۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
News ID: 362333
29 اگست 2020 - 03:43
تقویم حوزہ: 9 محرم الحرام ۱۴۴۲

حوزہ/تقویم حوزہ: 9 محرم الحرام ۱۴۴۲،خیام امام حسین علیه السلام کا محاصرہ، 61ه-ق کربلا میں تازہ دم مزیدی یزیدی لشکر کی آمد، 61ه-ق  فرزندان حضرت ام البنین(س) کے لیے شمر ملعون کا امان نامہ، 61ه-ق امام حسین علیه السلام کی جانب سے جنگ کو کل پر ٹالنے کی درخواست، 61ه-ق امام حسین علیه السلام کا اپنے اصحاب کے ساتھ کلام، 61ه-ق

حوزہ نیوز ایجنسیl
 تقویم حوزہ:
آج:
عیسوی: Saturday - 29 August 2020
قمری: السبت،(شنبہ،سنیچر) 9 محرم 1442

آج کا دن منسوب ہے:
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه و آله وسلّم

آج کے اذکار:
- یا رَبَّ الْعالَمین (100 مرتبه)
- یا حی یا قیوم (1000 مرتبه)
- يا غني (1060 مرتبه) غنی ہونے کے لیے

اہم واقعات:
خیام امام حسین علیه السلام کا محاصرہ، 61ه-ق
کربلا میں تازہ دم مزیدی یزیدی لشکر کی آمد، 61ه-ق
 فرزندان حضرت ام البنین(س) کے لیے شمر ملعون کا امان نامہ، 61ه-ق
امام حسین علیه السلام کی جانب سے جنگ کو کل پر ٹالنے کی درخواست، 61ه-ق
امام حسین علیه السلام کا اپنے اصحاب کے ساتھ کلام، 61ه-ق

➖➖➖➖➖
نویں محرم کی شب کو امام حسین اور عمر بن سعد میں آخری گفتگو ہوئی۔ آپ کے ہمراہ حضرت عباس اور جناب علی اکبر بھی تھے۔ آپ نے گفتگو میں ہر قسم کی حجت تمام کر لی۔
مورخین لکھتے ہیں کہ نویں تاریخ کو شمر کو فہ واپس گیا اور اس نے عمر ابن سعد کی شکایت کرکے ابن زیاد سے ایک سخت حکم حاصل کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اگرحسین (ع)بیعت نہیں کرتے تو انھیں قتل کرکے ان کی لاش پرگھوڑے دوڑادے اور اگر تجھ سے یہ نہ ہو سکے تو شمر کو چار ج دے دے ہم نے اسے یزید کے حکم کی تعمیل کا حکم دے دیا ہے۔

9 محرم کے دن ظہر سے پہلے شمر بن ذی الجوشن چار ہزار سپاہی لے کر سرزمین کربلا میں داخل ہوا وہ عمر بن سعد کے لئے عبیداللہ بن زیاد کا خط لے کر آیا تھا چنانچہ کربلا پہنچتے ہی اس نے خط ابن سعد کے سپرد کیا. اس خط میں ابن زياد نے ابن سعد کو حکم دیا تھا کہ یا تو امام حسین(ع)کو بیعت پر مجبور کرے یا پھر آپ(ع)کے خلاف لڑائی چھیڑ دے. عبید اللہ نے اس خط کے ضمن میں عمر بن سعد کو دھمکی آمیز انداز سے لکھا تھا کہ اگر وہ اس کے احکامات کی مکمل تعمیل نہ کرے تو اس کو لشکر سے کنارہ کشی کرکے اس کی سربراہی کا عہدہ شمر کے سپرد کرنا پڑے گا

ابن سعد نے عبیداللہ کا خط پڑھ کر شمر سے کہا: "میں لشکر کی امارت تمہارے حوالے نہیں کروں گا اور میں تیرے وجود میں اس کام کی اہلیت نہیں دیکھ رہا ہوں چنانچہ میں اس کام کو خود ہی انجام تک پہنچا دوں گا؛ تم صرف پیدل دستوں کے سالار رہو"

ام البنین(س) کے فرزندوں کے لئے امان نامہ

(کوفہ میں) شمر نے عمر سعد کے لئے عبیداللہ کا خط لینا چاہا تو اس ام البنین(س) کے بھتیجے عبداللہ بن ابی المحل کے ساتھ مل کر اپنے بھانجوں کے لئے امان نامہ دینے کی درخواست کی. عبیداللہ نے اس تجویز کو پسند کیا

