۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ عزاداریٔ امام حسین علیہ السلام رسم نہیں رزم ہے اور ظلم و ناانصافی کےخلاف  ایک معرکہ  اور پیکار ہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کی معروف دینی اور سماجی شخصیت حجت الاسلام تقی عباس رضوی نے استقبال محرم الحرام کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ محرم تہوار نہیں رنج و غم درد و الم اور آہ و فغاں کا ایک خاص مہینہ ہے جس میں محبان رسولؐ، اپنے پیارے نبیؐ کے پیارے نواسہ کی عظیم قربانی کی یاد میں مجالس وماتم کا اہتمام کرتے ہیں جسے عزاداری کہا جاتا ہے اور یہ عزاداری حقیقت میں سیرت رسول ؐ کی تأسی و پیروی ہے ۔شہدائے کربلاؑ اور امام حسینؑ کے ذکر و مجالس سے ہرسال اسلام کے جسم میں ایک تازہ روح پھونکی جاتی ہے جس سے اس کے اندر استحکام پیدا ہوتا ہے۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ مجالس و ماتم درحقیقت رسول ؐ و آل رسول علیہم السلام سے محبت کا اظہار ہے جسے قرآن مجید نے ان کےلیے فرض قراردیاہے:«قل لا اسئلکم علیه اجراً الا المودۃ فی القربی » (شورا آیه ۲۳)
مَنْ أَرَادَ اللَّهُ بِهِ الْخَيْرَ قَذَفَ فِي قَلْبِهِ حُبَّ الْحُسَيْنِ ع وَ حُبَّ زِيَارَتِهِ وَ مَنْ أَرَادَ اللَّهُ بِهِ السُّوءَ قَذَفَ فِي قَلْبِهِ بُغْضَ الْحُسَيْنِ وَ بُغْضَ زِيَارَتِهِ ...
صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے دل میں امام حسین علیہ السلام کی محبت اور آپ کی زیارت کا اشتیاق ڈال دیتا ہے اور جس کے لئے بدی کا ارادہ کرتا ہے اس کے دل میں امام کا بعض اور آپ کی زیارت سے نفرت پیدا کردیتا ہے ۔ اب ہمیں اپنی خوبی قسمت پر ناز کرنا چاہئے کہ ہم حسین ابن علی ؑکے محب و عزادار ہیں اور یہ پروردگار کا ایک لطف و کرم ہے ۔

مولانا تقی عباس رضوی نے کہا کہ زمانے بَھر کا دستور ہے کہ لوگ تَحائف کی قدر کرتے ہیں، بِالخصوص جب تحفہ کسی بڑی شخصیت سے ملے تو اُسے سنبھال کر رکھا جاتا اور اپنی قسمت پر ناز کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ تحفوں کی قدر نہیں کرتے یا تحفہ دینے والے کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو ایسے لوگ مُعاشرے میں اچّھی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے! میں جس تحفے کی طرف توجّہ دلانا چاہتا ہوں وہ مخلوق کا نہیں بلکہ خالقِ کائنات رب الحسین علیہ السلام کا دیا ہوا ہے جو محبوب دوعالم (ص) کے ذریعے ہمیں عطا فرمایا گیا ہے ، اس تحفے کو آقائے دوجہاں (ص) نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اور ،پنے دل کی راحت اور اپنا چین و سکون قرار دیتے ہوئے حسین ابن علی سے محبت کو ہر مسلمان پر فرض بتایا اور ان کی محبت کو اپنی محبت اور اپنے ربِّ کریم کی رِضا، خوشنودی اور قُرب پانے کا بہترین ذریعہ قرار دیا ہے ۔
بہر کیف بقولِ شاعر :
غم جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش
وہ ان کے درد محبت سے ساز باز کرے

مزید اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السلام کی مجالس و ماتم در واقع ان مصیبتوں کا اظہار اور اہل بیت نبوتؑ سے تعذیت ،محبت اور ہمدردی ہے جو میدان کربلا میں بے پناہ مصیبتوں کا شکار ہوئے اور ان پر ناقابل تصورمصیبتیں ڈھائی گئی ہیں...اورہم جس دین و شریعت اور پیغمبرؐ کے ماننے والے ہیں ان کے نقطۂ نظر سےٹوٹے اورزخمی دلوں پر مرہم رکھنے کا عمل بڑے اجرو ثواب کا باعث ہے...

انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ محرم کے مہینہ میں یہ مجالس و ماتم اور گریہ و بکا نبی کریم (ص) اورآپؐ کی آل ِاطہارؑسے محبت و تعلق کے زبانی دعوؤں کی نسبت اپنائیت اور ایک مضبوط تعلق کا اظہار ہے اور یہ ضروری بھی ہے اس لئے کہ ایک کلمہ گوعاشقِ رسول ؐ غمِ حسین علیہ السلام کے بغیرادھورا اور پھیکا سا محسوس ہوتا ہے۔

آخر میں انہوں نے یہ بات زور دیتے ہوئے کہا کہ اے کاش! امت مسلمہ کی ہر فرد میں اس حقیقت کا شعور ہوتا اورسارے مسلمان مل کر اپنےپیارے نبیؐ کے پیارے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کی مدح و ثنا اور آپؑ کا غم مناتے... اوردس محرم روز عاشورہ تاجدارنبوت ؐ کوتعذیت و تسلیت پیش کرتےاورسب مل کر ”یوم بقائے دین اسلام“ مناتے ...!اور دنیا کو یہ پیغام دیتے کہ ذکر حسین علیہ السلام اور سیرت حسین ہی موجودہ دور میں بقائے باہم کا درخشندہ اصول، دین اسلام کے تحفظ اور اس کی اشاعت کا بہترین ذریعہ ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .