۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا سید منظور علی نقوی

حوزہ/ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری و سوگواری کسی زمان اور مکان کی محتاج نہیں ہے، یہ امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت ہی کا اثر تھا کہ خود ظالم کے عشرت کدہ میں صف ماتم بچھائی اور وہ خود خاموش دیکھتا رہا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے علاقے امروہا کے بے باک مبلغ حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید منظور علی نقوی نے عزاداری سید شہدا کے تعلق سے ایک جائزہ لیتے ہوئے بیان کیا کہ ہر سال ماہ محرم شروع ہوتے ہی مخالفین عزاداری غلط پروپگنڈہ کر کے مذہبی، سماجی اور ملکی فضا کو مکدر کرتے دکھلائی دینے لگتے ہیں کہ مظلوم کربلا کی تعزیہ داری خلاف مذہب ہے. عزا امام حسین علیہ السلام کے مسئلہ میں با استثنائے مبغضین اہل بیت کبھی بھی شیعہ اور سنی کے درمیان اختلافات نہیں رہے۔ جب تک علماء احناف صوفیائے کرام کا زور رہا تعزیہ داری کو برابر ترقی ہوتی رہی اور کسی نے اس کی مخالفت میں قلم اور زبان کو حرکت نہ دی لیکن مسلمانوں کی بد قسمتی جب سے وہابیت کے لباس میں اہل بیت سے بغض اور نفاق چھپا رہا اور غیر مقلدوں نے سر اٹھایا، اس وقت سے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی مخالفت شروع ہوئی، پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان میں تعزیہ داری کب سے شروع ہوئی؟

انہوں نے کہا کہ یہ زمانہ کا کیسا انقلاب تھا کہ امام حسین علیہ السلام کے نانا کا کلمہ پڑھنے والے مسلمان حسین علیہ السلام کی شھادت اور خاندان نبوت کی تباہی اور بربادی پر جشن منا منا کر تکبیریں بلند کر رہے تھے۔

آجر وہ کیسے مسلمان تھے جنہوں نے قتل حسین علیہ السلام کے لیے منتیں مانی تھیں اور شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد اپنی منتوں کو پورا کر رہے تھے اور اس فعل کو اپنی قوم اور قبیلہ کے لیے باعث صد افتخار سمجھتے تھے۔

مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ علامہ ابن حدید شرح نھج البلاغہ میں اور علامہ محمد ابن عقیل المصر النصائح الکافیہ میں ابن کلینی سے روایت کرتے ہیں کہ عبد اللہ ابن ہانی الاودی نے حجاز ابن یوسف سے اپنے مفاخرت کے ضمن میں کہا تھا کہ اے حجاج ہم میں وہ فضائل ہیں کہ تمام عرب میں ایسا صاحب شرف کوئی قبیلہ نہ ہو گا، اے حجاج آگاہ ہو وہ ہماری عورتیں ہیں جنہوں نے نذر کی تھی کہ اگر حسین ابن علی قتل کر دیئے جائیں تو ہر ایک عورت بہتر قسم کا اونٹ قربان کرے گی. جب مراد پوری ہوئی اور حسین علیہ السلام قتل ہو گئے تو منت پوری کی گئی۔

افسوس اس طرف تو مسرت اور شادمانی کا اظھار کیا جا رہا تھا لیکن ستم رسیدوں کو یہ بھی اجازت نہ تھی کہ وہ فریاد بھی کر سکيں. اہل بیت امام مظلوم اور شیعان حیدر کرار کو زبان بند رکھنے کا حکم تھا تزکرہ شھدا کی سخت ممانعت تھی. تین دن کے بھوکے پیاسے شہیدوں کی یاد میں مجلس غم برپا کرنے کی اجازت نہ تھی، لیکن یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے کہ جزبات غم روکے نہیں روکتے با وجود شدت کے اہل بیت رسول اکرم ان مصائب کا تذکرہ فرماتے جو ان کو ظالموں کے ہاتھوں پہوچنے تھے۔

جود مدینہ رسول میں جس وقت قتل حسین علیہ السلام اور اولاد حسین کی خبر پہنچی تو بنی ہاشم نے نہایت بے چینی سے صف ماتم بچھائی اور حاکم مدینہ عمروابن سعد اموی نے جب نوحہ اور ماتم کی آواز سنی تو جوش مسرت میں ہسنے لگا۔

امام حسین علیہ السلام کی عزاداری و سوگواری کسی زمان اور مکان کی محتاج نہیں ہے، یہ امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت ہی کا اثر تھا کہ خود ظالم کے عشرت کدہ میں صف ماتم بچھائی اور وہ خود خاموش دیکھتا رہا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .