۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
کیا امام حسین (ع) کے قاتلین شیعہ تھے؟

حوزہ/ جو شیعہ تھے وہ امام حسین علیہ السلام کی اطاعت کو واجب سمجھتے تھے اور امام سے جنگ کرنے کو حرام سمجھتے تھے اس قسم کا حقیقی شیعہ تاریخ میں نہیں ملتا کہ وہ ابن زیاد کے سپاہ میں شامل ہوا ہو۔ لیکن ناچاری کی وجہ سے فرزند رسول کے قتل میں شریک ہو نے سے اپنے آپ کو بچاکر مجبور ہوکر روپوش ہوگئے۔ 

تحریر: مولانا محمد علی انصاری

حوزہ نیوز ایجنسی। اہل تشیع پر وہابیت کی طرف سے کیئے جانے والی اعتراضات اور بے بنیاد الزامات میں سے ایک یہ ہے کہ کہتے ہیں:  شیعوں  نے امام حسین (ع) کو کربلا بلایا اور انہوں نے خود اپنے امام کو شہید کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا امام کو شہید کرنے والے کوفہ سے آئے ہوئے لشکر واقعی سب  شیعہ تھے؟ کربلا میں ابن سعد کے لشکر والے کیا سب شیعہ تھے ؟

یہ ایک اہم شبہ ہے جس کا اظہار وہابیت کی طرف سے محرم میں بار بار مختلف لٹریچر کے ذریعے اھل تشیع پر کیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے بعض شیعوں کی طرف سے بھی کبھی دہرایا جاتا ہے ، وہ یہ ہے: کہتے ہیں کہ شیعوں نے ہی  امام حسین علیہ السلام کو دعوت دی اور انہوں نے خود امام کو عراق بلایا اور شیعوں نے خود امام حسین علیہ السلام کو شھید کیا۔ اب ہم اس مختصر مقالہ میں یہ ثابت کریں گے کہ امام حسین علیہ السلام کو کن لوگوں نے شہید کیا ۔وہابیت جو کہتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کو خود شیعوں نے شہید کیا یہ سوفیصد الزام اور دشمنی کی بات ہے۔ کیونکہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ان کے پاس تاریخ کی کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے جو لوگ کربلا میں موجود تھے اور امام حسین (ع) کے سامنے صف میں کھڑے ہوکر  امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کے لئے آئے تھے، وہ یا شام سے آئے تھے  یا کوفہ کے آس پاس سے یا ایسے کوفی تھے جو حضرت امام علی علیہ السلام کی خلافت بلافصل، امامت اور ولایت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے۔ لیکن دوسری طرف کوفہ میں بہت سے شیعہ جیل میں تھے اور ان میں سے کچھ اپنی جان کے خوف سے امام کی مدد پر نہیں گئے اور گھر میں رہے ، لیکن انہوں نے کبھی امام کے سامنے اپنی تلواریں نہیں کھینچیں۔ اس بات  کی واضح ثبوت قیام توابین ہے چھار ھزار کوفہ کے توابین جیل سے رہا ہوتے ہی مروانیوں اور طاغوتیوں کے خلاف ان سے جنگ لڑی اور دشمنان آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قلع قمع کرکے اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے جبران کرنے کی کوشش کی۔ ان کا گناہ یہ تھا کہ امام حسین علیہ السلام جب کربلا میں نرغہ اعداء میں گرفتار تھے لیکن یہ لوگ ابن زیاد کے زندان میں بند تھے اس لئے امام کی نصرت نھیں کرسکے ۔

کیا کوفہ کی آبادی کی اکثریت شیعہ تھی؟
اسلامی معتبر کتب تواریخ کے مطابق ، کوفہ میں آبادی کے لحاظ سے شیعوں کی اکثریت نھیں تھی ، بلکہ اکثر لوگ ایسے تھے جو اہل بیت کی امامت اور خلافت کو قبول نہیں کرتے تھے۔ اس بیان کی تصدیق یہ ہے کہ  بیان کیا جاتا ہے کہ جب حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اپنی  خلافت کے دوران  کوفہ آئے اور تراویح کی نماز پر پابندی لگانا چاہتے تھے  جو دوسرے خلیفہ حضرت عمر کی بدعات میں سے ایک تھی ، تو لوگوں نے احتجاج بلندکیا اور شور مچایا واعمراہ، واعمراہ! " کا نعرہ لگا کر حضرت کو تراویح منع کرنے کی اجازت نہیں دی ،اس حالت کو دیکھ کر امام نے فرمایا:" تم لوگ جس طرح چاہیں دعا کریں۔ " لہذا ، وہ لوگ جو بار بار امام علی علیہ السلام کے ساتھ بے وفائی کر چکے ہیں اورانہوں نے امام علیہ السلام کے حکم کی نافرمانی کی اور جنگ صفین میں امام کی شکست کا سبب بنی۔ یہ  لوگ ایسے مسلمان تھے کہ حضرت امام علی علیہ السلام کی امامت وخلافت بلافصل کے اصلا معتقد نہیں تھے صرف بعنوان خلیفہ وقت آپ کی بیعت کی تھی ۔جب حضرت امام حسین علیہ السلام کربلا میں تھے اس وقت  ابن زیاد نے 12000 شیعوں کو زندان میں قید کیا۔ البتہ کوفہ میں بہت اچھے شیعہ بھی رہتے تھے جنہوں نے دل و جان سے امام کی امامت اور ولایت کو قبول کیا اور اس کی مدد کے لیے تیار تھے۔ اور انہوں نے امام  حسین کو تنہا نہیں چھوڑا۔ بہت سے شیعہ ابن زیاد کے جیل میں تھے ، بڑے بڑے لوگ جیسے مختار، سلیمان ابن صرد، مسیب بن نجبہ ، رفاعہ ابن شداد اور ابراہیم ابن مالک اشتر، ابن زیاد نے ان سب زندان میں بند کردیاتھا ۔ بعض تاریخی ذرائع نے ابن زیاد کے  جیل میں بارہ ہزار شیعہ قیدیوں کا ذکر بھی کیا ہے۔

باقی کوفیوں کو اپنی جان کی خاطر ابن زیاد کی فوج میں مجبوری طورپر شامل ہونا پڑا۔ جب امام کربلا میں داخل ہوا تو ابن زیاد نے کوفہ کے تمام لوگوں کو کوفہ (نخیلہ) کے کیمپ میں شرکت کرنے  پر مجبور کیا اور کہا ، "اب سے ، اگر ہمیں کوئی ایسا مل جائے جس نے ہماری فوج میں شمولیت سے انکار کیا ہو تو اس کا خون مباح ہے۔" ابن زیاد نے سوید بن عبدالرحمٰن کو حکم دیا کہ وہ گھوڑوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ شہر میں گھومیں اور دیکھیں کہ کسی نے سپاہ کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں ۔ سوید کو شہر میں ایک شامی شخص ملا جو اپنے میراث لے جانے کو آیاتھا تو اس کو ابن زیاد  کے پاس لے گیا ، ابن زیاد نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا ، کہا جاتا ہے کہ کوفہ میں کوئی بالغ نہیں رہا کیونکہ سب نخیلہ گئے تھے اور کچھ چھپ گئے تھے۔ اسی طرح جو کربلا کی طرف  جاتے تھے  شیعہ ہونے کی صورت میں  دشمن کی فوج سے بچ کر الگ ہو جاتے تھے ۔ یہاں تک کہ جب کوفہ کے لوگوں کو نخیلہ میں شرکت پر مجبور کیا گیا ، تب بھی وہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ ​​میں نہیں گئے اور کہیں نہ کہیں  پہ مخفی ہوجاتے تھے۔۔ بلاذری کا کہنا ہے کہ "ابن زیاد نے کربلا کی طرف بھیجی گئی ایک ہزار مضبوط فوج میں سے 300 یا 400 سے زیادہ کربلا نہیں پہنچے اور باقی درمیان میں بھاگ گئے"۔ ابن قتیبہ کہتے ہیں: "جب ابن زیاد نے کسی بڑے لشکر کو لڑنے کے لیے بھیجا ، جب وہ کربلا پہنچے ، سوائے ایک گروہ کےتھوڑا بچا تھا۔ "انہیں حسین کے ساتھ جنگ ​​ناگوار گزری ، اس لیے وہ واپس آئے اور ٹھہر گئے۔" بہت ممکن ہے کہ بہت کم شیعہ عمر سعد کی فوج میں موجود تھے وہ بھی نام کے شیعہ تھے حقیقی شیعہ نہیں تھے ۔ ابن مرجانہ کی فوج کی ناصبی ہونے کی تاریخی شواہد میں وہ بری اور قبیح الفاظ وتعابیر موجود ہیں جو انہوں نے امام حسین (ع) کے خلاف استعمال کیں۔ امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں نے اس دن امام کو مخاطب کرکے کہا: ہم آپ کے والد علی ابن ابی طالب سے نفرت اور دشمنی کی وجہ سے آپ کے ساتھ جنگ ​​میں آئے ہیں۔ یا یہ کہ کچھ اور کافر فوجوں نے امام سے کہا: اے جھوٹا،  كذاب ابن كذاب ۔"  ( نعوذ بالله )  کونسا شیعہ ہے کہ جو امام حسین علیہ السلام کو کذاب خطاب کرکے گستاخی  کرے۔ تاریخی شواہد کے مطابق کوفہ کے باشندوں کی اکثریت وہ تھی جو آئمہ (ع) کو بالکل نہیں مانتی تھی اور کبھی ان کی امامت کو قبول نہیں کرتی تھی۔ اس لیے جنہوں نے کربلا میں شرکت کی اور ابا عبداللہ الحسین (ع) کو شہید کیا وہ ہرگز  شیعہ نہیں تھے جو یہ اعتقاد رکھتے تھے  کہ وہ امام ہیں اور اطاعت واجب ہے ، جو شیعہ تھے وہ امام حسین علیہ السلام کی اطاعت کو واجب سمجھتے تھے اور امام سے جنگ کرنے کو حرام سمجھتے تھے اس قسم کا حقیقی شیعہ تاریخ میں نہیں ملتا کہ وہ ابن زیاد کے سپاہ میں شامل ہوا ہو۔ لیکن ناچاری کی وجہ سے فرزند رسول کے قتل میں شریک ہو نے سے اپنے آپ کو بچاکر مجبور ہوکر روپوش ہوگئے۔ 

نتیجہ:  وہابیت کی طرف سے شیعوں پر یہ الزام تاریخ کا بہت بڑا جھوٹ ہے اس ادعا کے لئے انکے پاس کوئی ثبوت نہیں سوائے الزام اور جھوٹ کے علاوہ۔ بات طولانی ہونے سے بچنے کے لیے اسی پر اکتفا کرتے ہیں

مآخذ: تاریخ یعقوبی، ناسخ التاریخ، تاریخ اسلام، انساب الاشراف وغیره

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .