۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
کربلا

حوزہ/ کربلا میں حق پرستوں کی جماعت کیفیت کے اعتبار سے آدم و عالم سے گراں تر تھی لیکن کمیت کے اعتبار سے بہت مختصر بلکہ انتہائی مختصر تھی ۔چھ ہزار ، تیس ہزار ، یا چھ لاکھ کے مقابلے میں صرف بہتر یا سو سے کچھ اوپر تعداد تھی جو تحفظ غدیر کا ناقابل تسخیر عزم لئے میدان کربلا میں وارد تھی۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

تمہید
امام غزالی نے یہ شوشہ چھوڑا کہ ذکر حسین سے بغض صحابہ پیدا ہوتاہے اس لئے واعظ پر تذکرۂ کربلا حرام ہے۔(احیاء العلوم غزالی)
منطقی اعتبار سے یہ سفسطہ ریت کے دو ستونوں پر استوار ہے : ایک تو بغض صحابہ اور دوسرے تذکرۂ کربلا کی حرمت۔
سوال یہ ہے کہ امام حسین کے تذکرۂ مظلومیت سے بغض صحابہ کیوں پیداہوتاہے ...؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ صحابیت کا ایک مخصوص مفہوم متعین کرلیاگیا ہے جس میں غصب حقوق، آل رسولؐ پر مظالم اور مستقیم بنیادوں پر اسلامی ارتقاء کو روکنے کی سعی کے تانے بانے درست کئے گئے ہیں...؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ صحابہ سے صرف انہیں لوگوں کو مراد لیاگیاہے جنہوں نے بعد رسول اقتدار کی ہوس میں الٰہی نظام ہدایت کا دھار ا موڑ دیااور اسلامی معاشرے کو انحراف کی ایسی ڈگر پر لگادیا جس میں بجائے عزت و سرفرازی کے ذلت ونکبت اور بجائے برکات ارضی و سماوی کے اختلاف و انتشار کا مقدر بن گیاہے ۔
اگر ایسا ہے کہ تذکرۂ شہادت حسین سے بغض صحابہ پیدا ہوتاہے تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ انہیں صحابہ سے بغض پیداہوتاہے جنہوںنے غدیری اعلان سے بغاوت کی تھی کیونکہ امام حسین تحفظ اعلان غدیر ہی کے لئے شہید ہوئے ۔
اگر ایسا ہے اور حقیقتیہ ہے کہ ایسا ہی ہے تو پھر تقدیس صحابیت پر سوالیہ نشان لگ جاتاہے ۔حضرت ابوبکر تو کہتے ہیں: ارقبوا محمداًفی عترتہ'' ذات محمدی کا تحفظ ان کی عترت کے بارے میں کرو''(یعنی ان کی عترت کا احترام کرو)۔حضرت عمر کے فرزند کو اگر امام حسینؑ نے اپنا غلام زادہ کہہ دیا تو پچھلے تمام اقدامات کو فراموش کرکے وہ اپنے فرزند کو تحریر لکھوالینے پر ابھارنے لگے ۔
اس قسم کے بے شمار نظائر کی روشنی میں ایک عام آدمی سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ آل رسولؐ پرمظالم کےپہاڑتوڑنےوالوںکاتذکرہ کرنےسے آخر صحابیت کیوں بدنام ہوتی ہے ...؟کیایہی وہ لوگ ہیں جن سے اللہ راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی و خوشنود ہوئے۔
اس سفسطے کا دوسرا رخ تو اور بھی شرمناک ہے ،آخر تذکرۂ کربلا حرام کیوں ہے...؟ کیا اس لئے کہ اس میں دین خدا کی حفاظت کے لئے مرمٹنے کے نازش آفریں مظاہرے ہیں؟اس لئے کہ اس میں عرفان حق کا شدت احساس ہے ، خلوص و انابت الی اللہ کے ابد آثار جلوے ہیں ، شائستہ کرداری اور پسندیدہ اخلاق کے وہ تمام نمونے جو انبیاء کی سیرت میں بکھرے ہیں وہ سب ایک جگہ اصحاب حسینی میں نظر آجاتے ہیں...؟بلند ترین انسانیت کے یہ اعلیٰ ترین نمونے انبیاء ماسبق کو کیا ، نہ تو خاتم الانبیاء کو ملے ، نہ علی کو ملے اور نہ ہی امام حسن کو۔ اسی لئے امام حسین نے تاریخ بشریت کے ان روشن مناروں کا امتحان لینے کے بعدان کے کردار پر مہرتصدیق ثبت کرتے ہوئے بلند بانگ ارشاد فرمایا:'' جیسے باوفا اور جانثار اصحاب و انصار مجھے ملے نہ میرے نانا رسول خداؐکوملےاورنہ بابا علی مرتضی کو اور نہ ہی بھائی حسن کو دستیاب ہوئے ''۔
حقیقت یہ ہے کہ صحابیت بڑا محترم اور مقدس مرتبہ ہے ، یہ انتہائی عظیم رتبہ ہے جسے خداوندعالم نے بعض افراد سے مخصوص فرمایاہے ، قیود و شرائط کی وجہ سے یہ عظیم اور مقدس رتبہ سخت اور اس پر آخر عمر تک باقی رہنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے ، اسی لئے شیعوں کا عقیدہ ہے کہ تمام نیک اور صالح صحابہ واجب الاحترام ہیں ۔کیونکہ انہوں نے رسول خداؐکےہمراہقریہ قریہ دین اسلام کی شمع روشن کی ہے اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا ۔
ان پاکباز ، نیک ، صالح بندوں کا حسن کردار اور حسن گفتار بارگاہ خداوندی میں اتنا مقبول ہوا کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ ان کے اوصاف بیان کئے گئے ، ان کی تعریف و تمجید کی گئی اور واضح لفظوں میں ان کو جنت کی بشارت دی گئی ۔
ظاہر ہے اس تناظر میں صحابائے کرام کی مذمت اور ان سے نفرت کرنا نہ تو معقولیت ہے اور نہ شیعوں کا شعار ہے ،اسلام کی ترقی و کامرانی میں ان کی جاں نثاری ناقابل فراموش ہیں ، انہیں رسول اکرمؐ سےانتہائی عقیدت تھی ۔
ان صحابہ نے وفات رسول کے بعد معاشرتی انحراف کے حساس موقع پر بھی اپنا فرض نبھایا ، اس کے سنگین نتائج سے خبردار کیا ، واقعہ غدیریاد دلایا اور جس قدر بھی تلخ و تند لہجہ اختیار کیاجاسکتا تھا کیا ۔ لیکن اپنی ذمہ داری سے دستبردار نہیں ہوئے ۔
کربلا میں حق پرستوں کی جماعت کیفیت کے اعتبار سے آدم و عالم سے گراں تر تھی لیکن کمیت کے اعتبار سے بہت مختصر بلکہ انتہائی مختصر تھی ۔چھ ہزار ، تیس ہزار ، یا چھ لاکھ کے مقابلے میں صرف بہتر یا سو سے کچھ اوپر تعداد تھی جو تحفظ غدیر کا ناقابل تسخیر عزم لئے میدان کربلا میں وارد تھی ، ان کے پاس ہتھیار بھی بہت مختصر اور اکثر کے پاس سواری بھی نہ تھی ، اس انتہائی مختصر تعداد میں بھی ارباب مقاتل نے بعض اصحاب رسول کی نشاندہی کی ہے ، جن کے اسماء گرامییہ ہیں :
حبیب بن مظاہر اسدی ، مسلم بن عوسجہ اسدی ، انس بن حارث کاہلی ، جابر بن عروہ انصاری ، جنادہ بن حارث انصاری ، عبدالرحمن بن عبدربہ انصاری ، شبیب بن عبداللہ بن حارث ، سعد بن حارث ، عبدالرحمن الارحبی ، عقبہ بن صلت ، عمرو بن ضبیعہ تمیمی ، زیاد بن عریب ہمدانی ، ربیعہ بن خوط ، زاہر بن عمرو اسلمی ، جمع بن زیادہ جہنی ، مسلم بن کثیر ازدی ، بکر بن حی ثعلبی ۔
متذکرہ صحابائے کرام کے تذکرے علمائے رجال نے کئے ہیں ، تاریخ و سیرت کی کتابوں میں ان کی شجاعت ، جانثاری اور خلوص و عزم کے والہانہ تذکرے ہیں ، ان میں سے اکثر نے رسول اکرم کے ساتھ غزوات میں داد مردانگی دیتے ہوئے تنزیل کے لئے جنگ کی تھی اور بعد رسول حضرت علی ، امام حسن کے ساتھ تاویل کے لئے ایسا مظاہرہ کیا کہ انبیاء اولو العزم بھی انگشت بدنداں رہ گئے ۔
یہ بات پیش نظررہے کہ ان میں سے بعض صحابہ کا تذکرہ کتب رجال میں صراحت کا کے ساتھ موجود ہے، بعض نے اشارةًان کا تذکرہ کیاہے لیکن ان سب کے باوجود یہ بات طے ہے کہ ان تمام شہداء نے کسی نہ کسی عنوان سے رسول خداؐ کازمانہ درک کیاہے اور اکثر نے آنحضرتؐ سے روایت بھی نقل کی ہے ، لہذا یہ کہہ کر ان کی صحابیت کا انکار کرنا کہ صحابہ کے حالات پر مشتمل کتابوں میں ان میں سے بعض کا تذکرہ موجود نہیں ہے اس لئے وہ صحابی نہیں ، سراسر غلط ہے ، اس لئے ان کتابوں میں بہت سے ان صحابہ کا تذکرہ موجود نہیں جن کا صحابی ہونا اظہر من الشمس ہے ۔لہذا اس بہانے سے کسی کی صحابیت کا انکار کرنا صحیح نہیں ہے ۔
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ان اصحاب کا انتہائی اختصار کے ساتھ تذکرہ کیاگیاہے ، تفصیلی حالات مستقل کتاب میں موجود ہے جو انشاء اللہ عنقریب شائع ہوگی۔
بہرحال ناچیز نے اپنی اس کوشش کے ذریعہ امام حسین کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کی ہے ، خداوندعالم سے دعا ہے کہ میری اس ادنیٰ کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔آمین۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .