۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
واقعه کربلا

حوزہ / تاریخ عالم کے صفحات پر اَن گنت واقعات تحریر ہوئے لیکن واقعہ کربلا اپنی منفرد شناخت کے باعث ہمیشہ انسانی ذہن میں تازہ رہتاہے۔ اس کا یہ جاویدانی کردار انسانی حیات کے ہر گوشہ میں کار فرما ہے۔

تحریر: عظمت علی (قم المقدسہ، ایران)

حوزہ نیوز ایجنسی | تاریخ عالم کے صفحات پر اَن گنت واقعات تحریر ہوئے لیکن واقعہ کربلا اپنی منفرد شناخت کے باعث ہمیشہ انسانی ذہن میں تازہ رہتاہے۔ اس کا یہ جاویدانی کردار انسانی حیات کے ہر گوشہ میں کارفرماہے۔کربلا میں دوآفاقی نظریات،حق و باطل کی تاریخ ملتی ہے۔ہمیں کربلا میں ہوئی جنگ کو عالمی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

امام حسین علیہ السلام کو ہم عالمی رہنما اور نجات دہندہ مانتے ہیں اور یزید کو کائنات کا غلیظ ترین انسان۔ہمارا مانناہے کہ امام نے نانا کے دین اسلام اور انسانیت کی خاطر قربانی دی اور آپ نے ہر مقام پر انسانیت کا خیال رکھا،فساد ،خونریزی اور قتل سے خود کو الگ رکھاجیسا کہ مدینہ سے نکلتے وقت محمد ابن حنفیہ سے فرمایا کہ "میں ظلم وفسادکے لیے نہیں بلکہ نانا کے دین کی اصلاح کے لیے قیام کررہا ہوں" یعنی امام حسین علیہ السلام نے حکومت یزید کے خلاف جنگ نہیں چھیڑی تھی بلکہ آپ نے امن عالم و انسانیت کی بقا کے لیے قیام کیا تھا …!

اگر ہم تاریخ کا تجزیاتی مطالعہ کریں تو ہمارے سامنے بہت سی باتیں واضح ہوجائیں گی۔جس وقت یزید حاکم وقت بنا،اس نے پوری مملکت سے بیعت لینا شروع کردیا۔ مدینہ میں بھی فرمان گیا کہ تمام لوگوں سے بیعت لے لی جائے۔’اس نے مدینہ کے گورنر ’ولید بن عتبہ بن ابوسفیان‘ کے نام ایک خط ارسال کرکے معاویہ کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک مختصرتحریر میں ولیدکو’حسین بن علی، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر‘ سے بیعت لینے، زبردستی بیعت لینے اور بیعت نہ کرنے کی صورت میں سر قلم کرنے کاحکم دیا۔‘ (مقتل الحسین، ابو مخنف الاردی،ص: ۳؍اور۱۸۰،الفتوح، ابن اعثم کوفی،ج : ۵، ص؍۹۔۱۰ )

عوام نے یزید کی موافقت کی مگر اہل بیت علیہم السلام نے صاف لفظوںمیں انکار کردیا۔ امام حسین علیہ السلام کو دربار میں طلب کیا گیا۔آپ نے انکار بیعت کیا اور مدینہ کو الوداع کہہ دیا۔اما م نے اہل بیت علیہم السلام کے ہمراہ مکمل امن و سکون سے شہر مدینہ کو خیر آباد کہہ دیا۔ آپ نے امن و سکون کو برقراررکھا،اپنی جان بچائی،لہوکی کسی تحریک کاآغاز نہیں کیا۔ہاںمگر حکومت کے ارادے میں خون آشامی کی چالیں ضرور شامل تھیں۔

امام اپنے خانوادہ کے ہمراہ مکہ تشریف لاتے ہیں۔ وہاں بھی حکومتی ہرکارے اپنی خفیہ چالیں چلنے لگے۔ امام کے قتل کا منصوبہ بنایا جانے لگا۔آپ نے لوگوں کو یزید کے برے ارادوں سے آگاہ کیا۔ اُدھر کوفہ کے خطوط،مثبت حالات کا عندیہ دے رہے تھے۔امام نے غور وفکر کیا۔ جناب مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ بناکر بھیج دیا۔ پھرجناب مسلم کے مثبت خط نے امام کو بھی بلالیامگر کوفہ پہنچنے تک حالات یکسر تبدیل ہوچکے تھے۔امام نے یہاں بھی کسی خونی انقلاب سے پرہیز کیا اور مسلم بن عقیل کے خون کا انتقام لیے بغیر راہ مستقیم پر رواں رہے۔

آپ امن کے پیغمبر ہیں۔پرامن طریقہ سے راہ کی مسافت طے کررہے ہیں۔ درمیان راہ میں لشکر حر ناکہ بندی کردیتاہے۔ امام نے یہاں بھی انسانیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیااور انسان دوستی کی بہترین مثال قائم کردی۔ آپ نے لشکر حر کے لیے شدید تشنگی میں سبیل آب فراہم کیا۔ جانوروں کی مکمل پیاس بجھائی گئی۔پورے سفر میں کہیں جذبہ انتقام کی بات نہیں،صراط مستقیم رواں دواں ہے۔

امام حسین علیہ السلام دو محرم کو کربلا کے میدان میں آگئے ہیں۔ ساتھ ہی حر کا لشکر بھی ہے۔ آپ نے زمین کربلا پر قیام سے پہلے اسے خریداکیوں کہ آپ کو علم تھا کہ یہیں شہیدہوناہے، یہیں حرم ہوگا۔ اس لیے کسی اور کی زمین پر کیوں …؟ چاروں سمت سے یزیدی لشکر آرہا ہے۔ آپ پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ خیام حسینی منتقل کردیئے گئے مگر آپ مسلسل صبر سے کام لے رہے ہیں۔ سبیل آب پر پہرا بٹھایا گیاپھر بھی امام لشکر اعداء سے یہی خطاب کرتے کہ جنگ سے ہاتھ کھینچ لو۔ اگر تمہار ا کوئی دین نہیں ہے اور تمہارے دلوں میں خوف آخرت بھی نہیں ہے تو کم از کم دنیا میں تو آزاد رہو۔

پسر سعد سے کہاکہ کیوں دنیاوی لالچ میں اندھے ہوئے جارہے ہو۔ تمہیں شہر’ری‘ کی حکومت کا ایک گیہوں(دانا)تک نصیب نہیں ہونے والا۔ امام نے ایک دن کی مہلت مانگی کہ شایدیہ ہوش کے ناخن لے لیں مگر دنیاوی حرص نے ان کی آنکھوں سے بصیرت چھین لی تھی۔

شب عاشور امام نے تمام لوگوں کو جمع کیا اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا:تم میں سے جوجانا چاہتا ہے، اسے آزادی حاصل ہے۔ جنت کی ضمانت میں لیتا ہوں۔امام کے ساتھ چنندہ لوگ تھے اور اسلحے بھی نہیں، اگر امام کو لہوتحریک پر عمل در آمد کرنا ہوتا تو پھر لشکر کو جانے کی اجازت اور جنت کی ضمانت معنی ندارد!امام کا یہی عمل ثابت کرتا ہے کہ آپ نے امن و انسانیت کی مہم اور نانا کے دین کی اصلا ح کے لیے مدینہ کو الوداع کیا تھا۔ حر جوکل تک امام حسین علیہ السلام کادشمن تھا، شب عاشور جنت و جہنم کے مابین سرگرداں ہے۔ ایک بار’مہاجر بن اوس‘نے پوچھ ہی لیا کہ کیا سوچ رہے ہیں،بہت پریشان دِکھ رہے ہیں؟چہرے پر پژمردگی کے آثار نمایاں ہیں۔ حر نے جواب دیا کہ جنگ طے ہے، جنت و جہنم کافیصلہ ہے، سعادت و شقاوت کا فیصلہ ہے اور یہ ایک فیصلہ ساری زندگی میں انقلاب برپاکرنے والا ہے۔ اب حر کی بصیرت بیدار ہوگئی۔ آنکھوں پر پٹی باندھی۔ در حسین پر جبہ سائی کی۔ حسین کیا میری خطا معاف ہوسکتی ہے…؟ امام نے جواب دیا:کیوں نہیں …!

اب حر دنیا وی لذت سے آزاد ہوگئے۔ انہیں رونق دنیا گھٹاٹوپ اندھیرا نظر آنے لگی۔ بصیرت کی نگاہ سے دیکھا تو جنت کا فیصلہ کیا۔ امام نے حرسے کسی انتقامی کارروائی کی گفتگو نہیں کی بلکہ آپ نے انہیںعزت و کرامت بخشی۔ امام جب اپنے باوفا اصحاب سے جدا ہوگئے اوراپنے اعزاء واقارب کی جدائی بھی برداشت کرلی۔ اب بھی امام کا کلیجہ ہے کہ آپ نے جنگ بندی کی پیش کش کی۔ کربلا کے میدان میں امام، آخری وقت تک جنگ بندی کی کوششیںکرتے مگر لشکر یزیدقتل و غارت گری پر مصر تھا۔

دور حاضر میں امام حسین علیہ السلام کے انقلاب کے بغیر امن عالم اور ظلم سے آزادی کا تصورممکن نہیں۔ کربلا سے جس نے کچھ سیکھا، اس نے دنیا کو بہت کچھ سکھایا۔ مہاتماگاندھی، نیلسن منڈیلااور آیۃ اللہ خمینی کے انقلاب میں روح کربلا رواں تھی۔ خونریزی کے بغیر جنگ فتح کرنا ہو تو کربلا کے علاوہ کوئی انتخاب نہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کے ہر قدم پر صلح و مصالحت کی بات کی،کشت وکشتار سے کا کہیں کوئی ذکرنہیں۔

چندبے سروسامان ساتھیوں کے ساتھ حکومت وقت سے کون جنگ کرتا ہے…؟

کیالوگوںکی کثرت سے کنارہ کشی کرنے والا حکومت قائم کرسکتا ہے؟

بغیر اسلحہ اور اہل خانہ کے ہمراہ جنگ کے لیے کون نکلتا ہے؟

یہ سوالات منھ بولتے ثبوت ہیں کہ امام حسین علیہ السلام جنگ کے مخالف اور امن کے پیغمبر ہیں۔

کربلا؛ لہو کی تحریک یا انسانیت کی مہم …؟

تبصرہ ارسال

You are replying to: .