حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مظفر نگر، ہمیں آ ج ایسے ہندوستان کی ضرورت ہے جہاں مندروں کی حفاظت کے لیے مسلم سماج کے لوگ آگے آئیں اور مساجد کے تحفظ کے لیے برادران وطن آگے آئیں،ایک ایسا ہندوستان جس میں نام پوچھ کر اور نام دیکھ کرکسی کا کام نہ ہو،ذات برادری کی بنیاد پر کارکردگی نہ دیکھی جائے،سب کو مساوی حقوق ملیں۔ان خیالات کا اظہار جمعیۃ علمائے ہند کے قومی نائب صدر مولانا عبد العلیم فاروقی نے مقامی مسجد حمزہ میں جمعیۃ علماء بڑھانہ کے زیر اہتمام منعقد تحفظ جمہوریت کانفرنس میں کیا۔
انھوں نے کہا ہندوستان کی بنیاد ہی جمہوریت پر ہے،پھر یہ کیوں ہورہا ہے کہ جمہوریت کو بچانے کے لیے دیوانوں کوآگے آنا پڑرہا ہے۔کبھی آپ نے سوچا؟انھوں نے کہا ملک آزاد ہوا تو اسی وقت ایک طبقہ نے کہا ہندوستان اب ہندوراشٹر بنے گا،تبھی ہمارے اکابر مولانا حسین احمد مدنی،رفیع قدوائی،ابو الکلام آزاد اور مہاتماگاندھی اڑگئے کہ نہیں!یہ ملک سیکولر ہوگا،اس کا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔
انھوں نے کہا ملک آزاد ہوا تو ساتھ ہی تقسیم بھی ہوگیا،جو ہماری تباہی کا پہلا دن تھا۔انھوں نے کہا کسی مکان پر چور و ڈکیت حملہ کردیں تو کیا بچہ اور کیا بوڑھا اور کیا جواں ،غرضیکہ سبھی کو گھر کی حفاظت کے لیے آگے آنا پڑتا ہے،ٹھیک اسی طرح آج ملک کی جمہوریت پر شرپسند عناصر حملہ آور ہیں،ہمیں ملک کو بچانا ہے،تو ہندو مسلم اور مسلم دلت اور سکھ سبھی کو آگے آنا ہوگا۔کسی ایک سماج سے یہ کام نہیں ہونے والا ہے۔
مولاناعبد العلیم فاروقی نے کہا جھوٹے ہیں وہ لوگ جو مسلمانوں کی قربانیوں کے منکر ہیں۔انھوں نے کہا ہندوستان میں مسجد ہے،مندر ہے،گرجاگھر ہے اور گُردوارہ ہے تو یہ سب کس کے ہیں ؟ سبھی عبادت گاہیں ہندوستانیوں کی ہیں ،ان میں ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے عقیدہ کے موافق عبادت کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا ملک کا ہر باشندہ ہندوستانی ہے،یہاں ذات پات والا نظام نہیں چلنے والا ہے۔انھوں نے کہا اس ملک کا نظام کچھ اس طرح کا ہے کہ یہاں کسی ایک مثلاً مسلمانوں،یا سکھوں یا دوسرے برادران وطن کو نقصان پہنچے تو باقی سب خیریت سے نہیں رہ سکتے ۔یہ تو اس ملک کے خمیر میں شامل ہے۔
مولاناعبد العلیم فاروقی نے آگے کہا آج جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی پورے ملک میں یہ صدا بلند کرتے پھر رہے ہیں کہ ہم ملک کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے ،اگر کوئی ایسا کرے گا تو ہم پوری دنیا کو بتائیں گے اور اس کے خلاف قربانی دیں گے۔انھوں نے کہا اسلام مذہب تو برداشت کا ہے،قربانی وایثار کا ہے،نبوی زندگی کاآغاز دیکھو کہ ۱۳ برس تک بدلہ کی بھی اجازت نہیں تھی۔ آپ کو اُس وقت لوگوں نے لہولہان کیا،مگر سب کچھ خاموش طریقہ سے برداشت کیا،کیوں ؟ صرف اس لیے کہ اسلام رحم اور صبر کی تعلیم دیتا ہے۔