو جائے، اور کچھ لوگوں کو لالچ دے کر کر اپنے قریب کیا، تو کچھ لوگوں کو اپنے سیاسی جال میں پھنسا کر امام (ع) کی مخالفت پر اکسایا(۱۰)۔

پس ایک تو اہل کوفہ سب امام حسین علیہ السلام کے دلدادہ نہیں تھے بلکہ جان کی بازی لگا دینے والے لوگ کم تھے، اور وہیں دوسری طرف اکثریت اہل کوفہ کی حکومت سے وظیفہ دریافت کرتی تھی، خاص کر وہ عرب جو کھیتی باڑی اور صنعتی کام کاج کو اپنے کے لئے عار سمجھتے تھے، اپنی شان و مقام کے خلاف جانتے تھے، لہذا جب ابن زیاد کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ جو لوگ کنارہ کش ہو جائیں گے ان کے وظیفے بڑھا دیئے جائیں گے اور جو لوگ کنارہ کش نہیں ہونگے ان کے وظیفے بند کر دیئے جائیں گے اور ان کو ان کے گھروں کے سامنے سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔

اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے بعد ابن زیاد نے اپنے افراد بھیج کر عورتوں میں بھی دہشت و وحشت کا ماحول پیدا کیا کہ شام کا لشکر آنے والا ہے، اپنے شوہروں، بیٹوں اور بھائیوں کو واپس بلا لو ورنہ سب مارے جائیں گے اور تم لوگوں کو کنیز بنا لیا جائے گا۔

بہرحال ابن زیاد نے نفسیا تی وار بھی کیا معاشی پابندیوں کی دھمکی بھی دی اور تسلیحاتی ظلم بھی کیے کہ جس کی بنیاد پر سب پیچھے ہٹ گئے اور جناب مسلم تنہا رہ گئے۔

یہاں تک کہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے مقابلے میں انہیں لا کھڑا کر دیا، جیسا کہ امام علیہ السلام نے روز عاشور اھل کوفہ کو خطاب کرکے فرمایا: تم لوگوں نے میری نافرمانی کی اور میری بات نہیں سنی اور سن بھی کیسے سکتے تھے اس لیے کہ: "قد انخزلت عطياتكم و ملئت بطونكم من الحرام فطبع علي قلوبكم" (١۱) "تمہارا مال حرام ہے تمہارے پیٹ حرام سے بھرے ہوئے ہیں اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے"۔

کوفیوں کی بے وفائیوں و پیمان شکنیوں کے اسباب و علل :

۱_حب دنیا اور لالچ

۲_ ابن زیاد کی تہدید و تطمیع (دھمکی و لالچ)

۳_جہالت اور نادانی (بہت سے ایسے تھے جو سیاسی تحلیل کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے اور نہیں جانتے تھے کہ کیا کر رہے ہیں اور اس کا نتیجہ کیا ہونے والا ہے، انہیں نہیں معلوم تھا کہ کربلا جیسا حادثہ بھی رونما ہوسکتا ہے)

۴_ ایمان کی کمزوری، کچھ ضعیف الایمان لوگ تھے کہ جو جان کے خوف سے سکوت اختیار کیے ہوئے تھے۔

خلاصہ ایک مختصر تعداد امام کے چاہنے والوں کی تھی یعنی کچھ وہ لوگ تھے جو واقعی امام کے چاہنے والے تھے اور امام کے لیے اپنی جان کی بازی بھی لگانے کو تیار تھے جیسے ہانی بن عروہ، حبیب بن مظاہر، مسلم بن عوسجہ وغیرہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) بحار الانوار؛ جلد ۴۴؛ صفحہ ۳۴۴.

(۲) وقعۃ الطف ، صفحہ ۹۰_۹۱.

(۳) تاریخ طبری، جلد ۶، صفحہ ۳۲.

(۴) تاریخ طبری، جلد ۵، صفحہ ۴۳۵.

(۵) تاریخ طبری، جلد ۵، صفحہ،۴۲۵.

(۶) تاریخ طبری، جلد ۵، صفحہ ۴۱۲.

(۷) وقعۃ الطف ، صفحہ ۹۳_۹۵.

(۸) وقعۃ الطف ، صفحہ ۹۵.

(۹) عبدالرزاق مقرم، مقتل الحسین (ع) صفحہ ۱۸۹.

(۱۰) وقعۃ الطف ، صفحہ ۱۱۰.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .