۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
حسینی برہمن خاتون

حوزہ/ میدانِ کربلا میں سید الشہداء حضرت امام حسینؑ اور ان کے جانثار ساتھیوں کی شہادت کو تقریباً 1400 برس گزر گئے، لیکن شہدائے کربلا کا ذکر آج بھی نہ صرف پوری دنیا میں احترام وعقیدت کے ساتھ زندہ ہے بلکہ دنیا کے بیشتر مذاہب کے پیروکار حضرت امام حسینؑ کی شہادت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ان سے محبت کرنے والے نہ صرف مذہب اسلام کے ماننے والے ہیں بلکہ ہندو مذہب کے ماننے والے بھی امام حسینؓ سے بے انتہا الفت و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ کے چوک علاقے سے تعلق رکھنے والی جانشین بیگم اختر سنیتا جھنگرن و ان کا گھرانہ حضرت امام حسین علیہ السلام سے انتہائی درجے کی محبت کا اظہار کرتا آیا ہے۔ گھرانے کے افراد ماہ محرم کی ابتداء سے ہی نوحہ خوانی و ذکر و اذکار ماتم اور مرثیہ کا اہتمام کرتے ہیں اور وہ خود کو حسینی برہمن قبیلہ سے بتاتی ہیں جس کی تاریخ میں اختلاف ہے، لیکن سنیتا جھنگرن کہتی ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی دعا کے صدقے ایک خاندان کو 7 بچے ہوئے تھے جو بعد میں ایک پورا قبیلہ بن گیا۔ سنیتا جھنگرن کے مطابق امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لیے ہندو فوج بھی یزید سے لڑنے گئی تھی وہیں سے اس قبیلے کی ابتداء ہوئی جو ہجرت کرکے بھارت کی متعدد ریاستوں مثلاً کشمیر، راجستھان، پنجاب و اترپریش میں آباد ہیں۔

سنیتا نہ صرف اپنے گھر میں ہی سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی یاد میں ماتم و علم کا اہتمام کرتی ہیں بلکہ ریاست و بیرون ریاست میں مجلس و نوحہ خوانی کے لیے مدعو بھی کی جاتی ہیں۔

سنیتا بتاتی ہیں ہم اگرچہ ہندو عقیدے کے ماننے والے ہیں لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام سے انتہائی درجے کی محبت کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایام محرم کی ابتدا سے ہی ہم لوگ حضرت امام حسین کا ذکر کرتے ہیں و نوحہ و گریہ و زاری بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے والد، والدہ، بیٹے، بھائی اور بہن بھی حضرت امام حسین علیہ السلام سے بے حد محبت کرتی تھیں اور ان کی یاد میں نوحہ ومرثیہ کی محفل مجلس بھی منعقد کیا کرتی تھیں۔ انہیں سے متاثر ہوکر حضرت امام حسینؓ سے ہم بھی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .