۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا سید عمار حیدر زیدی

حوزہ/ کربلا صرف ایک المیے، ایک حادثے، ایک واقعے یا دُکھ بھری شہادتوں ہی کی داستان نہیں، بلکہ ایک پوری تحریک ہے۔الہٰی تحریک، جو اپنے اندر عالمِ انسانیت کے لیے الہٰی اطاعت کا حتمی کلیہ سموئے ہوئے ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید عمار حیدر زیدی مقیم قم المقدس نے اربعین حسینی کی مناسبت سے کہا کہ ہلال محرم ہر سال نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام، ان کے اصحاب و یاوران کی الم و غم اور شجاعت و حریت سے بھرپور داستان لے کر طلوع ہوتا ہے، دنیا بھر میں امت مسلمہ اس ماہ، جو آغاز سال نو بھی ہے کا آغاز الم و غم اور دکھ بھرے انداز میں کرتی ہے، اس کی بنیادی ترین وجہ اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لاڈلے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب و انصار و یاوران کی عظیم قربانی جو 10 محرم الحرام 61 ہجری کو میدان کربلا میں دی گئی، کی یاد کو زندہ کرنا ہے۔ میدان کربلا میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کے باوفا اصحاب نے جو قربانیاں پیش کیں ہمارے لئے اسو ہ حسنہ ہیں، کربلا کے شہداء کی داستان شجاعت سے ہمیں درس حریت و آزادی ملتا ہے۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ عام طورپر واقعہ کربلا ایک غم انگیز مصیبت ہی کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جس پر ہمارا کام آنسو بہانا اور اظہار رنج و ملال کر دینا ہے اور بس… حالانکہ یہ ایک فطری تقاضا انسانیت ہے جس کو بہرحال ہونا ہی چاہئے۔ امام حسین علیہ السلام کا بلند نصب العین ہم سے کچھ اور بھی چاہتا ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنی زندگیوں کو حسینی سیرت کے ڈھانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے رہیں۔

مزید کہا کہ اگر امام حسینؑ نہ ہوتے تو دین شریعت کی اصلی صورت ہی رخصت ہو جاتی۔ بادشاہوں کی سیرت سنت الیہہ بنتی اور ان کی تقلید و اطاعت معیار سمجھی جاتی۔ یہ امت اسلامیہ کی حقیقت میں ہلاکت ہوتی۔ درحقیقت یہ حق و صداقت، آزادی و حریت، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، صبر و استقلال، عزم و ثبات، خودداری و شرافت، امن پسندی و رواداری، ظاف بیانی و انسانی ہمدردی، مساوات و مواسات، ایثار و حسن معاشرت کی عظیم قربانی تھی جو صرف اس لئے پیش کی گئی تاکہ پیروان اسلام کیلئے ایک اسوہ حسنہ قرار پائے۔ موجودہ زمانے میں اگر قومی حالت پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ایک بہت بڑی کمزوری ہے کہ قومیت کا صحیح احساس نہیں اور رواداری کے جذبات فنا ہو گئے ہیں۔ یہ افتراق و اختلاف، یہ باہمی روزمرہ کی لڑائیوں کا ہی نتیجہ ہیں؟ صرف رواداری نہ ہونے یا ایثار کا جذبہ ختم ہونے کا نتیجہ ہیں۔ یہ خودغرضی اور مطلب پروری وہ ہے جس سے افراد امت کے درمیان محبت کے جذبات کمزور اور قومیت کا شیرازہ روزبروز ابتر ہوتا جا رہا ہے۔ قوم میں جوش عمل باقی نہیں رہا۔ اس کا نتیجہ اجتماعی اور انفرادی تعطل اور رواداری کا نہ ہونا ہے۔ ہمارے اپنے اندر جوش عمل نہیں اس لئے ہم اپنی بھی ترقی و بہبودی کا کوئی سامان نہیں کر سکتے ہیں۔ صدق دل سے اگر ہمیں امام حسین علیہ السلام سے عقیدت ہے تو ان کے نقش قدم پر چلنا فرض ہے۔ سود و زیان کا حساب لگانا بیکار ہے۔ جان رہے یا نہ رہے ، ثروت و حشمت حصہ میں آئیں یا نہ آئیں، حق پر فدا ہونا اور باطل کا فنا کرنا یہی پہلا اور آخری زینہ امام حسین علیہ السلام کا مذہب ہے۔ اگر امام حسین علیہ السلام ایسا نہ کرتے تو ہر شخص دولت، طاقت اور وسائل نہ ہونے کے خیال سے اپنے آپ کو کمزور سمجھ کر باطل پرست بن جاتا اور اس کی بیعت کر لیتا۔اگر امام حسین علیہ السلام کی طرح زندہ جاوید ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے خیالات و احساسات سے اپنی حرکات و سکنات سے حق کا اعتراف کرنا چاہئے۔

آخر کلام یہ کہ کربلا صرف ایک المیے، ایک حادثے، ایک واقعے یا دُکھ بھری شہادتوں ہی کی داستان نہیں، بلکہ ایک پوری تحریک ہے۔الہٰی تحریک، جو اپنے اندر عالمِ انسانیت کے لیے الہٰی اطاعت کا حتمی کلیہ سموئے ہوئے ہے۔کربلا ایک میدانِ کارزار ہی نہیں، بلکہ ایک عظیم درس گاہ بھی ہے،جہاں سے حریّتِ فکر و عمل کا درس ملتا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .