حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام حسین علیہ السلام کا عظیم قیام تاریخ اسلام میں ایک ایسا درخشاں باب ہے جس نے دین اسلام کو گمراہی اور انحرافات کے گرداب سے نکالنے کے لیے ہمیشہ کے لیے ایک لافانی راستہ متعین کیا۔ اسی حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے حجت الاسلام والمسلمین حمیدرضا مطہری نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کا مقصد امتِ جد کی اصلاح قرار دیا تاکہ وہ سیرت نبوی کو دوبارہ زندہ کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک امامت اور جانشینی کی راہ واضح کر دی تھی لیکن ان کی وفات کے بعد سیاسی، سماجی اور ثقافتی انحرافات نے اسلامی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس حد تک کہ اموی خاندان، جو اسلام کے بدترین دشمنوں میں شمار ہوتا تھا، خلافت پر قابض ہو گیا۔ اسی انحراف نے امام حسین علیہ السلام کو قیام کے لیے مجبور کیا تاکہ دینِ جد امجد کو بچایا جا سکے۔
اس محقق تاریخ اسلام نے بیان کیا کہ واقعہ کربلا اس وقت رونما ہوا جب اہل کوفہ نے امام حسین علیہ السلام کو خطوط لکھ کر دعوت دی لیکن عملی طور پر مسلم بن عقیل اور بعد میں امام مظلوم علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دیا۔ اگر اہل کوفہ بروقت اقدام کرتے تو شاید تاریخ کا رخ بدل جاتا اور یہ المناک واقعہ پیش نہ آتا۔
انہوں نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور امام سجاد علیہ السلام کے کردار کو بھی قیام عاشورا کی کامیابی میں کلیدی قرار دیا اور فرمایا کہ ان بزرگواروں نے یزید کے دربار میں خطبات کے ذریعے جاہلیت اور ظلم کی چادر چاک کی اور مظلوم کربلا کی آواز کو رہتی دنیا تک پہنچا دیا۔
حجت الاسلام و المسلمین مطہری نے مزید کہا کہ جهادِ تبیین آج کے دور میں بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے زمانے میں تھا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور امام سجاد علیہ السلام نے بصیرت، شجاعت اور حکمت سے امت کو بیدار کیا اور دین اسلام کی اصل تعلیمات کو زندہ کیا۔ یہی درس آج کی نسلوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔
آپ کا تبصرہ