حوزہ نیوز ایجنسی। عظیم اور مقدس ایام اللہ میں سے ایک ربیع الاول کی 9 تاریخ ہے۔ یہ مقدس اور مبارک دن حضرت ولی اللہ الاعظم، امام مبین، بقیۃ اللہ فی الارضین، موعود الانبیاء و المرسلین کی ولایت و امامت کے آغاز کا دن ہے۔
ظلم و استکبار اور استضعاف سے رہائی اور نجات و خلاص کے منتظرین پر لازم ہے کہ اس روز کو عقیدت و احترام کے ساتھ منائیں اور اس کی تعظیم کو اپنے لیے فخر و اعزاز سمجھیں، حقیقت یہ ہے کہ اس روز سے ہجری تاریخ کے اندر اب عصر مہدوی کا آغاز ہوتا ہے۔ گویا نو ربیع الاول کو عید منانے کا حقیقی فلسفہ آغاز ولایت امام زمانہ (ع) ہے، اسی روز سے مولائے عصر و زمان (عج) کی ولایت و امامت کا آغاز ہوا ہے اور آپ علیہ السلام ہمارے زمانے کے امام ہیں تو نو ربیع الاول یوم اللہ کیوں نہ ہو، یہ دن ہماری خوشی کے آغاز کا دن کیوں نہ ہو۔
ویسے ربیع الاول کا مہینہ بھی نہایت عجیب مہینہ ہے، رسول اللہ (ص) کی ولادت کا مہینہ، امام صادق علیہ السلام کی ولادت کا مہینہ، بعض روایات کے مطابق رسول اللہ (ص) کی ہجرت مدینہ کا مہینہ، اسی مہینے رسول اللہ (ص) کی ولادت ہوئی، گویا دین خاتم کا آغاز بھی اسی مہینے سے ہوا اور اسی مہینے امام حسن عسکری علیہ السلام خونخوار عباسی بادشاہ کے ہاتھوں 8 ربیع الاول کو شہید ہوئے تو 9 ربیع الاول کی رات امام زمانہ کی امامت و ولایت کا آغاز ہوا۔
سلام ہو اس مبارک مہینے پر جس کی ابتداء میلاد خاتم الانبیاء کی رسالت سے ہوئی اور اس کی انتہاء ولایت خاتم الاوصیاء (ص) پر ہوئی۔
امام زمان (عج) کے دور ولایت و امامت کے آغاز کی کیفیت ؟ عباسی سلاطین نے امام صادق سے امام عسکری علیہما السلام تک (چھ اماموں) کو شہید کر دیا تھا۔ معتصم عباسی نے امام عسکری علیہ السلام کو شہید کرنے کے بعد امام عصر (عج) کا تعاقب بھی شروع کیا۔ کئی لوگ امام (ع) کے گھر میں تعینات کیے اور انہیں ہدایت کی کہ فرزند عسکری (ع) کو ڈھونڈ لائیں۔ جاہلیت کی بے رحم قوت امامت کی جڑیں اکھاڑنے کا منصوبہ بنا چکی تھی لیکن خداوند نے اپنا ذخیرہ محفوظ کر لیا تھا۔
پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ میرے فرزند امام مہدی (عج) میرے ہم نام ہیں اور آپ کی کنیت بھی میری کنیت ہے اور صورت و سیرت میں دوسروں سے بہت زیادہ مجھ سے مشابہت رکھتے ہیں۔ آپ (ع) کے لیے لمبی غیبت (غیبت کبری) ہے جس میں بہت سے لوگ گمراہ ہو جائیں گے اور تھوڑے سے لوگ باقی رہیں گے اور اس کے بعد میرے یہ فرزند چمکتے ستارے کی مانند طلوع کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کر دیں گے جس طرح کہ یہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہو گی۔
آج 9 ربیع الاول ہے، جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہلِ بیت (ع) نے سانحہ کربلا کے بعد اپنا سوگ ختم کیا تھا۔ اسے عیدِ زہراء سلام اللہ علیہا بھی کہتے ہیں اور عیدِ شجاع بھی، تمام مسلمانوں کو یہ عید بہت بہت مبارک ہو۔
مؤرخین کا اتفاق ہے کہ جناب مختار نے حضرت حنفیہ کی خدمت میں قاتلان امام علیہ السلام کے سروں کے ساتھ ایک خط بھی اس مضمون کے ساتھ لکھ کر بھیجا تھا کہ:
میں نے آپ کے مددگاروں اور ماننے والوں کی ایک فوج آپ کے دشمنوں کو قتل کرنے کے لِیے موصل بھیجی تھی ، اس فوج نے بڑی جوانمردی اور بہادری کے ساتھ آپ کے دشمنوں کا مقابلہ کیا اور بے شمار دشمنوں کو قتل کیا جس سے مؤمنین کے دلوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی اور آپ کے ماننے والے نہایت خوش اور مسرور ہوئَے ، اس سلسلے میں سب سے بڑا کردار ابراہیم ابن مالک اشتر نے ادا کیا جو سب سے زیادہ تحسین و آفرین کے مستحق ہیں ۔
جناب محمد حنفیہ کے سامنے جب وہ تمام سر پیش کیے گئے تو دیکھتے ہی سجدہ شکر میں جھک گئے اور جناب مختار کے حق میں دعا کی کہ: خداوند مختار کو جزائَے خیر دے جس نے ہماری طرف سے واقعہ کربلا کا بدلہ قاتلان حسین علیہ السلام سے لیا ہے۔
پھر اس کے بعد آپ نے سجدہ شکر سے سر اٹھا کر عرض کیا: پالنے والے تو ابراہیم ابن مالک اشتر کی ہر حال میں حفاظت فرما اور دشمنوں کے مقابلے میں ہمیشہ اسکی مدد کرتا رہ اور انہیں ایسے امور کی توفیق عطا فرما جو تیری مرضی کے مطابق ہوں اور جن سے تو راضی ہو اور ان کو دنیا و آخرت میں بخش دے۔
سر ابن زیاد ملعون امام زینُ العابدین (ع) کی خدمت میں:
جناب حنفیہ نے ابن زیاد ، عمر سعد ، حسین بن نمیر اور شمر ذی الجوشن وغیرہ کے سروں کو امام زینُ العابدین علیہ السلام کی خدمت میں ارسال فرمایا ، اُن دنوں حضرت مکہ معظمہ میں ہی مقیم تھے ۔ حضرت کی خدمت میں اُن ملعونوں کے سر پہنچے اور آپ کی نگاہ اُن سروں پر پڑی ، آپ علیہ السلام نے فوراً سجدہ شکر میں اپنا سر رکھ دیا اور بارگاہ احدیت میں عرض کی:
پالنے والے میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے ہمارے دشمنوں سے انتقام لیا ہے، پھر سجدے سے سر اٹھا کر آپ علیہ السلام نے فرمایا خدایا مختار کو جزائے خیر دے کہ اُس نے ہمارے دشمنوں کو قتل کیا ہے۔
جس وقت ابن زیاد کا سر آپ علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا آپ ناشتہ تناول فرما رہے تھے ۔ اُن سروں کو دیکھ کر آپ نے سجدہ شکر کیا پھر سر اٹھا کر فرمایا کہ: خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے میری وہ دعا قبول کر لی جو میں نے دربار کوفہ میں کی تھی۔ جب میرے پدر بزگوار کا سر طشت میں رکھا ہوا تھا اور اُس وقت ابن زیاد ملعون ناشتہ کر رہا تھا، یعنی خداوندا مجھے اُس وقت تک موت نہ دینا جب تک مجھے ابن زیاد ملعون کا کٹا ہوا سر نہ دکھا دے۔
اس کے بعد حضرت زینُ العابدین علیہ السلام نے داخل خانہ ہو کر مخدرات عصمت و طہارت سے فرمایا کہ اب لباس ماتم تبدیل کرو ، آنکھوں میں سرمہ لگاو ، بالوں میں کنگھی کرو ۔ چنانچہ آپ کے ارشاد کے مطابق اہل حرم نے عمل کیا۔
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد سے آج تک اہلبیت رسول صلی اللہُ علیہ و آلہ وسلم میں نہ کسی نے سرمہ لگایا تھا اور نہ ہی بالوں میں تیل ڈالا تھا۔
کتاب امیر مختار، مصنف سید بشارت حسین کامل مرزا پوری
9 ربیع الاول اس لحاظ سے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ 9 ربیع الاول سن 260 ہجری کو حضرت حجت قائم آل محمد حضرت صاحب العصر و الزمان نے امامت کا منصب پوری ذمہ داری کے ساتھ سنبھالا۔
السلام ُ علیک یا صا حبُ آلعصر والزمان عجل اللہ ُ تعالٰی فرجہ۔
گلشن میں جیسے بہار لوٹ کے آئی ہے
مختار نے خبر ہی کچھ ایسی سنائی ہے
خوب آج ہنسو عید کا دن ہے حسینیوں
دختر زہرا آج کے دن مسکرائی ہے
ہر دم اس کی عنایت تازہ ہے
اس کی رحمت بغیر اندازہ ہے
جتنا ممکن ہے کھٹکھٹاتے جاؤ
یہ دستِ دعا خدا کا دروازہ ہے
ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ملے نہ تم کو کوئی غم، غم حسین کے بعد
عید زہرا بھی مناؤ، غم حسین کے بعد
لے آئے کاٹ کر مختار سر لعینوں کے
ہے آج رخ پے تبسم، غم حسین کے بعد