۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
مسلم

حوزہ/ جن اصحاب رسول ؐنےکربلامیں امام حسینؑ کا ساتھ دیا اور حضرت کی رکاب میں لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ان میں "مسلم بن عوسجہ" کا نام کافی نمایاں ہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی

٢۔مسلم بن عوسجہ اسدی
جن اصحاب رسول ؐنےکربلامیں امام حسینؑ کا ساتھ دیا اور حضرت کی رکاب میں لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ان میں "مسلم بن عوسجہ" کا نام کافی نمایاں ہے ۔
سلسلۂ نسب کے ساتھ مسلم کا نام اس طرح درج ہے : مسلم بن عوسجہ بن سعد بن ثعلبہ بن دردان بن اسد بن خزیمہ ابو جحل سعدی اسدی ۔(١)مسلم صحابی رسول تھے ، ان کے صحابی ہونے میں کسی کو شبہ نہیں ، اکثرنے اس بات کی تصریح بھی کی ہے ، چنانچہ طبقات بن سعد میں ہے کہ مسلم صحابی تھے ، انہوں نے رسول خداؐکی زیارت کی ہے اور شعبی نے ان سے روایت بھی نقل کی ہے۔(٢)مسلم کی زندگی کا اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے صرف یہی نہیں کہ رسول خداؐکی زیارت کی تھی بلکہ ان سے انتہائی وابستگی و محبت کے مظاہرات کا قصیدہ تاریخوں میں درج کرالیا۔(٣)
بڑے شجاع تھے ، ان کی شجاعت و مردانگی ایسی تھی کہ اہم موقعوں پر اس کے تذکرے کئے جاتے ، کسی بھی سیاسی موقعے پر انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا ، اسلامی فتوحات میں انہوں نے بڑا اہم کردار ادا کیاہے ، صرف بیس سال کی عمر میں انہوں نے جنگ آذربائیجان میں بے نظیر شجاعت و جوانمردی کا مظاہرہ فرمایا اور بہت سے دشمنوں کو واصل جہنم کیا ، جس کے نتیجے میں اسلام کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی ۔(٤)
کوفہ کے سر برآوردہ شخص تھے ، معاشرے میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ، عبادت گزار ایسے تھے کہ لوگ انہیں عابد شب زندہ دار کہتے تھے ، قاری قرآن بھی تھے ، انہوں نے قرائت سے تلاوت تک صعود کرنے کے لئے کئی مرتبہ حضرت علی کو قرآن سنایا اور صحت و اصابت کی سند حاصل کی ۔معاشرے میں وہ قاری قرآن کی حیثیت سے مشہور تھے ۔(٥)
قاری قرآن ہمارے اور آپ کے آج کے محاورے کے مطابق نہیں، اس زمانے میں قاری قرآن صحابہ کے بارے میں کہنے کا مطلب یہ تھا کہ قرآن پڑھتے بھی تھے اور لوگوں کو پڑھاتے بھی تھے ، درمیان قرائت لوگوں کو اس کا مفہوم بھی سمجھاتے تھے ، جوکچھ انہوں نے رسولؐ سے سنا تھا ۔اس طرح مسلم بن عوسجہ ان اصحاب میں شمار ہوتے تھے جو مبلغ دین و شریعت بھی تھے اور اشاعت اسلام میں ان کا نمایاں کردار تھا۔
ان کی سیرت کا نمایاں عنوان زہد بھی ہے ، وہ بلند پایہ زاہد بھی تھے ، کسی بھی صحابی رسول کے لئے زہد کی صفت اس کا امتیازی قصیدہ کہاجاسکتاہے کیونکہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بعد رسول پانچ یا سات صحابہ کے علاوہ سبھی ہوس دنیا میں مرتد ہوگئے تھے ۔ امام غزالی بھی یہی کہتے ہیں کہ حدیث غدیر صحیح ہے لیکن بعد رسول صحابہ میں حب دنیا اس قدر بھر گئی تھی کہ انہوں نے خدا ورسول کے احکام کو فراموش کردیا ، حکومت کی طمع میں حق کو بھلادیا۔
واقعہ کربلا میں انہوں نے اہل بیتؑ سے بھرپور وابستگی کا ثبوت دیا ہے ، ان کی شہادت کے سلسلہ میں مقاتل میں لکھاہے کہ حضرت مسلم لشکر امام حسین کے میمنہ پر متعین تھے ، جس کی سرداری زہیر قین کے سپرد تھی ، دن چڑھے یزیدی لشکر کے سردار عمرو ابن الحجاج نے اپنے فوجیوں کے سامنے تقریر کی :
