۲۱ آذر ۱۴۰۳ |۹ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 11, 2024
آیۃ اللہ بشیر نجفی

حوزہ/تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی مصیبت کو مجالس، جلوس، تعزیہ داری اور ماتم وغیر ہ وغیرہ سے زندہ و باقی رکھیں یہ شعائر خدا ہیں اور واجبات شرعی ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق،مرجع مسلمین و جہان تشیع فقیہ اہل بیت عصمت و طہارت حضرت آیت اللہ العظمیٰ الحاج حافظ بشیر حسین نجفی (دام ظلہ الوارف) کا کورونا جیسی وباء کے ایام میں عزاداری و مجالس حضرت امام حسین علیہ السلام کے لئے مؤمنین کرام کےنام خصوصی و ضروری پیغام۔

 پیغام کا مکمل متن درج ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله الذی نزل الفرقان علی عبده لیکون للعالمین نذیرا والصلاة والسلام علی سید الکونین محمد بن عبد الله الذی ارسله بشیرا و نذیرا لهدایة العالمین و علی آله الطاهرین و اللعنة علی شانیئهم اجمعین الی یوم الدین
قال اللہ سبحانه: وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ چیزیں کہ جن سے انسان کو خدا کی طرف اور خدا کے دین کی طرف ہدایت ہوتی ہے، اس کو شعائر اللہ کہا جاتا ہے اور جو ایسی شعائر اللہ کی تعظیم کرتا ہے اور ان کو اہمیت دیتا ہے تو یہ اس کے متقی ہونے کی علامت ہے۔
اسی لئے خدا وند عالم نے صفا و مروہ کی پہاڑیوں کو شعائر اللہ کہا ہے ۔ (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّهِ)
اس کے اعتبار سے مجالس حضرت امام حسین علیہ السلام اور امام بارگاہوں کا بنانا اور ان کو مجالس حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذریعے آباد رکھنا اسی طرح ہے کہ جس طرح مساجد کو عبادات کے ذریعے آباد رکھنا ہے اور یہ سب شعائر اللہ ہیں کیونکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا جہاد اور امامؑ کی قربانی سے دین کو تقویت ملی بلکہ دین انؑ کی قربانی کی وجہ سے باقی رہا اور تا قیامت باقی رہے گا  اس لئے حضرت امام حسین علیہ السلام کی مصیبت کو یاد رکھنا اور یاد کرنا ہر مباح طریقے سے اس کو شعائر اللہ کہنا درست ہے۔
لہٰذا تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی مصیبت کو مجالس، جلوس، تعزیہ داری اور ماتم وغیر ہ وغیرہ سے زندہ و باقی رکھیں یہ شعائر خدا ہیں اور واجبات شرعی ہیں۔
اس واجب شرعی کو کسی قیمت اور کسی بھی سبب سے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ دشمنانِ اسلام جو اسلام کےلباس میں تھے اور جنہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا اور انؑ کی قبر کو مسمار کیا اور انؑ کی قبر کی طرف نہروں کے پانی کا رخ موڑ دیا۔ یہ سب اس لئے تھا کہ اسلام کو تباہ کر دیں لیکن ہمارے ائمہ اطہار علیہم السلام نے اپنے قول و فعل سے حضرت امام حسین علیہ السلام کی مصیبت کو زندہ رکھا اور زندہ رکھنے کا حکم دیا اور ہمارے آباؤ اجداد نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی مصیبت کو زندہ رکھنے کے لئے اپنی گردنیں  کٹوائیں، ہاتھ پاؤں ہدیہ کئے اور اپنی آنکھیں نکلوائیں  لیکن اس واجب شرعی میں کوئی کوتاہی نہیں کی لہٰذا ہم بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مصیبت کو زندہ رکھیں گے اور مجالس، جلوس اورماتم کو جاری رکھیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس سے نہیں روک سکتی۔
البتہ کرونا کی وباء جو اس دنیا میں خدا کے عذاب کا نمونہ ہے (العیاذ باللہ) اس سے بچنا بھی ضروری ہے اور جن احتیاطی تدابیر پر ماہر ڈاکٹروں کا اتفاق ہو ہم ان احتیاطی تدابیر کو سامنے رکھیں گے اور ان پر عمل کرتے ہوئے مجالس، جلوس، علم، ذوالجناح، تعزیہ اور گہوارہ حضرت علی اصغرعلیہ السلام کی شبیہہ کا اہتمام کریں گے اور سڑکوں اور گلیوں میں نکالیں گے۔
پوری دنیا پر واضح رہے کہ فرشتے حضرت امام  حسین علیہ السلام کی اس قمیص کو جو تیروں،تلواروں اور نیزوں سے چھلنی ہو چکی تھی اس کو پہلی محرم کو نشر کرتے  ہیں جس سے حضرت امام حسین علیہ السلام کے مخلص شیعوں میں غم پیدا ہوتا ہے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ سے جو حضرت علی اصغرعلیہ السلام کا خون آسمان کی طرف پھینکا گیا تھا اس کا اثر ہمارے چھوٹے بچوں، جوانوں اور بوڑھوں سب پر ہے اور رہے گا۔
ہم اس عزاداری کو جاری رکھیں گے جب تک حضرت امام زمانہ (عج) کا ظہور نہیں ہوتا اور جب ظہور ہو گا تو اس کے بعد حضرت امام زمانہ (عج) خود اس عزاداری کی رہبری کریں گے اور ہم دنیا کی ہر مصیبت کو (حسینؑ حسینؑ کرنے کے لئے) جھیلنے کے لئے تیار ہیں اور جیسے دنیا دیکھتی ہے کہ میرے جوان بچے آگ پر ماتم کرتے ہوئے چلتے ہیں اور خدا ان کی حفاظت کرتا ہے۔
خدایا  اما م حسین علیہ السلام کے محبین  پر جو ان کی مصیبت کو زندہ رکھتے ہیں ان پر  رحمت نازل فرما۔ والسلام 
                  بشیر حسین نجفی
                  نجف اشرف، عراق
                  ۱۶ ذوالقعدہ ۱۴۴۱ھ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .