حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ، لبنانی سنی عالم دین اور جمعیت قولنا والعمل کے سربراہ ، شیخ احمد القطان نے کہا ہے کہ مزاحمتی اور مقاومتی ثقافت ،حسینی انقلاب اور عاشورائی فکر کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی مزاحمت و مقاومت ایک عالمی طاقت کی حیثیت اختیار کرچکی ہے جس نے لبنان اور فلسطین میں استکبار جہاں کے خلاف زبردست فتوحات حاصل کیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مکتب حسینی ابھی زندہ و باقی ہے اور ہمیشہ کے لئے زندہ رہے گا۔
شیخ القطان نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ انقلاب حسینی ایک ایسے وقت میں برپا ہوا جب اسلامی معاشرہ جاہل اقدار کی راہ پر گامزن ہو رہا تھا اور اسلامی اقدار سے دوری اختیار کر رہا تھا، مزید کہا کہ تحریک کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا ایک واضح پیغام تھا اور وہ یہ تھا کہ حق و سچائی کے ساتھ کھڑے ہوکر ظلم کا مقابلہ کیا جائے۔
اہل سنت بھی اہل تشیع کی طرح امام حسین علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں اور ان سے بے حد محبت کرتے ہیں
لبنانی سنی عالم دین نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حق اور باطل کی راہ کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے ، حق کا راستہ مومنین کا راستہ، امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کا راستہ ہے جنہوں نے اپنے خون سے امام حسین علیہ السلام کی مدد کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام صرف شیعوں کے نہیں ہیں بلکہ اہل سنت بھی اہل تشیع کی طرح امام حسین علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں اور ان سے بے حد محبت کرتے ہیں۔
سنی منبروں نے امام حسین علیہ السلام سے متعلق اپنے فرائض پورے نہیں کیے
جمعیت قولنا والعمل کے سربراہ نے کہا کہ سنی منبروں نے امام حسین علیہ السلام سے متعلق اپنے فرائض پورے نہیں کیے ہیں اور یہ عقیدے کی وجہ سے نہیں ، بلکہ سیاست کے تناظر میں ہے۔
امام حسین علیہ السلام کا اہل سنت اور علمائے اہل سنت کے نزدیک ایک عظیم مقام ہے
آخر میں ، شیخ احمد القطان نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام سنیوں اور اس کے علمائے کرام کے نزدیک ایک بہت بڑا مقام رکھتے ہیں ، اہل سنت شیعوں کی طرح محرم کے مہینے میں امام (ع) کی شہادت پر غمزدہ ہیں۔ اہل سنت اپنے بچوں کو یہ بھی سکھاتے ہیں کہ امام حسین (ع) ایک ابدی حقیقت ہے اور یہ کہ امام علیہ السلام نے معاشرے کی اصلاح کے لئے قیام کیا تھا اور حکومت کرنا نہیں چاہتے تھے ، بلکہ اچھائی کا حکم اور برائی سے روکنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