'' اے کوفہ والو! کبھی یزید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا کیونکہ وہ امام حق ہے ، اس کے ہر حکم کی تعمیل میں اپنی جان کی بازی لگا دو ، یہ نہ دیکھو کہ ہم یزید کی اطاعت کر رہے ہیں جو امام حق ہیں''۔
امام حسینؑ نے عمرو کی یہ بات سن کر فرمایا: اے عمرو!خدا سے ڈرو ، اگر یزید امام حق ہے تو پھر امام باطل کون ہے ؟ کیایزید امام حق ہے جو کتوں سے کھیلتاہے جس کی یہودیوں کی گود میں پرورش ہوئی ہے''۔
عمرو کو غصہ آگیا ، اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ امام حسین کے میمنہ پر حملہ کردے ، اس میمنہ پر زہیر قین اور مسلم بن عوسجہ تھے ، ایک ہزار کے یزیدی لشکر نے ایک ساتھ امام کے میمنہ پر حملہ کردیا ۔ حضرت زہیر بن قین اور مسلم بن عوسجہ نے اس حملہ کو روکا اور گھمسان کا رن پڑا ، بڑی دیر تک جنگ ہوتی رہی ، ایسی سخت جنگ ہوئی کہ گرد و غبار میں دونوں طرف کی فوجین ایک دوسرے سے چھپ گئیں ، مسلم بن خشکاوہ بجلی اور مسلم جنبابی حضرت مسلم کی تاک میں تھے اور باربار انہیں پر حملہ کررہے تھے۔
اس گھمسان کی جنگ میں مسلم بن عوسجہ گر کر تڑپنے لگے ، چونکہ خیام حسینی کے پاس ہی جنگ ہورہی تھی اس لئے حضرت مسلم بن عوسجہ کی کنیز نے مسلم کو تڑپتے ہوئے دیکھ لیا ، وہ چیخ کر فریاد کرنے لگی : وامسلماہ واسیداہ "ہائے میرے سردار مسلم بن عوسجہ شہید کردئیے گئے"۔(٦)
ان کی شہادت پر فوج شام میں خوشیاں منائی گئیں تو شبث بن ربعی نے ان لوگوں کی سرزنش کی اور کہا کہ تمہاری مائیں تمہارے غم میں بیٹھیں ، اسلام کے عظیم اور بزرگ مجاہد کو قتل کرکے خوش ہوتے ہو، خدا کی قسم! میں نے مسلم کو جنگ آذربائیجان میں دیکھا کہ اپنے حملوں سے کفار کے حوصلے پست کررہے تھے ، ایسے آبروئے اسلام کی شہادت پر خوش ہونا باعث شرم ہے ۔(٧)
آخری وقت جناب حبیب نے مسلم کے سرہانے آکر کہاکہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہارے بعد میں زندہ رہوں گا تو تم سے وصیت کی فرمائش کرتا لیکن پھر بھی حکم خدا ہے کہ آخری وصیت کرنی چاہئے ، اپنے دلی جذبات کا مظاہرہ کرنا چاہئے ، اگر کوئی وصیت ہو تو کرو ۔ یہ سنتے ہی مسلم نے اپنی تمام توانائی انگلی میں سمیٹ کر امام حسین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اوصیک بھذا "میں ان کے لئے وصیت کرتا ہوں"۔(٨)
یہ ایک وفادار صحابی رسول کی وصیت صرف حبیب ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ قیامت تک کے ان تمام مسلمانوں کے لئے بھی ہے جو اصحاب رسول کو مرجع شریعت مانتے ہیں ۔ ایک صحابی رسول نے بتایا کہ ہر مسلمان کو زندگی کے آخری لمحہ تک امام حسین سے وفاداری نبھانا چاہئے ، اگر حسین نہ رہیں تو ان کی عزا کا اہتمام ہر مسلمان کو کرنا چاہئے ، امام حسین کی یاد گاروں کی اسی طرح حفاظت کرنی چاہئے جس طرح صحابی رسول مسلم بن عوسجہ نے امام حسین کی حفاظت میں اپنی جان کی بازی لگا دی۔

حوالجات
١۔ اسد الغابہ جزری ج٤ ص ٢٦٤
٢۔ طبقات بن سعد نقل از تلخیص عنصر شجاعت ص ٢٠١؛تنقیح المقال ج٣ ص ٢١٤
٣۔ الاصابہ فی تمیز الصحابہ ج٦ ص ٩٦
٤۔ ابصار العین ص ١٠٣
٥۔ تنقیح المقال ج٣ ص٢١٤؛ فرسان الہیجا ج٢ ص ١١٦
٦۔ الارشاد ج٢ ص ١٠٢ ؛ اعلام الوری ص ٢٤٣؛ بحار الانوار ج٤٥ ص ١٣
٧۔ ابصار العین فی انصار الحسین ص ١١٠ ؛ بحار الانوار ج٤٥ ص ٢٠
٨ ۔تاریخ طبری ج٤ ص ٣٣١؛ اللہوف ص ٦٤؛ ابصار العین ص ١٠٤


تبصرہ ارسال

You are replying to: .