حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنو: روضہ فاطمین شبیہ روضہ جنت البقیع میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی شب شہادت مجلس عزا منعقد ہوئی۔ جسے مولانا سید علی ہاشم عابدی نے خطاب کیا۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام کے خطبہ کے ابتدائی کلمات کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے مولانا سید علی ہاشم عابدی نے بیان کیا کہ جب یزید ملعون کے دربار میں آل اللہ کا اسیر کاروان پہنچا تو اس نے اپنے ایک درباری کو حکم دیا کہ منبر پر جا کر اہلبیت علیہم السلام پر سب و شتم کرے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اس درباری کو مخاطب کر کے فرمایا تجھ پر وائے تو نے مخلوق کی خوشنودی کے لئے خالق کو ناراض کیا تیرا ٹھکانہ جہنم ہے۔ پھر امام نے یزید سے فرمایا کیا میں اس لکڑی پر جا کر کچھ بیان کروں؟ تو یزید نے منع کر دیا تو یزید کے بیٹے معاویہ نے یزید سے کہا یہ تو اسیر ہیں ان سے کیا خوف انکو اجازت دے دیں تو اس ملعون نے کہا کہ تم نہیں جانتے "یہ اس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں بچے کی پہلی غذا علم ہوتی ہے۔" یعنی یزید علم اہلبیت علیھم السلام سے خوف زدہ تھا۔
مولانا موصوف نے بیان کیا کہ امام علیہ السلام نے اللہ کی حمد اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ پر درود و سلام کے بعد ارشاد فرمایا۔ "ایھا الناس" (یعنی امام بتا رہے ہیں کہ ہمارے تمام مخاطب نہ مسلمان ہیں اور نہ ہی مومن۔) ہمیں چھ چیزیں عطا یوئی ہیں علم، حلم، سخاوت، فصاحت، شجاعت اور اہل ایمان کے دلوں میں محبت اور ہماری فضیلت یہ ہے کہ رسول مختار صلی اللہ علیہ و آلہ ہم میں سے ہیں (یعنی آل رسول بس ہم ہیں۔) صدیق ہم میں ہیں۔ (یعنی علی علیہ السلام ہی بس صدیق ہیں۔) طیار ہم میں ہیں۔ (یعنی اے دربار یزید کے حبشی غلاموں تمہیں اسلام کی نعمت سے جن جعفر طیار نے سرفراز کیا وہ ہمارے چچا ہیں۔) اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے شیر حمزہ ہم میں سے ہیں۔ (ہم حمزہ کے وارث ہیں اور یہ جو تخت پر بیٹھا ہے یہ خگر خوار کا پوتا ہے۔) سبطین رسول ہم میں سے ہیں۔" چالیس پچاس برس سے اہل شام جو اموی فریب کا شکار تھے امام سجاد علیہ السلام نے اپنے چند منٹ کے خطبہ سے ان کے لئے حقیقت واضح کر دی کہ اصل اسلام کیا ہے اور اس کے حقیقی وارث و رہبر کون ہیں۔
مولانا سید علی ہاشم عابدی نے کہا کہ صحابہ کبار کا احترام شیعہ عقاید میں شامل ہے اور انکی توہین کسی بھی صورت قابل برداشت نہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ آج تک ہم نے کبھی بھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے دشمنوں اور انکو اذیت پہنچانے والوں اور انکی توہین کرنے والوں سے نرمی نہیں برتی۔ جناب ابوذر غفاری کی توہین اور ان پر ظلم کرنے والوں سے ہم کل بھی بیزار تھے اور آج بھی بیزار ہیں، جناب عمار کے قاتلوں سے ہم کل بھی دور تھے اور آج بھی دور ہیں۔ عبداللہ بن مسعود کو اذیت پہنچانے والوں سے کل بھی ہمیں بیر تھا اور آج بھی ہے۔ کتنے تعجب کی بات ہے ابھی کچھ دن پہلے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی بیٹی کی شان میں گستاخی ہوئی تو کوئی گھر سے باہر نہ نکلا، ابھی فرانس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ کی شان میں گستاخی ہوئی لیکن کسی کی اسلامی غیرت پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ائے کاش مفتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے لئے یہ بھیڑ سڑک پر اتاری ہوتی۔ اور یہ کیسا تحفظ اصحاب ہے کہ خلیفہ راشد حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے دیوار مسجد پر لکھے نام کو کاٹ کر دوسرے کا نام لکھ دیا گیا۔ یہ کیسی بھیڑ تھی کہ جس سے خانہ خدا مسجد کی حرمت بھی محفوظ نہ رہی۔ اس وقت کی اہم ضرورت بلکہ ہر وقت کی ضرورت اتحاد و وحدت ہے۔ جس کا حکم مراجع کرام نے متعدد بار دیا اور ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین سے منع کیا ہے۔ لہذا اگر کوی شیعہ اہلسنت کے مقدسات کی توہین کرتا ہے تو وہ اسلام دشمن طاقتوں کا آلہ کار ہے اسی طرح اگر کوی سنی شیعہ مقدسات جیسے عزاداری، غدیر اور جناب ابوطالب کے ایمان کو زیر سوال لاتا ہے تو اسے اپنا محاسبہ کرنا ہو گا کہ کہیں وہ دشمن کا آلہ کار تو نہیں۔