عبداللہ بن ابی المحل نے مذکورہ امان نامہ اپنے غلام "کزمان یا عرفان" کے ہاتھوں کربلا ارسال کیا اور کربلا پہنچنے کے بعد امان نامے کا متن ام البنین(س) کے فرزندوں کے لئے پڑھا. لیکن انھوں نے امان نامہ مسترد کیا۔
دوسری روایت کے مطابق شمر خود ہی امان نامہ لے کر کربلا میں عباس بن علی(ع)اور ان کے بھائیوں عبداللہ، جعفر اور عثمان کو پہنچایا۔
عباس(ع) اور ان کے بھائی ابا عبداللہ الحسین(ع) کے پاس بیٹھے تھے اور شمر کا جواب دے رہے تھے. امام(ع) نے بھائی عباس(ع) سے فرمایا: "گو کہ وہ فاسق ہے لیکن اس کا جواب دے دو،۔
". عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان علیہم السلام باہر آئے اور شمر سے کہا: "کیا چاہتے ہو؟" شمر نے ان سے کہا: "اے میرے بھانجو! تم امان میں ہو؛ میں نے تمہارے لئے عبید اللہ بن زیاد سے امان نامہ حاصل کیا ہے". لیکن عباس اور ان کے بھائیوں نے مل کر کہا: "خدا تم پر اور تمہارے امان نامے پر لعنت کرو؛ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہم امان میں ہوں اور بنت پیغمبر(ص) امان میں نہ ہوں"

ام البنین(س) کے فرزندوں کی طرف سے ابن زیاد کا امان نامہ مسترد ہونے کے بعد عمر بن سعد نے لشکر کو حکم دیا گیا کہ جنگ کی تیاری کریں؛ چنانچہ سب سوار ہوئے اور جمعرات 9 محرم بوقت عصر امام حسین(ع)اور آپ(ع)کے اصحاب و خاندان کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوئے۔

جنگ کی تیاری

9 محرم بوقت عصر صحرای کربلا میں عمر سعد کی سپاہ کی نقل و حرکت بڑھ گئی اور عمر سعد امام حسین(ع)کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوا اور اپنی سپاہ کو بھی جنگ کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا. اس نے اپنی سپاہ میں منادی کرا دی کہ يا خيل الله ارکبی و بالجنة ابشري،‌ اے خدا کے لشکریو! سوار ہوجاؤ کہ میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں!". کوفی سب سوار ہوئے اور جنگ کے لئے تیار۔

لشکر میں شور اور ہنگامہ بپا ہوا، امام(ع) اپنے خیمے کے سامنے اپنی تلوار پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے. بہن حضرت زینب(س) لشکر کوفہ میں شور و غل کی صدائیں سن کر بھائی کے قریب آئیں اور کہا: "بھائی جان! کیا آپ قریب تر آنے والی صدائیں سن رہے ہیں؟". امام حسین(ع)نے سر اٹھا کر فرمایا: "میں نے نانا رسول اللہ(ص) کو خواب میں دیکھا اور آپ(ص) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "بہت جلد ہمارے پاس آؤگے". امام حسین(ع)نے عباس بن علی(ع)کو فرمایا: "اے عباس! میری جان فدا ہو تم پر، اپنے گھوڑے پر سوار ہوجاؤ اور ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس لئے آگے بڑھ آئے ہیں؟".
حضرت عباس(ع)، زہیر بن قین اور حبیب بن مظاہر سمیت 20 سواروں کے ہمراہ دشمن کی سپاہ کی طرف چلے گئے اور اور ان سے پوچھا: "کیا ہوا ہے؟ اور تم چاہتے کیا ہو؟" انھوں نے کہا: "امیر کا حکم ہے کہ ہم آپ سے کہہ دیں کہ یا بیعت کرو یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ". حضرت عباس(ع) نے کہا: "اپنی جگہ سے ہلو نہیں حتی کہ میں ابا عبداللہ (ع) کے پاس جاؤں اور تمہارا پیغام آپ(ع)کو پہنچا دوں". وہ مان گئے چنانچہ حضرت عباس(ع)اکیلے امام حسین(ع)کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ انہیں پیش آمدہ صورت حال سے آگاہ کریں۔

امام حسین(ع)نے حضرت عباس(ع) سے فرمایا: "اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو انہیں راضی کرو کہ جنگ کو کل تک ملتوی کریں اور آج رات کو ہمیں مہلت دیں تا کہ اپنے پروردگار کے ساتھ راز و نیاز کریں اور اس کی درگاہ میں نماز بجا لائیں؛ خدا جانتا ہے کہ میں اس کی بارگاہ میں نماز اور اس کی کتاب کی تلاوت کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔

جب تک عباس(ع) امام حسین(ع)کے ساتھ گفتگو کررہے تھے، ان کے ساتھیوں حبیب بن مظاہر اور زہیر بن قین نے بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر ابن سعد کی سپاہ کے ساتھ گفتگو کی اور انہیں امام حسین(ع)کے ساتھ جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کی جبکہ اسی حال میں وہ ابن سعد کے سپاہیوں کی پیشقدمی بھی روک رہے تھے۔

ابوالفضل العباس(ع) دشمن کے سپاہیوں کی طرف آئے اور امام حسین(ع)کی درخواست ان تک پہنچا دی اور اس رات کو ان سے مہلت مانگی. ابن سعد نے امام حسین(ع)اور آپ(ع)کے اصحاب کو ایک رات کی مہلت کی درخواست سے اتفاق کیا، اس دن امام حسین(ع)اور آپ(ع)کے خاندان اور اصحاب و انصار کے خیام کا محاصرہ کیا گیا.

امام صادق(ع)کی حدیث

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں اس روز کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا: نو محرم وہ دن ہے جس دن حسین(ع)اور اصحاب حسین کربلا میں محصور ہوئے اور شامی سپاہ ان کے خلاف اکٹھی ہوئی. ابن مرجانہ / ابن زیاد اور عمر سعد اتنا بڑا لشکر فراہم ہونے پر خوش ہوئے اور اس دن حسین(ع)اور آپ(ع)کے اصحاب کو کمزور سمجھا اور انھوں نے یقین کرلیا کہ حسین(ع)کے لئے کوئی کمک نہیں آئے گی اور عراقی آپ(ع)کی مدد نہیں کریں گے۔

شب عاشور

تاسوعا یعنی نو محرم کا دن ڈھل گیا اور رات چھاگئی تو امام حسین(ع)نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں نہیں جانتا کسی کو جو میرے اصحاب سے زيادہ وفادار اور بہتر ہوں اور میں نہیں جنتا کسی کو جو میرے خاندان سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا اور نیکو کار ہو؛ اور چونکہ کل جنگ کا دن ہے چنانچہ میری طرف سے تم پر کوئی ذمہ نہیں ہے میں نے اپنی بیعت تم سے اٹھا دی، پس میں اجازت دیتا ہوں کہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھا کر اپنا راستہ لو اور چلے جاؤ۔

امام(ع) کا کلام اختتام پذیر ہوا تو اصحاب و انصار یکے بعد دیگر اٹھے اور اور آپ کا ساتھ دینے پر زور دیتے ہوئے اپنی بیعت کی پابندی اور آپ سے مکمل وفاداری پر زور دیا اور آپ کے ساتھ بیعت میں ثابت قدمی کے سلسلے میں اظہار خیال کیا۔ سب سے پہلے ابوالفضل العباس(ع)اٹھے اور ان کے بعد ان کے سگے بھائی اور اہل بیت رسول(ص) کے دوسرے نوجوانوں نے ان کی پیروی کرتے ہوئے سیدالشہداء(ع)کی مدد و حمایت کے سلسلے میں خطاب کیا۔

امام(ع) اولاد عقیل سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: "اے فرزندان عقیل! مسلم کی شہادت تمہارے لئے کافی ہے، پس تم اٹھ کر چلے جاؤ میں نے تمہیں جانے کی اجازت دے دی!"، لیکن انھوں نے جواب دیا: "...خدا کی قسم! ایسا ہرگز نہیں کریں گے ہم اپنی جان اور مال اور خاندان کو آپ پر قربان کریں گے اور اور آپ کے ساتھ مل کر لڑیں گے..."

اہل بیت(ع) کے بعد مسلم بن عوسجہ، سعید بن عبداللہ حنفی، اور زہیر بن قین اور ان کے بعد دوسرے اصحاب نے شہادت تک آپ کے ہمراہ لڑنے اور آپ کی مدد کرنے پر تاکید کی۔

بعدازاں امام(ع) نے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: "بے شک میں کل مارا جاؤں گا اور تم سب بھی ـ جو میرے ساتھ ہو ـ مارے جاؤگے"۔

اصحاب نے کہا: خدا کا شکر کہ اس نے ہمیں آپ کی نصرت کی توفیق دے کر عزت بخشی اور ہمیں آپ کے ساتھ شہادت پاکر شرف بخشا؛ اے فرزند دختر رسول(ص)! کیا آپ پسند نہیں کرتے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ جنت کے ایک درجے میں ہوں۔
امام سجاد(ع) سے مروی ہے کہ امام حسین(ع)کے خطاب اور اصحاب کے پرجوش جواب کے بعد، امام(ع) نے ان سب کے حق میں دعا کی۔

اس رات بریر بن خضیر نے امام(ع) سے اجازت مانگی کہ جاکر عمر بن سعد کو نصیحت کریں۔ امام(ع) نے اجازت دی۔ بریر عمر بن سعد کی طرف گئے اور جب واپس آئے تو عرض کیا: "اے فرزند رسول خدا(ص) ابن بن سعد ملک رے کی حکمرانی کے عوض آپ کے قتل کے لئے تیار ہوا ہے"۔

عسکری اقدامات

امام حسین(ع) اس شب مؤثر عسکری اقدامات سے بھی غافل نہ تھے؛ مروی ہے کہ آپ آدھی رات اکیلے خیام سے باہر آئے اور اطراف کی بلندیوں اور پستیوں کا جائزہ لیا اور کل کے حملے سے قبل ضروری اقدامات انجام دیئے۔

اس رات حسین(ع) نے خیام کے ارد گرد خندق کھدوائی اور آپ کے ہدایت پر اس خندق کو لکڑیوں اور سوکھی جڑی بوٹیوں سے بھر دیا۔ آپ نے حکم دیا کہ دشمن کا حملہ شروع ہوتے ہی ان لکڑیوں اور خس و خاشاک کو آگ لگا دیں تاکہ جنگ کے دوران دشمن خیام کے عقب سے حملہ آور نہ ہوں اور حرم اہل بیت کی طرف دست اندازی نہ کرسکیں۔ یہ تدبیر عاشورا کے دن اصحاب حسین(ع)کے لئے بہت مفید رہی۔

نیز امام(ع) نے حکم دیا کہ اپنے خیمے ایک دوسرے سے ملا دیں اور ایک خیمے کی رسیاں دوسری خیموں کی رسیوں سے متصل کردیں اور انہیں اس طرح سے نصب کریں کہ خود خیام کے اندر ہوں [اور باہر سے کوئی خیام کے بیچ داخل نہ ہوسکے] اور صرف ایک طرف سے دشمن کا سامنا کریں اور خیام ان کی پشت پر اور دائیں اور بائیں اطراف میں واقع ہوں اور صرف وہی رستہ کھلا رہے جہاں سے دشمن آتا ہے اور باقی ہر طرف سے آنے والے رستے بند رہیں۔

اصحاب کا تجدید عہد

آدھی رات کو ابو عبداللہ الحسین(ع)اطراف میں واقع پہاڑیوں اور دروں کا معائنہ کرنے کے لئے باہر نکلے تو نافع بن ہلال جملی کو معلوم ہوا اور امام(ع) کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔

خیام کے اطراف کا معائنہ کرنے کے بعد امام حسین(ع) بہن زینب کبری(س) کے خیمے میں داخل ہوئے۔ نافع بن ہلال خیمے کے باہر منتظر بیٹھے تھے اور سن رہے تھے کہ زینب(س) نے بھائی حسین(ع)سے عرض کیا:

کیا آپ نے اپنے اصحاب کو آزمایا ہے؟ مجھے اندیشہ یہ ہے کہ وہ بھی ہم سے منہ پھیر لیں اور جنگ کے دوران آپ کو دشمن کی تحویل میں دےدیں"۔

امام(ع) نے فرمایا: "خدا کی قسم! میں نے انہیں آزما لیا ہے اور انہیں دیکھا کہ سینہ سپر ہوگئے ہیں اس طرح سے کہ موت کو گوشۂ چشم سے دیکھتے ہیں اور میری راہ میں موت سے ـ ماں کے سینے سے طفل شیرخوار کی انسیت کی مانند ـ انسیت رکھتے ہیں۔

نافع نے محسوس کیا کہ اہل بیتِ امام حسین آپ کے اصحاب کی وفاداری کے سلسلے میں فکرمند ہیں چنانچہ وہ حبیب بن مظاہر اسدی سے مشورہ کرنے گئے اور دونوں نے آپس کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر اہل بیتِ امام حسین کو یقین دلائیں کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک امام حسین(ع)کا دفاع کریں گے۔

حبیب بن مظاہر نے اصحاب امام (ع) کو بلایا اور ان کے ہمراہ سونتی ہوئی تلواروں کے ساتھ حرم اہل بیت کے قریب گئے اور بآواز بلند کہا: "اے حریم رسول خدا(ص) یہ آپ کے جوانوں اور جوانمردوں کی شمشیریں ہیں جو کبھی بھی نیام میں واپس نہ جائيں تا آنکہ آپ کے بدخواہوں کی گردنوں پر اتر آئیں؛ یہ آپ کے فرزندوں کے نیزے ہیں اور انھوں نے قسم اٹھا رکھی ہیں انہیں صرف اور صرف ان لوگوں کے سینوں گھونپ دیں جنہوں نے آپ کی دعوت سے روگردانی کی ہے۔

شب عاشورا امام(ع) نے اپنے بیٹے امام سجاد(ع) کی موجودگی میں اپنی بہن حضرت زینب کبری(س) کو صبر و بردباری کی تلقین کی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .