حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سعودی عرب میں خواتین کے پہلے دستے کی تربیت مکمل ہونے کے ساتھ وہاں اب پہلی مرتبہ خواتین فوج کا حصہ بن گئی ہیں۔ سعودی عرب میں اصلاحات کا عمل جاری ہے، جس میں خواتین کو اکیلے ڈرایئونگ کی اجازت، تفریح کے لئے سنیما ہال کا کھولا جانا وغیر ہ شامل ہیں۔ دنیا کے مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی نے ان اصلاحات کا استقبال بھی کیا ہے۔ دوسری جانب بیرونی افواج کے جانے کے بعد طالبان کا پورے افغانستان پر قبضہ ہو چکا ہے اور بہت جلد وہ اپنی حکومت کا اعلان بھی کر دیں گے۔
افغانستان میں بھی طالبان کی ایک نئی شکل نظر آ رہی ہے اور تشہیر یہ ہو رہی ہے کہ وہ بیس سال پہلے والے طالبان نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ذرائع ابلاغ نے ان کی شبیہ درست کرنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے، لیکن اس بیچ ان کے ایک ترجمان کا بیان آ یا ہے کہ افغانستان میں خواتین کو ویسے تو تمام شعبوں میں کام کرنے کی اجازت ہوگی لیکن کوئی خواتین وزیر نہیں ہو سکتی، جبکہ افغانستان کے پڑوسی ملک اور جس ملک میں طالبان کی حقیقت میں پیدائش ہوئی یعنی پاکستان میں تو خواتین وزیر بھی ہیں، بلکہ بے نظیر بھٹو کی شکل میں ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔ اب یا تو طالبان غلط ہیں یا پھر پاکستان، یا پھر حقیقت یہ ہے کہ حکمراں اور اشخاص اپنے حساب سے شریعت کی تشریح کرتے ہیں۔
سعودی عرب میں ایک عرصہ تک حکومتوں نے مذہب اور شریعت کے نام پر خواتین کو حق نہیں دیئے اور اب نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ سعودی عرب میں پورے سماج کو کھولا جا رہا ہے۔ کیا جس شریعت کی سعودی عرب میں حکمرانی تھی وہ اب نہیں ہے یا موجودہ سیاسی تقاضوں کی وجہ سے اس پرانی شریعت کی ضرورت نہیں ہے۔ عوام نے تو پرانی شریعت کو بھی قبول کر لیا تھا اور موجودہ اصلاحات کو بھی گلے لگا لیا ہے، مگر کیا شریعت ایسی چیز ہے جس کو جو چاہے اپنی ضرورت کے حساب سے بدل سکتا ہے، لاگو کر سکتا ہے، چلا سکتا ہے اور عمل کرا سکتا ہے۔ نظر تو کچھ ایسا ہی آ رہا ہے۔
ہر ملک اور ہر مسلک نے اسلام کی تشریح اپنے حساب سے کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے معروف اداکار نصیر الدین شاہ نے یہ کہہ دیا کہ 'ہندوستانی اسلام ہمیشہ دنیا بھر کے اسلام سے مختلف رہا ہے'۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی حکومت کو قائم کرنے کے لئے، بچانے کے لئے یا اس کو مستحکم کرنے کے لئے شریعت کا استعمال نہ کیا جائے تو بہتر ہے۔ یہ ایک جامع حقیقت ہے کہ جیسے جیسے وقت بدلتا ہے اور سماج میں ترقی ہوتی ہے تو اس ترقی کے حساب سے تبدیلیوں اور اصلاحات کی ضرورت پڑتی ہے اور ان کو نافذ کرنا حکومتوں کی ذمہ داری بھی ہے لیکن ان کو شریعت کا لبادہ نہ اڑھایا جائے تو اچھا ہے۔
سیاسی جماعتیں یا گروپ جب مذہب کو اقتدار میں آنے اور رہنے کے لئے ذریعہ بنائیں گی تو وقتی طور پر تو ان کو کامیابی مل جائے گی لیکن جس سماج پر وہ حکومت کریں گی وہ سماج مذہبی چہار دیواری میں قید ایک گونگا بہرا سماج ہوگا، جہاں سے عوامی اصلاحات اور ترقی کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی، بلکہ وہاں سے صرف اور صرف مذہبی تقاضوں اور اختلافات کا ہی شور سنائی دے گا۔ ویسے تو سماج کے ہر طبقہ کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے لیکن مسلمانوں کو اس پر زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پوری دنیا ان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی۔
ہندوستان ہو، امریکہ ہو یا سعودی عرب ان کو دنیا میں عزت کا مقام جبھی حاصل ہو سکتا ہے جب وہاں کی حکومتیں کھلے ذہن سے سماج کے ہر طبقہ کو مساوی مواقع فراہم کریں اور مذہب کو حکومت میں آنے اور رہنے کا ذریعہ نہ بنائیں۔ مذہب کی حقیقی روح یہ ہے کہ ایک اچھا، ترقی یافتہ، خوشحال اور مکمل امن و امان والا سماج تشکیل ہو، جبکہ سیاسی گروپ مذہب کو اقتدار حاصل کرنے کے لئے سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سماج کو سیاسی مذہب نہیں چاہئے بلکہ مذہب کی اصلی روح چاہئے۔