۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
مولانا منظور علی نقوی

حوزہ/ کربلا انسانیت کا پیغام دیتی ہے نہ کی ظلم و ستم کا، آب اگر کسی کو حقیقی کربلائی و حقیقی حسینی بننا ہے تو اس کو پہلے اپنے اندر انسانیت کو پیدا کرنا ہوگا کیونکہ وہ انسان اس وقت تک کربلائی نہیں بن سکتا جب تک اس میں سے ظلم کی بو آتی رہے گی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا منظور علی نقوی امروہوی نے اپنے ایک بیان میں ایام عزاء کو انسان سازی کے ایام قرار دیتے ہوئے کہا کہ کربلا انسانیت کا پیغام دیتی ہے نہ کہ ظلم و ستم کا، آب اگر کسی کو حقیقی کربلائی و حقیقی حسینی بننا ہے تو اس کو پہلے اپنے اندر انسانیت پیدا کرنا ہوگا کیونکہ وہ انسان اس وقت تک کربلائی نہیں بن سکتا جب تک اس میں سے ظلم کی بو آتی رہے گی۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ظلم فقط دوسروں پر ہی نہیں بلکہ خود اپنے اوپر ظلم کرنے والا انسانیت کے درجہ پر نہیں پہنچ سکتا. اب چاہے وہ ظلم تکبر کے ذریعے ہو یا نماز کو ترک کرکے ہو یعنی یہ کہ دینا غلط نہ ہوگا کہ کسی بھی طرح کا گناہ کرنے والا ظالم کی فہرست میں اس کا شمار ہوتا ہے کیونکہ یہ ظلم به نفس کہلاتا ہے۔

مزید کہا کہ کیونکہ حقیقی حسینی کی پہچان یہ ہے کہ وہ باکردار، ایماندار، امانت دار، دیانت دار، نمازی، پرہیزگار، غیرتمند، عزت دار، انصاف پسند، پاکیزہ روح، ذمہ دار، جہالت سے دور، بدعتوں سے دور، قرآن و اہل بیت کا تابع ہوتا ہے ان تمام صفات کا حامل جو ہوگا حقیقتا وہی حسینی و کربلایی ہوگا۔

انکا کہنا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کو انسان کی ضرورت ہے اس لیے کہ جب امام مکہ مکرمہ سے کربلا کی طرف حرکت کر رہے تھے تو عبداللہ ابن حر جوفی کے خیمہ میں گئے اور دعوت دی وقعا سوچا جائے کی کتنا بڑا مرحلہ ہے کہ امام وقت کسی کہ خود پاس جائے دعوت کے لیے جب امام عبداللہ حرجوفی کے پاس گئے اور کہا کہ ہم کربلا جا رہے ہیں میں چاہتا ہوں کہ تمہیں بھشت کی طرف دعوت دوں مگر افسوس کیا جواب ملا عبداللہ بن حر جوفی نے کہا مولا سواری چاہیے تو سواری لے جائے مال چاہیے تو مال لے جائے مگر میں کربلا کی طرف جانے کے لیے آمادہ نہیں ہوں اللَّہ اکبر امام خود دعوت دے سامنے والا قبول نہ کرے اس لیے کہ آمادہ نہیں ہے اب اس مقام پر ہمیں اپنے آپ کو رکھ کر دیکھنا ہوگا کیا ہم اپنے وقت کے امام کے لیے آمادہ ہیں. جس وقت بھی امام ہمیں دعوت دیں تو کیا ہم آمادہ ہیں امام کی ہمراہی کے لیے چون حقیقی حسینی کی ایک صفت سپاہی امام زمانہ علیہ السلام بھی ہے۔

مولانا نے کہا کہ کتنے خط کوفہ کے لوگوں نے لکھے عاشق حسین ہونے کا دعوا کیا مگر امام سے پشت کر لی اور جناب مسلم ابن عقیل کو کوفہ میں تنہا کردیا کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم آج بھی وہ تاریخ نہ پلٹا دیں کہ وقت کے مسلم کو تنہا کر دیں اور دنیا کی چمک دمک ہمیں وقت کے مسلم کی شناخت کرنے میں دشواریاں پیدا نہ کردے. اس لیے کہ جغرافیہ میں کوفہ کسی شھر کا نام ہو مگر تاریخ کربلا میں کوفہ و شام کردار کا نام ہے وہ کہیں بھی پایا جا سکتا ہے. 
وہیں اس سے برعکس ہم جناب حر کی طرف دیکھ سکتے ہیں جو ایک شب پہلے کہاں نظر آرہے تھے لیکن اس شب کے بعد حر اس ایکشب میں نار سے نور کی طرف کا سفر طے کرتے نظر آتے ہیں اور اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ باب الحوائج کا مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے. اور رومال جناب زھراء سلام اللَّهِ حاصل ہوجاتا ہے. اور ایک جملہ جناب حر کا ثبت ہو گیا کہ یہ دنیا کی سب چمک دمک ختم ہوجائے گی اگر کچھ باقی رہے گا تو فقط اور فقط سعادت جو حسین ابن علی کی ھمراہی سے حاصل ہوگی۔

آخر میں کہا کہ پس اگر ہم زبان سے لبیک یا حسین لبیک یا حسین کہ رہے ہوں تو ہمیں عمل سے بھی حسینی ہونا ہوگا ورنہ یقین جانیں فقط زبان سے لبیک کہنا کوئی اثر نہیں رکھتا جب تک انسان کے اعضاء بھی لبیک یا حسین نہ کہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .