۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
علامہ امین شہیدی

حوزہ/ امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے توہینِ صحابہ بل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو انٹرویو کی شکل میں پیشِ خدمت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حال ہی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسمبلی نے توہین صحابہ بل منظور کیا ہے جس میں توہین کی سزا کا دورانیہ بڑھا کر دس سال کر دیا گیا ہے۔ بل کے مسودہ اور توہین کی سزاکے حوالہ سے ملک کے مختلف مکاتب فکرنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس کوقانون کی شکل دیے جانےکےخلاف احتجاج کاسلسلہ بھی جاری ہے۔ امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے توہینِ صحابہ بل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو انٹرویو کی شکل میں پیشِ خدمت ہے۔

سوال1: توہین صحابہ کے بل میں توہین کی سزا اب 10 سال کر دی گئی ہے، جب کہ یہ بل قومی اسمبلی نے منظور بھی کر لیا ہے۔ آپ کی رائے میں اس وقت جب ہم عملی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں، اس بل کو پیش کرنے اور منظور کرنے کی منطق کیا ہے؟

جواب: چونکہ اس وقت پی ڈی ایم اسمبلی میں موجود ہےاورحکومت بھی ان کےپاس ہے،اس لئےاس حکومتی اتحاد کواپنی حکومت برقراررکھنےکےلئےووٹوں کی ضرورت ہےاورہراسمبلی ممبرکاووٹ ان کےلئےبہت قیمتی ہے۔اب جب کہ اسمبلی میں حزبِ اختلاف موجود نہیں تو کسی بھی کم ووٹ کی حامل جماعت سے حکومتی اتحادکابلیک میل ہونا طبیعی ہے۔توہینِ صحابہ کی سزاکاترمیمی بل ایسےموقع پرپیش کیاگیاہےکہ جب پاکستان معیشت کےحوالہ سےڈی فالٹ ہونےکےبالکل قریب ہے،سیاسی حوالہ سےبین الاقوامی دنیامیں تنہائی کاشکارہے،حکومت کی ناکامی کی وجہ سےغربت اوربیروزگاری عروج پر ہےاور طالبان کی طرف سےبھی پاکستان کے اندر دہشت گردی کی نئی لہرکاآغازہوچکا ہے۔ بل کوپیش کرنےکامقصدان تمام مسائل سےعوام کی توجہ ہٹانا اورملک میں مزیدانتشارپھیلاناہے۔بل پر امتِ مصطفیؐ کا اتفاق نہیں ہےاوراس کی شقوں پر اعتراضات اٹھائے جانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مندرجات کی تعریف واضح نہیں ہےاوراس کے پیش کرنے والےسپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسے کالعدم دہشت گرد گروہ ہیں ۔تیس سال قبل ان کےآنجہانی لیڈر بھی اسی راہ میں دنیا سے گزر گئے اور پاکستان کواتنے بڑے فتنے میں چھوڑدیا۔اس بل کامنظور کیا جاناموجودہ اسمبلی ممبرز کی نااہلی، کوتاہ فکری،جہالت اورمعارفِ دین سےعدم آشنائی کی بدترین مثال ہے۔بل کےمعاشرہ پر بڑے گہرےاورمنفی اثرات مرتب ہوں گے جن سےآج کےحکمران شایدبےخبرہیں یا وہ اس گمان میں ہیں کہ ہمارا دور جیسے تیسے گزر جائے، بعد میں جو ہوگا وہ اگلی حکومت خودبھگت لے گی۔یہ سوچ ملک اوراس میں بسنےوالےمسلمانوں سےدشمنی کے ساتھ تحقیق کے دروازے بند کرنےاور قرآن و حدیث کے مندرجات اور تاریخی ورثہ کے انکار کے مترادف ہے۔ نون لیگ اور ان کے اتحادیوں کااس بل کوتسلیم کرناسب سے بڑی کمزوری کی دلیل ہےجب کہ اس کا نقصان خودنون لیگ اور پاکستان کو ہوگا۔

سوال 2: اگر یہ بل سینٹ سے بھی منظور ہو جاتا ہے تو پاکستان کے مستقبل کا منظر نامہ آپ کی رائے میں کیا ہو گا؟
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بل کو کسی بھی قیمت پر منظور نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سینٹ ایک آزاد ادارہ ہے اور میراخیال ہےکہ وہاں پڑھے لکھے لوگ اس بل کےمنفی اثرات پرضرور سوچیں گے۔یقینا ایوانِ بالاکےممبران پاکستان کی موجودہ کیفیت سےبخوبی آشنا ہیں اور ان کو اس بات کا علم ہے کہ یہ بل رات کے اندھیرے میں پاس کیا گیا ہےاور اسے خفیہ رکھنے کی وجہ یہی تھی کہ کسی بھی قسم کےردعمل سے بچا جائے۔عبد اللہ اکبر چترالی صاحب کےمیڈیا پردیےگئےبیان سے محسوس ہوتا ہےکہ یہ بل عوام کے مفاد میں نہیں،اسی لئے اسے خفیہ طریقہ سےمنظورکیاگیاہے۔فرض کریں کہ یہ بل سینٹ سےپاس ہوجاتا ہے تو نتیجتادہشت گردی اور نفرتوں کو فروغ ملے گا،شدت پسندی میں اضافہ ہوگااوراگرکوئی مولوی کسی مخالف کےحوالہ سےیہ نعرہ بلندکرےکہ فلاں نےفلاں کی توہین کی ہےتومعاشرہ کےاندرقتلِ ناحق کارجحان بڑھےگا۔اب تک کےکیسزمیں دیکھاگیاہے کہ لوگ فرسٹریشن کاشکارہیں مایوسی کےاظہارکاطریقہ یہی ہےکہ وہ ایسےموقع پربلوہ کی شکل میں حملہ کرتےہیں اورہرچیزکوتہس نہس کردیتےہیں اگرچہ انہیں اپنےانتہائی اقدام پر بعدمیں شرمندگی اٹھاناپڑتی ہے۔جیسےسیالکوٹ میں دوبھائیوں اورپھرایک فیکٹری میں غیرملکی مسیحی ملازم کےقتلِ ناحق کاسانحہ ہوا،دونوں واقعات میں چندافرادنےلوگوں کےجذبات کاغلط فائدہ اٹھایا۔اسی طرح لاہور میں مسیحی آبادی کے دو سو گھروں کو جلانے کا واقعہ پیش آیا۔ پاکستان میں اس طرح کےواقعات کی کئی مثالیں ہیں ۔حال ہی میں کراچی میں پارکنگ کے مسئلہ پرایک مولوی نےمسیحی خاتون کودھمکی دی کہ اگرمیری بات نہ مانی تو مقتدیوں کوجمع کرکےتم پرتوہین رسالت کا کیس بنا دوں گا۔ جس معاشرہ میں اس طرح کےرجحانات موجود ہوں، وہاں آپ کو قانون پر عمل درآمد کے حوالہ سے عدل و انصاف کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
دوسری بات جو بڑی اہم ہے کہ جولوگ اس قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں ،اگران کووہی سزانہ دی جائےجواس قانون کوتوڑنےوالےکےلئےمقررکی گئی ہے توپھر قانون کاغلط استعمال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ظلم بڑھتا ہے۔ اس وقت جو طالبان کا بڑھتا ہوا اثر اور دہشت گردی کے واقعات ہیں،اس کی وجہ سے بھی اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوگا اور طالبان اور ان سے فکری ہم آہنگی رکھنے والے گروہ (سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی ،القاعدہ ،داعش وغیرہ) یہ کہ کرمخالفین پرحملہ کریں گےکہ کسی گروہ یامسجدکےافرادنےفلاں شخصیت کی توہین کی ہے، اس لیے ہم نے پوری مسجد اڑا دی۔یہ اس قانون کےممکنہ منفی اثرات ہیں جس کےنتیجہ میں مختلف طبقات اورفرقوں کےدرمیان خلیج میں اضافہ ہوگااوراس کی زدمیں کوئی ایک مسلک نہیں آئےگابلکہ جوبھی جس سےانتقام لیناچاہےگا،اس قانون کاغلط استعمال کرےگا۔ہو سکتا ہے کچھ لوگ صحاح ستہ کوبھی نشانہ بنائیں کہ ان میں توہین موجود ہےلہذاان پرپابندی لگائی جائےاوران کی اشاعت اورتشہیرکرنے والوں کو قیدکیاجائے۔نتیجہ یہی بنتا ہےکہ جب آپ کوئی غلط قانون تشکیل دیں گےتو اس قانون کا غلط استعمال کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہوگی۔اس طرح معاشرہ مزید بدامنی کا شکار ہوگاجس کاخمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے گا۔

سوال3:کیا یہ بل کسی ایک فرد کی خواہش ہے یا اس کے پیچھے کوئی جامع حکمت عملی ہے؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟
جواب: یہ بل تیس سال قبل لشکر جھنگوی اورانجمن سپاہ صحابہ کے زمانہ کاہےلیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج اسےجماعت اسلامی کے رکن نےاسمبلی میں پیش کیا۔ جماعت اسلامی خوداس فکر کی حامل نہیں لیکن اس نے یہ بل پیش کر کےخوداپنےپاؤں پرکلہاڑی ماری ہے۔ یہ بل کسی فردِواحدکی فکر نہیں بلکہ ایک تحریک ہےجس کےپسِ پشت مقامی اور عالمی طاقتیں کار فرما ہیں۔اگراسے قانون کا درجہ مل جاتا ہے تو اس کی زد میں جماعت اسلامی کے اپنے بانی مولانا مودودی مرحوم،ان کی خلافت اور ملوکیت اور افکار آئیں گے۔سب سےپہلے جماعت اسلامی کا دروازہ بند ہوگا،اس لئےحیرت ہے کہ جماعت اسلامی کے ممبر پارلیمنٹ نے کیونکریہ بل پیش کیا۔ یہ بل اصل میں سپاہ صحابہ کے "ناموس صحابہ بل" کا چربہ ہے اور وہی چیز شکل بدل کر سامنے آئی ہے لیکن پیش کرنے والا سپاہ صحابہ کانہیں بلکہ جماعت اسلامی کا نمائندہ ہے ۔اس بل کے پیچھے فکر یہی ہے کہ ملک کو انتہا پسندی کی اس نہج تک پہنچا دیا جائے،جہاں سے واپسی ناممکن ہو۔ ایک زمانے میں اس طرح کی تحریکیں نیٹو،مغرب اورامریکیوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے اور ان کو بلیک میل کرنے کے لیےریاست کےمفادمیں تھیں۔پاکستان میں نیٹو کے ٹینکرز کوجب یہی دہشت گردگروپس آگ لگاتےتھے تو ہمارے ریاستی ادارے امریکہ اور نیٹوسےکہاکرتےتھےکہ آپ ہماری تنخواہ بڑھادیں تاکہ ہم آپ کےٹینکرزکی حفاظت کرسکیں۔ لیکن آج ریاست کو بھی یہ احساس ہے کہ ماضی میں انہوں نے بڑی بھیانک غلطیاں کی ہیں اورمعاشرہ انتہاپسندی کےجس مقام تک پہنچ چکا ہے اس کاسہرانہی اداروں اور لوگوں کے سر ہے جنہوں نے اس ملک کو اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر قربان کردیا۔ اس طرح کے قوانین کے ذریعہ شدت پسندی کو فروغ ملے گا اور شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور ہر باوردی شخص کو نشانہ بنایا جائے گا۔ طالبان، دہشت گرد گروہ اور بیرونی طاقتیں اس قانون کا غلط فائدہ اٹھائیں گی لیکن کسی محب وطن پاکستانی کو اس کا فائدہ نہیں ہوگا، لہذا اس بل کو منظور ہونے سے ہر صورت روکنا ہوگا۔

سوال4: اس بل کے پاس ہونے سے ہمارے تعلقات اپنے ہمسایہ ملک ایران سے کیسے ہو جائیں گے کیا یہ بل سعودی فرمانرواؤں کو خوش کرنے کے لئے پیش کیا گیا؟
جواب: سعودی عرب کااثرو رسوخ جواس وقت پاکستان میں ہے,وہ پہلےکبھی نہیں رہا۔اس وقت ہمارےحکمران ظاہرا یاپس پردہ دونوں طرح سےسعودی غلامی اورکاسہ لیسی میں ایک دوسرےسےبڑھ کرکام کررہےہیں جس کی وجہ یہ ہےکہ ہم معیشت کےبہت بڑےبحران میں پھنسےہوئےہیں اورہم یو اے ای اور سعودی عرب کے رحم و کرم پر ہیں۔اس فضا میں یقینی طور پر اس طرح کے بل پیش کرنے اور اس کو قانونی شکل دینے سے اسی آئیڈیالوجی کے حامل لوگوں کو خوشی تو ہوگی۔ لیکن اس کا نقصان پاکستان کو ہوگا کیونکہ اس معاملہ کاتعلق ہمارے ہمسایہ ملک ایران سے نہیں، براہ راست پاکستان سے ہے۔ یاد رکھئے! اس قانون کی زد میں تمام مسالک آئیں گے۔ جب پوچھا جائے گا کہ اللہ تعالی, رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ, امہات المومنین اور اصحاب رسول کی توہین کہاں ہے? کیا آپ توہین کا انکار کر سکیں گے جب کہ بخاری اور مسلم میں توہین موجود ہے۔ ہر وہ فرد جو اسلام کے حوالے سے مطالعہ اور تحقیق کی بات کرتا ہے، کو اس کا نقصان ہوگا۔ اس ترمیمی بل کی آڑ میں تحقیق، تاریخ اور قرآن کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ آپ قرآن کی کسی بھی آیت کا ترجمہ نہ پڑھ سکیں۔ قرآن مجید میں بعض ازواج نبی کی مذمت آئی ہے اور ان کی تہدید کی گئی ہے، حتی کہ ان کے بعض اعمال پر اللہ نے ناراضگی کا بھی اظہار کیا ہے۔ اسی طرح بخاری مسلم میں کئی احادیث ہیں جن میں امہات المومنین اور نبی اللہ (حضرت موسی علیہ السلام) کی توہین گئی ہے۔ کیا ان آیات قرآنی اور احادیث کو حذف کیا جائے گا؟ یہی صورتحال صحابہ کرام کی توہین کے حوالہ سے ہے۔ گویا اس طرح کے قوانین کی تائید کر کے اور ان کو ووٹ دے کر آپ خود پنڈورا باکس کھول رہے ہیں۔ لہذا یہ بل پاکستان کے کروڑوں عوام اور ایک صحت مند معاشرہ کی بقا کے حوالہ سے بہت بڑا چیلنج ہے۔

سوال5: پاکستان میں وزیر اعظم سے لے کر اسٹیبلشمنٹ کے طاقتور ترین افراد بلا شرکت غیرے ہمارے کرتا دھرتا رہے ۔ پھربھی شیعہ آبادی کو حقوق کیوں نہ ملے؟
جواب: بنیادی طور پر قائد اعظم محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح شیعہ اثنا عشری تھے۔ پاکستان کے قیام اور استحکام کےلئے شیعہ نوابین نے اپنی دولت خرچ کی۔ صدر سے لے کرچیف آف آرمی سٹاف کے بڑے عہدوں پر شیعہ اثنا عشری فائز رہے لیکن کبھی بھی شیعہ سنی تفریق پیدا نہیں ہوئی۔ گزشتہ چالیس سالوں میں یہ مسائل پیدا کئے گئے۔ مکتب تشیع کو آئسولیٹ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور شیعہ نسل کشی کا منظم انداز میں سلسلہ جاری رہا۔ کوئی ایسا شہر نہیں جہاں شیعہ قبرستان میں شہداء کی قبریں نہ ہوں، ان تمام لوگوں کو دہشت گردی اور فرقہ وارانہ نفرت کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ شیعہ مسلک کے بہترین بیوروکریٹس، ڈاکٹرز، وکلاء، ججز، کاروباری حضرات اور علماء کرام کو چن چن کر مارا گیا۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور حکومتوں نے دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی کی اور ان کو فری ہینڈ دیا۔ ملک اسحاق جس کے جرائم کی طویل فہرست تھی, اسے دو دہائیوں سے زائد عرصے تک ریاست نے اپنی آغوش میں پالا۔ کئی شیعوں کو قتل کرنے والا اکرم لاہوری زندہ اور ریاست کی تحویل اور حفاظت میں ہے۔ ہمارے قاتلوں کو بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور کی جیلوں سے چھڑا کر ملک سے باہر بھیجا گیا۔ یہ سب کہیں اور نہیں، اسی ملک میں ہوا۔ اتنی تلخ اور سیاہ تاریخ کے باوجود شیعہ ختم نہ ہوئے اور نہ ہوں گے۔ شیعیت ایک نظریہ ہے۔ تاریخ کو ملاحظہ کیا جائے تو امویوں، عباسیوں اور بعد کے ادوار میں بھی اس نظریہ نے شکست نہیں کھائی۔ وقتی طور پر دباؤ ضرور بڑھتا ہے لیکن ظلم کے ذریعہ تشیع کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اس مکتب نے اپنے نظریہ کے ساتھ آگے بڑھنا اور یہ ثابت کرنا ہے
کہ ہم پرامن ترین اور انسانی فلاح کے لئے سوچنے والی نظریاتی قوم ہیں۔ ابھی جو کچھ ہو رہا ہے اس کا وقتی طور پر نقصان ہوگا لیکن اس کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔ خون دینے کے بعد نظریاتی قومیں مزید زندہ ہوتی ہیں۔ پچھلی نسل چلی گئی, آج کی نسل زندہ اور ہر جگہ موجود ہے۔ اس کی جگہ آنے والی نسل لے گی اور آگے بھی بڑھے گی, اس کا راستہ روکنا ممکن نہیں۔

سوال6: کیا آپ سے پہلے جو شیعہ علماء گزرے اور جنہوں نے قادیانیوں کو بذریعہ آئین کافر قرار دینے میں بھٹو کا ساتھ دیا، کو اس غلطی کا احساس ہے؟ کیا انہوں نے ایسا کر کے درست کیا؟ کیا ان کو یہ ادراک نہ ہوا کہ اس طرح تو مستقبل میں شیعوں کو بھی آئین کے ذریعہ کافر قرار دیے جانے کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے؟
جواب: دو مختلف چیزوں کو الگ الگ رکھنا ہوگا۔ پہلی بات یہ کہ ضروریاتِ دین مثلا توحید و رسالت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے آخری نبی ہونے کا منکر خارج از اسلام ہے۔ اس حد تک مجھے قبول ہے کہ قادیانی ہو یا کوئی اور طبقہ، ہمارے نبی (ص) کو آخری رسول کے طور پر قبول نہ کرے اور کہے کہ ابھی مزید رسول آنے ہیں تو وہ کم از کم اس اسلام کے پیروکار نہیں رہتا جو اسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ لے کر آئے۔ اس میں کسی فتوے کی بھی ضرورت نہیں۔ جو بھی رسول کریم (ص) کی رسالت اور ان کی خاتمیت کا انکار کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ کیا اسلام قبول نہ کرنے والے شخص کو قتل کر دیا جانا چاہیے؟ ہرگز نہیں! کسی شخص کو زبردستی یا تلوار کے زور پر اسلام قبول کرنے کا نہیں کہا جا سکتا۔ اس معاملہ کا تعلق اللہ اور بندہ سے ہے۔ اگر کوئی نبی کریم (ص) کو آخری رسول نہیں مانتا تو وہ اپنے عقیدہ کے مطابق آزاد ہے۔ اس حد تک الجھن والی کوئی بات نہیں، لیکن اگر کوئی کسی کو قادیانی ہونے کے جرم میں مارنا شروع کر دے تو ظاہر ہے اس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کوئی فقیہ و مجتہد یا آیت و حدیث اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کسی کو اس کے عقیدہ کی بنا پر قتل کیا جائے۔ قادیانیوں کو تمام شہری حقوق حاصل ہیں، عقیدہ کو عنوان بنا کر انہیں قتل نہیں کیا جاسکتا۔
جہاں تک مکتب تشیع کا تعلق ہے، یہ مکتب توحید، قرآن کی صیانت و حفاظت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ کی خاتمیت کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ ہمارا اہل سنت کے مسالک سے اختلاف "خلافت" پر ہے جو اسلام اور کفر کا موضوع نہیں، بلکہ اسلام کے موضوعات میں سے ایک موضوع ہے۔ اگر کوئی ابوبکر یا علی علیہ السلام کو پہلا خلیفہ نہیں مانتا تو دونوں صورتوں میں وہ مسلمان ہے کیونکہ وہ اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کا قائل ہے۔ ایمان کی شرط لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کہنا، رسول (ص) کو آخری نبی اور قرآن مجید کو اللہ کی آخری کتاب ماننا اور قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھنا ہے۔ مسلمان کی یہ تعریف تمام مکاتب فکر میں موجود ہے لہذا یہ فرقہ وارانہ مسئلہ مذہبی نہیں، سیاسی ہے۔ سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، داعش، القاعدہ، بوکو حرام اور دیگر دہشت گرد گروپ سیاسی مقاصد کے تحت وجود میں لائے گئے اور مذہب کو ان مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا گیا اور فتوے بھی انہی مقاصد کو مدنظر رکھ کر دیے جاتے ہیں۔ یہ دین پر سراسر ظلم ہے۔

سوال7: جب ہم توہینِ رسالت یا توہینِ صحابہ کا معاملہ اٹھاتے تو "توہین" کی تعریف کیا ہے؟ کیا تنقید توہین ہے؟
جواب: سب سے بڑا اعتراض اس بل پر یہی ہے کہ آپ نے جب یہ کہہ دیا کہ توہین کی سزا عمر قید ہے تو اس بات کی بھی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ توہین سے کیا مراد ہے۔ آیا قرآن کی آیت پڑھنا اور حدیث بیان کرنا توہین ہے جب کہ وہ کلامِ خدا اور کلامِ رسول (ص) ہے۔ آپ کے نزدیک اس سے مراد توہین ہے تو پھر یہ اسلام کا دروازہ بند کرنے کے مترادف ہے۔ اس قانونی مسودہ میں سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ "توہین" کی تعریف کو بیان نہیں کیا گیا۔ کس چیز کو توہین قرار دیا جائے اور کسے نہیں، یہ ایک موضوع ہے۔ دوسرا موضوع یہ ہے کہ صحابی کی تعریف کیا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی مسلمان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ کو دیکھا اور ایمان کی حالت پر قائم رہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوا تو وہ صحابی ہے۔ کسی صحابی کو چوری، قتل، زنا اور شراب نوشی جیسے بڑے جرائم کے ارتکاب پر سزا کا ملنا قرآن اور حدیث سے ثابت ہو تو کیا اسے بیان کرنا صحابیت کی توہین ہے؟ قرآن و حدیث کو بیان نہ کرنے بات انتہائی متنازعہ ہے۔ اس لئے صحابیت کی تعریف کرنا پڑے گی تاکہ ہمیں ان سوالات کے جوابات مل جائیں۔ آپ کو یہ بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ توہین کی تعریف کیا ہے اور کون سی چیز توہین کے زمرے میں نہیں آتی۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ کے بڑے بڑے کردار نبی کریم (ص) کے روبرو کھڑے ہوئے۔ کیا ایسے مسلمان تنقید کی زد میں نہیں آئیں گے؟ وہ آیات جو منافقین کے لئے اتاری گئی ہیں، اگرچہ یہ لوگ مسلمان تھے اور انہوں نے رسول کریم (ص) کو دیکھا بھی تھا، لیکن اس کے باوجود کیا وہ منافقین نہ تھے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان کی آل پر جو مظالم ڈھائے گئے، کیا ظلم کرنے والے یہودی اور مشرک تھے یا مسلمان؟ اگر مسلمان تھے تو کیا انہوں نے نبی کریم (ص) کو دیکھا تھا یا نہیں؟ کیا اس صورت میں ان پر صحابیت کا اطلاق ہوتا ہے؟ کیا ان کے کارنامے بتانا توہین کہلائے گا؟ پھر رسول کریم (ص) کے بعد امت کے درمیان جو دھڑے بندیاں ہوئیں اور چاروں خلفاء کے دور میں جس طرح سے خون ریزی ہوئی اور چوتھے خلیفہ کے دور میں ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ مارے گئے تو مارنے والا ظالم ہے یا مرنے والا؟ قاتل رضی اللہ عنہا ہے یا مقتول؟کہیں تو فیصلہ کرنا پڑے گا۔ کیا شراب پینے والا اور شراب نوشی سے منع کرنے والا دونوں صحابی ہیں اور کیا دونوں کا درجہ بھی برابر ہے؟ ترمیمی بل کا مطلب یہی ہے کہ ان سب کے بارے میں بات نہ کی جائے لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ یہ منطق، علم اورفکری آزادی کے خلاف ہے اور معاشرہ پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

سوال8: ایک وقت میں کراچی میں وسیع پیمانہ پر شیعہ ڈاکٹرز کو نشانہ بنا کرقتل کیا گیا۔اس کی کیا وجہ تھی؟ صرف ڈاکٹرز پر کیوں فوکس کیا گیا؟ کیا کوئی خاص محرکات تھے؟ کوئی ڈیٹا ہو جو بتا سکے کتنے شیعہ ڈاکٹرز مارے گئے۔ علاوہ ازیں کتنے شیعہ 1947 سے لے کر اب تک پاکستان میں قتل کیے گئے؟
جواب: ایک بین الاقوامی ادارہ کی رپورٹ کے مطابق 1947 سے لے کر 2014 تک پاکستان میں ستائیس ہزار شیعہ قتل ہوئے۔ رپورٹ شہداء کے نام، تاریخ و مقام شہادت کےساتھ مرتب کی گئی ہے۔ معاشرہ میں ممتاز مقام کے حامل شیعہ افراد جن کا تعلق کراچی، پنجاب، بلوچستان اور کے پی کے سے تھا، کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ کی منظم نسل کشی کے نتیجہ میں کئی متاثرین وہاں سے ہجرت کر چکے ہیں اور آدھا کوئٹہ خالی ہو چکا ہے۔ افسوس کہ نفرت اور تعصب ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ چکا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .