۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
سالانہ یوم حسین (ع)

حوزہ/صغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان قائد عوام انجنئیرنگ یونیورسٹی نواب شاھ  کی جانب سے سالانہ یوم حسین علیہ السلام کا انعقاد کیا گیا، یوم حسینی علیہ السلام کی صدارت اصغریہ اسٹوڈںٹس آرگنائیزیشن پاکستان کے مرکزی صدر محسن علی اصغری نے کیا، یوم حسین علیہ السلام میں خصوصی خطاب حجتہ السلام  سید عروج عباس زیدی نے کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان قائد عوام انجنئیرنگ یونیورسٹی نواب شاھ  کی جانب سے سالانہ یوم حسین علیہ السلام کا انعقاد کیا گیا، یوم حسینی علیہ السلام کی صدارت اصغریہ اسٹوڈںٹس آرگنائیزیشن پاکستان کے مرکزی صدر محسن علی اصغری نے کیا، یوم حسین علیہ السلام میں خصوصی خطاب حجتہ السلام  سید عروج عباس زیدی نے کیا، یوم حسین علیہ السلام کے سیمینار میں حمد باری تعالیٰ، نعت مقبول صہ، منقعبت اور سوز خوانی کی گئی، اس موقع پہ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات سمیت، استاذہ، پروفیسرس اور دیگر مھمان گرامی کی کثیر تعداد موجود تھی۔

 یوم حسین علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے حجتہ السلام سید عروج عباس زیدی نے کہا کہ آج دنیا میں ایسے افراد بہت کم ہوں گے جو نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین بن علی ابن ابی طالبّ کے نام سے آشنا نہ ہوں۔ دیندار افراد کی تو بات ہی درکنار لادین و لامذہب اشخاص تک امام حسینّ کی بارگاہ میں آتے ہیں تو سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔ مہاتما گاندھی جیسے انسان سے لے کر نیلسن منڈیلا انسان تک درسگاہ کربلا میں دو زانو بیٹھے نظر آتے ہیں۔

آخر یہ کیسا واقعہ ہے؟۔۔۔اس واقعہ میں ایسی کونسی خصوصیت پوشیدہ ہے کہ زمانے کی گردوغبار اس کی تابناکی کو بوجھل نہیں کر پا رہی ہے؟۔۔۔ اس واقعے میں ایسی کونسی صفت ہے کہ ساری دنیا کسی مذہب وملت کے تعصب کے بغیر اس واقعہ کی گرویدہ ہے؟

اس کا سادہ اور مختصر سا جواب یہی ہے کہ کربلا اس الہٰی درسگاہ کا نام ہے جس نے سسکتی اور مرتی ہوئی انسانیت کو جینے اور عزت کے ساتھ مرنے کا سلیقہ سکھایا، کربلا ایک ایسے آفاقی مکتب کا نام ہے کہ جہاں آکر انسانیت اپنے کمال وعروج تک پہنچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان مذہب وملت سے ماوراء ہو کر انسان ہونے کے ناطے اپنے اپنے طور پر اس واقعہ کو اپنے لئے نمونہ عمل بنا لیتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ اس واقعہ کے ذریعہ نواسہ رسول امام حسین کا ہدف اس کے ماسوا اور کچھ نہیں تھا کہ اپنے اور اپنے بعد آنے والے معاشروں کی اصلاح فرمائیں تبھی تو فرمایا تھا میں اس لئے مدینہ چھوڑ رہا ہوں کہ اپنے جد کی امت کی اصلاح کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں،یعنی امام حسینّ کا مقصد اور ہدف یہی تھا کہ بنی نوع بشر کو اس” مدینہ فاضلہ “ تک لے آئیں کہ جس کی طرف اس نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے سفر شروع کیا تھا لیکن منزل تک آنے سے پہلے ہی منزل گم ہوگئی تھی۔

حق وباطل کے اس معرکے میں ایک طرف فرزند رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسینّ تھے، تو دوسری طرف ظالم و جابر اور فاسق و فاجر حکمراں یزید پلید تھا۔ حضرت امام حسینّ نے یزید کے خلاف علم جہاد اس لئے بلند کیا کہ اس نے بیت اللہ الحرام اور روضہ نبوی کی حرمت کو پامال کرنے کے علاوہ اسلام کی زریں تعلیمات کا تمسخر اڑاتے ہوئے ہر قسم کی برائیوں کو فروغ دیا اور ایک بار پھر دور جاہلیت کی باطل اقدار کو زندہ کر کے دین مبین اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی جس کی خاطر پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اذیت وتکالیف برداشت کی تھیں۔ حضرت امام حسینّ دین اسلام کے وہ محافظ ہیں جنہوں نے اپنے خون مطہرہ سے شجر اسلام کی آبیاری کی۔یوم حسین علیہ السلام کو صدارتی خطاب مرکزی صدر محسن علی اصغری نے کیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .