۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 371253
10 اگست 2021 - 20:35
محمد لطیف مطہری کچوروی

حوزہ/ جبتک بےکس مظلوم انسانوں کی آخری امید حجت خدا امام زمانہ ؑ کا ظہور نہیں ہو گا اور وہ عظیم الٰہی انقلاب برپا نہیں ہو گا، جو تمام انسانیت کی فلاح اور نجات کا ضامن ہے عزاداران حسین ؑمحرم مناتے رہیں گے، راہ حق میں سروں کو قربان کرتے رہیں گے، سینوں میں گولیاں کھاتے رہیں گے، مشکلات و مصائب جھیلتے رہیں گے اور اپنی جانوں کو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کرتے رہیں گے اور غم حسین میں اس وقت تک آنسو بہاتے رہیں گے، جب تک باطل کو بہا کر نہیں لے جائے گا۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حوزہ نیوز ایجنسی۶۰ ہجری جونہی ختم ہوئی ۶۱ہجری کا محرم بڑے افسوس اور غم و اندوہ میں غرق ہو کر، بڑی بےتابی سے، حزن سے بھرے ہوئے اور مجبوری کے عالم آغاز ہوا، اس لئے کہ نواسہ رسول ؐ سال کی ابتدا میں کربلا میں پہنچ کر خیمہ زن ہو چکے تھے۔ نہ صرف نواسہ رسولؐ بلکہ رسول خدا کے اہل بیت ؑ اور دیگر رشتہ دار بھی کربلا کے میدان میں پہنچ کر مستقبل قریب کے منتظر تھے۔ زمین کربلا مضطرب دکھائی دے رہی تھی جب کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم و باوفا اصحاب راز و نیاز اور دعا و مناجات میں مصروف نظر آرہے تھے۔ آل محمد کا یہ قافلہ نئے سال کے آغاز میں ہی ایک تبتے ہوئے ریگستان میں پہنچ چکا تھا، اور نواسہ رسولؐ اپنے ساتھیوں کو شہادت کی خوش خبریاں سنا رہے تھے۔ یہ  وہی حسین علیہ السلام تھے جس کی شان میں رسولؐ خدا نے فرمایا تھا "حُسَيْنٌ مِنّى وَ أَنـَا مِنْ الحُسَيْن، أَحَبَّ اللّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً" حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ یہ رسول اللہ ؐ کا وہی نور نظر تھا کہ جب آنحضرت رب کے حضور سر بسجود ہوئے تو آپ رسول خدا کے پیٹ پر سوار ہوئے اور رسول اللہ حکم خدا کے منتظر رہے، اور رب کی طرف سے حکم ہوا کہ جب تک یہ معصوم بچہ خود سے نہ اترے آپ سجدے کی حالت میں ہی رہیں۔

آج یہی عظیم ہستی، اللہ کا یہی محبوب بندہ حج کو عمرے میں تبدیل کر کے کربلا پہنچ چکا تھا تاکہ اموی استبداد اور ظالم و جابر حکمران کے ہاتھوں جان بلب اسلام کو ایک دفعہ پھر نئی زندگی عطا کرے اور اسلامی معاشرے کو اپنی خطوط پر استوار کرے، جن خطوط پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استوار فرمایا تھا۔ اسلامی تہذیب سے رخ پھیر کر جاہلیت کی طرف پلٹنے والی قوم کو پھر سے قرآن و سنت کے سائے میں بندگی کا درس اور تربیت دے کر پھر سے ایک مہذب قوم میں بدل سکیں۔ نواسہ (ع) پہلے سے مطلع تھے کہ اگر حج کو عمرے میں تبدیل نہ کریں تو شام کے درندہ صفت انسان جو حاجیوں کی روپ میں تھے، حسین ابن علی ؑکو خانہ خدا میں ہی شہید کر دیتے۔ نواسہ رسول نے مناسب نہ سمجھا کہ حرم پاک کی حرمت پامال ہو جائے اس لئے آپ عمرہ کر کے بیت اللہ کی حرمت کو محفوظ رکھتے ہوئے کربلا پہنچ گئے۔ جس اسلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان کی ہتھیلی میں رکھ کر بڑی کوششوں اور ہزار زحمتوں، اذیتوں کو برداشت کر کے پالا تھا آج وہی اسلام سرے سے مٹ رہا تھا اور مسلمانوں کے قلب و نظر میں اس کی جڑیں اس حد تک کمزور ہو چکی تھیں کہ جب تک خون سے انہیں سیراب نہ کیا جاتا اسلام کا زندہ رہنا محال نظر آرہا تھا۔

اس پس منظر میں نواسہ رسول ؐ نے یہ اعلان کرتے ہوئے قیام فرمایا، "إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَ إِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أَسيرَ بِسيرَةِ جَدّى وَ أَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب" میرا مقصد دنیاوی حکومت یا مال و زر کا حصول نہیں بلکہ اپنے نانا محمد مصطفیؐ اور بابا علی مرتضیٰ ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت محمدی کی اصلاح کرنا  ہے۔ مفسدوں، ظالموں اور جابروں کی تباہ کاریوں سے دین اور مسلمانوں کو نجات دلانا ہے اور خون کے پیاسے درندہ صفت انسانوں کے مقابلے میں اسلام کی آبیاری کرنا ہے۔ راستے کی مشکلات و مصائب جھیلتے ہوئے آل محمد علیہم السلام کا یہ قافلہ بڑی آب و تاب کے ساتھ محرم کی دوسری تاریخ کو کربلا پہنچ گئے۔ آل محمد علیہم السلام کو ۶۱ ہجری کی ابتدا میں ہی مصائب و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا اور یہ مہینہ آل محمد علیہم السلام اور ہر انصاف پسند انسان کے لئے نہ بھولنے والا مہینہ ثابت ہوا اور قیامت تک کے لئے یہ مہینہ اسی غم و اندوہ کے ساتھ شروع ہونے کو ہی اپنا فخر سمجھنے لگا ۔
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
ایک ضرب یداللہ ہی ایک سجدہ شبیریؑ

نواسہ رسولؐ نے بدعتوں، گمراہیوں، ظلم و استبداد اور شرک و استحصال کے خلاف قیام کیا۔ اس مہینہ میں نواسہ رسول کو حق پرستی اور عدل پروری کے جرم میں شہید کیا گیا۔ کربلا کی تپتی ہوئی صحرا کو نواسہ رسولؐ اور ان کے ۷۲ ساتھیوں کے خون سے سیراب کیا گیا۔ یوں اسلامی معاشرہ ہمیشہ کے لئے درندہ صفت، حکمرانوں، استحصال و استکبار اور ظلم و ناانصافی کے خونچکاں پنجوں میں گرفتارہو گیا۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
 ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
دین محمد ؐ کا سورج جو اپنی روشنی کھو چکا تھا ایک دفعہ پھر بڑی آب و تاب سے طلوع ہوا اور اپنی کرنوں کے ذریعے دنیا والوں کو بتلا دیا کہ کربلا میں نواسہ رسولؐ نے ہمیشہ کے لئے اسلام کا علم بلند کیا ہے۔ قیامت تک نواسہ رسولؐ کی یاد دنیا والوں کو  یہ درس دیتی رہے گی کہ کسی ظالم، فاسق و فاجر کی بیعت کی ذلت قبول کرنے سے عزت کی موت بہتر ہے ۔ "الموت أولى من رکوب العار والعار أولى من دخول النار"۔
اصول دین نہ بچاتے جو کربلا والے
 ورق ورق یہ کہانی بکھر گئی ہوتی
بچا گیا اسے سجدہ، حسین ؑ کا ورنہ
 نماز، عصر سے پہلے ہی مرگئی ہوتی

محرم زندہ دل انسانوں کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ واقعہ کربلا صرف حسین بن علی علیہ السلام اور یزید کے درمیان چھڑ جانے والی جنگ نہیں، بلکہ حق و باطل کے درمیان لڑی جانے والی جنگ ہے اور حق نے اپنا سر کٹوا کر باطل کو ہمیشہ کیلئے سر نگوں کر دیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام اپنے مختصر سے قافلہ کے ساتھ کربلا پہنچے اور وہاں امام عالی مقام نے کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں انسانوں کو جینے اور مرنے کا سلیقہ سکھا دیا۔
جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے
مر کے جینا سکھا دیا تونے
آج کا محرم کربلا کی یاد ہے اور یہ محرم ہل من کی آواز ہے۔ محرم سرفروشان حق کی ناقابل شکست ولولہ ہے، محرم ظلمت کی گھٹاؤں سے طلوع ہونے والی نوید سحر ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں عاشورہ برپا ہوئی۔ یوم عاشورہ جو میزان حق و باطل ہے، جس روز سید الشہداء علیہ السلام نے اپنے با وفا اہلبیت و اصحاب کے ساتھ بنی امیہ کے مکروہ چہرے سے اسلام کا نقش نوچ پھینکا اور کربلا کی تپتی ہوئی ریگستان میں یزیدیت کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نداد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین ؑ

جبتک بےکس مظلوم انسانوں کی آخری امید حجت خدا امام زمانہ ؑ کا ظہور نہیں ہو گا اور وہ عظیم الٰہی انقلاب برپا نہیں ہو گا، جو تمام انسانیت کی فلاح اور نجات کا ضامن ہے عزاداران حسین ؑمحرم مناتے رہیں گے، راہ حق میں سروں کو قربان کرتے رہیں گے، سینوں میں گولیاں کھاتے رہیں گے، مشکلات و مصائب جھیلتے رہیں گے اور اپنی جانوں کو  نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کرتے رہیں گے اور غم حسین میں اس وقت تک آنسو بہاتے رہیں گے، جب تک باطل کو بہا کر نہیں لے جائے گا۔
قتل حسین ؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
آج بھی یزیدی فکر دنیا میں پروان چڑھ رہی ہے اور یہ حسینیت کا تقاضا ہے کہ حسینی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور اچھائیوں کو رائج اور برائیوں کو ختم کر کے معاشرے کو ایک حقیقی اصلاحی معاشرہ بنا دیں کہ جہاں کوئی طاقتور کسی کمزور پر ظلم نہ کر سکے، جہاں برائی کو اچھائی پر ترجیح نہ دی جائے۔ آج شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے چیلے داعش، القاعدہ اور طالبان اسلام ناب کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شیطان بزرگ امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور ان کے دستر خوان پر پلنے والے یزیدی افکار رکھنے والے عناصر کا علم ہونا چاہیئے کہ شیعیان حید کرار اہلبیت عصمت و طہارت سے محبت کرتے رہیں گے اور ان کا غم مناتے رہیں گے اور قیامت تک یہ سلسلہ بڑی آب و تاب  کے ساتھ جاری و ساری رہے گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .