بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا.
خدا چاہتا ہے کہ تمہارے لئے تخفیف کا سامان کردے اور انسان تو کمزور ہی پیدا کیا گیا ہے۔ النِّسَآء (۲۸)
موضوع:
اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانی زندگی کے بوجھ کو ہلکا کرنے کا بیان اور انسان کی فطری کمزوری کا ذکر۔
پس منظر:
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں کو زندگی کے مختلف احکام اور آزمائشوں کا سامنا تھا۔ ان کے اندر موجود فطری کمزوریوں کے باعث بعض اوقات احکام پر عمل کرنا مشکل محسوس ہوتا تھا۔ اللہ نے ان آیات میں اپنی رحمت اور شفقت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات واضح کی کہ وہ انسانوں کے لیے آسانی چاہتا ہے اور ان کے لیے دین کو بوجھ نہیں بنانا چاہتا۔
تفسیر رہنما:
1. اللہ کا ارادہ تخفیف:
اللہ تعالیٰ اس آیت میں اپنے بندوں کو بتا رہا ہے کہ وہ ان پر بوجھ ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ ان کے لیے آسانی اور راحت کا خواہاں ہے۔
2. انسان کی فطری کمزوری:
اللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ انسان اپنی فطرت میں کمزور ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں کو پہچانے اور اللہ کی طرف رجوع کرے۔
3. شریعت کی آسانی:
اسلام میں شریعت کے احکام انسانی طاقت اور سہولت کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے ہیں، تاکہ انسان ان پر بآسانی عمل کر سکے۔
اہم نکات:
• اللہ کی رحمت اور آسانی:
اللہ انسانوں کے لیے آسانی چاہتا ہے اور ان کے لیے دین میں کسی بھی قسم کا غیر ضروری بوجھ نہیں رکھنا چاہتا۔
• انسان کی کمزوری:
یہ بات تسلیم کی گئی کہ انسان فطرتاً کمزور ہے اور وہ بعض اوقات اپنی خواہشات اور دنیاوی مسائل کی وجہ سے دین کے احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے میں مشکلات کا سامنا کر سکتا ہے۔
• اللہ کی طرف رجوع:
انسان کو اپنی کمزوری کے ادراک کے بعد اللہ کی رحمت اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی زندگی میں کامیاب ہو سکے۔
نتیجہ:
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر بے پناہ مہربانی اور شفقت رکھتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ بندے کے لیے دین کا راستہ آسان ہو۔ چونکہ انسان فطری طور پر کمزور ہے، اس لیے اللہ نے شریعت میں ایسی تخفیف رکھی ہے جو ان کی فطرت کے مطابق ہو۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راہنما، سورہ النساء