۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
News ID: 381872
29 جون 2022 - 16:29
شهادت امام محمد تقی

حوزہ/ آج ہم حضرت جوادالائمہ امام محمد تقی علیہ السلام کی حدیث شریف کی روشنی میں سماج میں پھیلے اختلافات پر نظر کریں تو ہمارے لئے واضح ہو جائے گا کہ جب بھی علم و عقل کا دامن چھوٹا اور اہل علم و عقل کو خاموش کرا کر اہل جہل کو بولنے کا موقع دیا گیا تو یہ اختلافات وجود میں آئےاور فسادات بڑھے لیکن جب اہل علم و عقل نے کلام کیا تو دین ومذہب اور ملک ملت کو نمایاں ترقی ملی۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد کچھ شیعہ علماء و محدثین فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے بیت الشرف پر حاضر ہوئے۔وہاں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے فرزند جناب عبداللہ سے ملاقات ہوئی۔ سلام و احوال پرسی کے بعد کچھ سوالات پوچھےگئے جنکا وہ صحیح جواب نہ دے سکے تو یہ علماء و محدثین مایوس ہو کر جانے لگے کہ اچانک خادم نے اطلاع دی کہ آپ حضرات تشریف رکھیں حضرت ابوجعفر امام محمد تقی علیہ السلام تشریف لا رہے ہیں۔ یہ سن کر وہ لوگ وہیں بیٹھ گئے۔ جب امام ؑ تشریف لائے تو تمام حاضرین انکے احترام میں کھڑے ہوئے۔ سلام و احوال پرسی کے بعد سب بیٹھ گئے ۔دوبارہ سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ علماء و محدثین سوال کرتے اور امام محمد تقی علیہ السلام جواب دیتے کہ ایک عالم نے عرض کیا کہ مولا: ابھی یہی سوال آپ کے چچا جناب عبداللہ بن موسیٰ ؑسے کیا تو انہوں نے اس کا جواب کچھ اور ہی بتایا۔

یہ سننا تھا کہ امام محمد تقی علیہ السلام نے چچا کو مخاطب کر کے فرمایا: خدا سے ڈریں، تقویٰ اختیار کریں۔ کیوں آپ نے حاضر و ناظر خدا کے سامنے جہل و نادانی سے فتویٰ دیا۔(نگاهى بر زندگى چهارده معصوم نور يازدهم ، تاليف شيخ عباس قمى)

جناب عبداللہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے فرزند، امام علی رضا علیہ السلام کے بھائی اور خود امام محمد تقی علیہ السلام کے چچا تھے اور ایسا بھی نہیں کہ وہ عام لوگوں کی طرح دینی مسائل سے بالکل ہی ناواقف تھے، عبادت گذار بھی تھے کہ پیشانی پر سجدوں کا نشان تھا لیکن ان سب کے باوجود جب ایک مسئلہ میں جواب صحیح نہیں دیا تو امام جواد ؑ نے نہ صرف ٹوکا بلکہ یہ بھی فرما دیا کہ تقویٰ اختیار کریں، نادانی میں فتویٰ نہ دیں کیوں کہ پیش پروردگار اس کا حساب دینا ہوگا۔ ب

ے شک اگر جہالت و نادانی میں کوئی بھی مسئلہ بیان ہو گا تو اصلاح کے بجائے فساد ہی برپا ہوگا۔ جیسا کہ خود امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا: ’’ لَوْ سَکَتَ الْجاهِلُ مَا اخْتَلَفَ النّاسُ‘‘ اگر جاہل خاموش ہو جائیں تو لوگوں میں کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔ (بحارالانوار، ج75، ص81)

ظاہر ہے ’’کلام الامام۔ امام الکلام‘‘ ہے ۔ امام معصوم سے کسی کا مقایسہ ممکن نہیں، کیوں کہ وہ اللہ کے نمایندے اور اسکی مخلوقات پر اسکی حجت ہیں۔ خلق پر انکی اطاعت اسی طرح واجب ہے جس طرح خالق کی اطاعت واجب ہے۔ جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نےفرمایا:’’نَحْنُ أَهْلَ اَلْبَيْتِ لاَ يُقَاسُ بِنَا أَحَدٌ فِينَا نَزَلَ اَلْقُرْآنُ وَ فِينَا مَعْدِنُ اَلرِّسَالَةِ‘‘ ہم اہلبیتؑ کا کسی سے مقایسہ نہیں ہو سکتا ۔ قرآن کریم ہمارے حق میں نازل ہوا اور ہم معدن رسالت ہیں۔ (عیون اخبارالرضا، جلد ۲، صفحہ ۶۶)

امام محمد تقی علیہ السلام کے یہ نوری کلمات تاریخ کے بہت سے واقعات سمجھنے میں مددگار ہیں کہ جہاں بھی اختلاف ہوا وہاں علم و عقل کو پس پشت ڈال کر جہالت کو آگے کیا گیا ۔ یا یوں کہا جائے کہ جب اہل علم و اہل عقل کو خاموش کیا گیا اور جہالت کی وادی ظلمت کے راہیوں کو کلام کا موقع ملا اختلافات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔

بعد وفات رسولؐ جب اہل حق کو خانہ نشین کر کے خاموش کیا گیا اور علم وخرد سے عاری بر سر اقتدار ہوئے تو اس موقع پر بضعۃ المصطفیٰ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: ’’أَمَا وَ اَللَّهِ لَوْ تَرَكُوا اَلْحَقَّ عَلَى أَهْلِهِ وَ اِتَّبَعُوا عِتْرَةَ نَبِيِّهِ لَمَا اِخْتَلَفَ فِي اَللَّهِ اِثْنَانِ‘‘ جان لو کہ خدا کی قسم! اگر حق کو اس کے اہل کے حوالے کر دیتے اور اپنے نبیؐ کے اہلبیتؑ کی پیروی کرتے تو خدا (اور دین) کے سلسلہ میں دو لوگوں میں بھی اختلاف نہ ہوتا۔ (بحارالانوار، جلد ۳۶، صفحہ ۳۵۲)

اسی طرح اگر آج ہم حضرت جوادالائمہ امام محمد تقی علیہ السلام کی حدیث شریف کی روشنی میں سماج میں پھیلے اختلافات پر نظر کریں تو ہمارے لئے واضح ہو جائے گا کہ جب بھی علم و عقل کا دامن چھوٹا اور اہل علم و عقل کو خاموش کرا کر اہل جہل کو بولنے کا موقع دیا گیا تو یہ اختلافات وجود میں آئےاور فسادات بڑھے لیکن جب اہل علم و عقل نے کلام کیا تو دین ومذہب اور ملک ملت کو نمایاں ترقی ملی۔

خدا ہم سب کو اپنی، اپنے رسول اور ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی معرفت عطا فرمائے اور انکی اطاعت کی توفیق کرامت فرمائے۔آمین

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .