حوزہ نیوز ایجنسی: امریکی استکبار اور اس کے یورپی، صہیونی گماشتوں نے غاصب اسرائیل کو سپیس دینے کے لئے عرب بہار کے ذریعے مغربی ایشیا کے عرب مقتدرہ میں تبدیلی کا شرمناک منصوبہ بنایا۔ جس کے لئے تیونس، یمن، مصر اور لیبیا میں وحشت ناک کھیل کھیلا گیا۔
عرب بہار کے خونی منصوبے کا مرکزی ہدف شام ٹھہرا، کیونکہ شام ہی مقبوضہ فلسطین کی مزاحمت کی وہ لائف لائن ہے جو محور مقاومت کو جعلی صیہونی ریاست کے خاتمے کا فیصلہ کن میدان فراہم کرتی ہے، لہٰذا 57 ممالک نے پورا زور لگا کر داعش اور النصرہ جیسے تکفیری جتھے تیار کر کے شام میں بدترین خانہ جنگی پیدا کی، لیکن محور مقاومت کی استقامتی پالیسی نے غربی، عبری اور عرب ٹرائیکا کے عزائم خاک میں ملا دیئے۔
شامی صدر بشار الاسد کی جدہ ائرپورٹ پر فاتحانہ مسکراہٹ، امریکہ اور اس کے لوکل حواریوں کی شرمناک شکست کا منہ چڑا رہی تھی، یہی وجہ ہے کہ غاصب صہیونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے جدہ اجلاس میں بشار الاسد کی شرکت کو شام کی فتح قرار دیتے ہوئے اسرائیل کی شکست کا اعتراف کیا ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ عرب لیگ کے مذکورہ 32 ویں اجلاس کا مرکزی ایجنڈا "مقبوضہ فلسطین کی حمایت اور شام کے موجودہ بحران کا حل اور تعمیر نو" تھا۔
مسئلہ فلسطین کا ایک بار پھر عرب لیگ کا بنیادی ایشو قرار پانا غاصب اسرائیل کی سفارتی شکست کا اعلان ہے۔ جس کا کریڈٹ محور مقاومت کے "اسٹریٹیجک صبر" کی پالیسی کو جاتا ہے۔