۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
آیت اللہ حافظ بشیر نجفی

حوزہ/نی۱۵شعبان المعظم امام زمانہ (عجل الله فرجه الشريف) کی ولادت با سعادت کی تاریخ ہےپروردگارہمارےاورتمام مؤمنین کےلئے انسانوں اور جناتوں سے انکی حفاظت کرے تاکہ تمام نبیوں ،رسولوں کی امیدیں بَر آئیں اور انکے اجدادائمہ ؑکی شہادتوں اور خصوصا انکی دادی حضرت زہراء علیھا السلام کی شہادت کا انکے ظالموں سے بدلہ لیا جائے،رسول اللہ ؐ کےحقیقی اسلام کو پوری دنیا پرنافذ کر یں.

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ العظمی حافظ بشیر نجفی سے پوچھے گئے سوال کہ جیسا کہ ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ ماہ مبارک شعبان میں اسلامی تاریخ کی عظیم ہستیوں کی ولادت کی تاریخیں ہیں جن میں سید الشھداء حضرت امام حسین علیہ السلام،حضرت عباس علمدارکربلاء علیہ السلام اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام لیکن  اسکےساتھ ساتھ آج پوری دنیا کورونا جیسی مہلک وباءکی گرفتمیں ہےاور اس کی روک تھام اوراحتیاطی تدابیر کے طور پر حکومتی اداروں نے نقل وحرکت سےمنع کیا ہوا ہےنتیجتاً افسوس کے ساتھ ان مبارک تاریخوں میں ہم حرم مبارک میں حاضر نہیں ہوسکتے اورزیارت سے محروم رہینگے۔مذکورہ پس منظر میں آپکی کیا نصیحتیں ہیں؟ خدا آپکا سایہ ہمارے سروں پر قائم ودائم رکھے۔ کے جواب میں کہا کہ بغیر کسی شک و شبہ کے جب ہم ائمہ علیھم السلام کےمقدس مراقد کی زیارت کو جاتے ہیں توہمیں ان سے ہدایت اور تقرب الہی  کے طریقوں کا پتہ چلتا ہے اسلئے مؤمنین کرام کو چاہئے کہ ہر وہ مناسبت کہ جس میں کسی امام ؑ کی ولادت یا شہادت ہو اوراسے توفیق الہی حاصل  ہو تو وہ قبر مبارک کی زیارت کوضرور جائے اورانکے ارشادات وفرامین، سیرت طیبہ، دین کی پابندی اور دین کی خاطرانکی قربانیوں کو یاد کرے اوران سے سبق حاصل کرے  اورجیسا کہ ہمیں معلوم ہےکہ مروی زیارتیں ان نصیحتوں سےپُر ہیں جیسے کہ زیارت مبارکہ کا یہ  جملہ( أشهد أنّك جاهدت في الله حق جهاده وعملت بكتابه واتبعت سنن نبيه صلى الله عليه وآله) اور اسی طرح کے بہت سے جملے ان مروی زیارتوں میں ہیں جو ہمارے لئےنصیحت ہیں۔
مومنین کومعصومین علیھم السلام کی زیارات کو کسی بھی صورت ترک نہیں کرنا چاہئےچاہےاسے حرم میں حاضری کی توفیق نصیب ہوئی ہو یا نہیں اگر کسی سبب حاضرہونےکی توفیق حاصل نہیں ہوتی تو دورسے ہی سہی زیارت کو پڑھے، زیارت کے الفاظ پر غور و فکرکرے اورانکے معانی سےخود کو مستفید کرے اور خود کو ایسا سمجھے  جیسے کہ وہ  حرم مبارک میں انکی خدمت میں حاضر ہے۔
کتنےافسوس کی بات ہے کہ بعض افراد چاہےوہ  قریب  سے یا دور سے زیارت  کرتے  ہیں انکا مقصد صرف اور صرف دنیا و آخرت کی حاجتیں ہوتی ہیں جیسےکہ وہ زیارت اور امام ؑ  کے حضور صرف لینے آتے ہیں بہت کم ہیں ایسےافراد کہ جوخود کو امام ؑ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اوراپنا سب کچھ  امام ؑ کی اطاعت میں پیش کردیتے ہیں اسی وجہ سے بہت کم لوگ ہیں کہ جو زیارتوں سےمکمل فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔ یہ بھی واضح رہےکہ میں معصومین علیھم السلام  سے اعتقادکے ساتھ  حاجتیں طلب کرنے کا قائل ہوں  کہ خدا نےانہیں صاحب اختیار بنایا ہےاورانکے وسیلےاورشفاعت ہماری دعاؤں اورحاجتوں کی قبولیت کی ضمانت ہیں لیکن صرف حاجتوں کے لئے  زیارت کرنا اسکا مطلب یہ ہوا کہ ہم صرف لینے آئے  ہیں،زیارتیں قربۃً الی اللہ ہوں اورخود کو انکی  اطاعت  کےحوالے کردیں پھر جو چاہے  جتنا چاہیں مانگیں ہم ان کے واسطےسے نہیں مانگیں گے تو کہاں جائیں  گے ہماری دنیا و آخرت  کا سہارا ہی محمد و آل محمد علیھم السلام  ہیں۔  
لازمی  ہے کہ زائر جب زیارت کی عبادت کو انجام دے چاہے وہ زیارت  قریب سے ہو یا دور سے وہ اپنی اس زیارت  کے ذریعہ  بیعت کی تجدید کرے اور امام ؑ سےعہد و پیمان اس انداز سےکرے کہ امام ؑ کی اطاعت میں اگراسے اپنی جان بھی دینا پڑی تو وہ جان دینے سے بھی گریزنہیں کرے گا اور پھر وہ اس عہد و پیمان کے بعد امام ؑ کی اطاعت کا پابند ہوگیا پھر اسے چاہئے کہ روزانہ کم از کم ایک مرتبہ اپنے نفس کا محاسبہ  کرتا رہے اور دیکھے کہ زیارت کے بعد اس میں واضح مثبت تبدیلی  ہوئی ہے یا نہیں؟اگر مثبت  تبدیلی ہوئی ہے تو خدا کا شکر بجا لائے اور خود کو مزید بہتر بنائے اور اسکا پابند رہے اوراگر خدا نخواستہ واضح مثبت  تبدیلی نہیں ہوئی اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ  دنیاوی فائدہ ملا ہولیکن اسکے باوجود اسے کچھ حاصل نہیں ہوا اوراسکی ساری زحمتیں  برباد ہو گئیں۔
خدا سےدعا گو ہوں کہ زیارت ائمہ علیھم السلام کی عظیم نعمت کی توفیق تمام مومنین کو ملتی رہے اور اس شرف سے ہم سب مشرف ہوتے رہیں اور ہم ائمہ علیھم السلام کی اطاعت کے پابند رہیں اور امام زمانہ  عج  کی شفاعت  سے فیضیاب ہوتےرہیں۔
ہمیں اس طرف  بھی متوجہ رہنا چاہئے کہ معصومین  و ائمہ علیھم السلام  فضائل و کمالات میں مشترک  ہونے  کےباوجود اللہ  نے بعض اماموں کوحالات  اور زمانے کے حساب سے کچھ الگ خاصیتوں سے نوازا  ہے جیسا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا حق    کے لئے قربان ہو جانا، انکا کرم، انکی سخاوت اور اپنے بہادر مجاہدین کو اپنے عطف و ثنا میں شامل رکھنااسلئےلازمی ہے کہ جب ہم حضرت امام حسین علیہ السلام  کی زیارت  کریں توان فضیلتوں کویاد کریں اوران پر عمل  کریں اور حق کا دامن نہ چھوڑیں چاہے اسکے لئے کتنی ہی مصیبتوں اورپریشانیوں کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے اورحضرت امام حسین علیہ السلام کے

ان نورانی کلمات کویاد رکھیں(والله لا أجيبهم إلى شيء مما يريدون حتى ألقى الله تعالى وأنا مخضب بدمي، خدا کی قسم جو تم چاہتے ہو کسی بھی صورت وہ نہیں کروں گا یہاں تک کہ میں خدا کی بارگاہ میں پہنچ جاؤں اور میری ڈاڑھی میرے خون سے رنگین ہو)، اور جب کوئی امر سخت ہوتا تھا تو فرماتے تھے (هوّن عليّ ما نزل بي أنّه بعين الله) (کیونکہ جومجھ پر نازل ہواہےاللہ کواسکاعلم ہےاور اسکے سامنے ہے میں خدا کی اطاعت میں اس کو سخت نہیں سمجھتا)
اسی طرح حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی شخصیت عبادت،دعا اور تضرع میں خاص مقام رکھتی ہیں اور صحیفہ سجادیہ اس بات پر شاہد ہے، امام ؑ  کی دعائیں انکے ارشادات و فرامین ہمیں ان کی اتباع اور پابندی کی دعوت دیتے ہیں امام ؑ کی دعائیں کہ جو الہام الہی سے بزبان امامؑ صادر ہوئی ہیں وہ ہمیں دینی و مذہبی حقائق سے روشناس کراتی  ہیں توحید سے لیکراصول وفروع تک ان دعاؤں میں موجود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ امام زین العابدین علیہ السلام  اپنی پوری حیات طیبہ میں یہاں تک کہ ہرافعال و اعمال سب میں اپنے باباحضرت امام حسین علیہ السلام کی مصیبت  میں کھوئے رہتے تھے، فقراءو محتاجوں کا خاص خیال رکھتے تھے  یہاں تک کہ  انہیں اپنےافطار پر مقدم کرتے تھےاسلئے اس مظلوم امام ؑ سے ولایت رکھنےوالوں کے لئے  ضروری ہے کہ وہ انکے ارشادات و فرامین کو اپنی زندگی کے لئےاصول بنائے۔  
اسی طرح حضرت عباس علیہ السلام علمدار کربلاء  کی شخصیت تقوی، حضرت امام حسین علیہ السلام کی اطاعت و فرمابرداری بالکل اسی طرح جسطرح انسان  کی انگلیاں اسکے ارادے کی تابع ہوتی ہیں، شجاعت، حق کا دفاع اور اسکو باقی رکھنا، خدا کی ذات پر توکل یہ ساری خصوصیتیں جسےحضرت امام امیر المؤمنین علیہ السلام چاہتےتھےاور اس کو سبب قرار دیاحضرت ام البنین علیھا السلام سے شادی کی، انہیں ساری خصوصیتوں اور جناب ام البنین علیھا السلام کی عظمت و جلالت کو دیکھتے ہوئےخدا نےحرم حضرت عباس علیہ السلام کو تقرب الہی  کا مرکز اور مؤمنین کے لئےحاجتوں کے پوری ہونے کی متبرک جگہ قرار دیا۔
اسی مبارک مہینے کے نصف میں یعنی۱۵شعبان المعظم امام زمانہ (عجل الله فرجه الشريف) کی ولادت با سعادت کی تاریخ ہےپروردگارہمارےاورتمام مؤمنین کےلئے انسانوں اور جناتوں سے انکی حفاظت کرے  تاکہ تمام نبیوں ،رسولوں کی امیدیں بَر آئیں اور انکے اجدادائمہ ؑکی شہادتوں اور خصوصا انکی دادی حضرت زہراء علیھا السلام کی شہادت کا انکے ظالموں سے  بدلہ لیا جائے،رسول اللہ ؐ کےحقیقی اسلام کو پوری دنیا پرنافذ کر یں،
ہمیں انکی محبت و ولایت کے ذریعہ تقرب الہی کے حصول کی کوششیں لازمی کرنا چاہئےساتھ ساتھ ہمیں انکی اطاعت کا خود کو پابند بنانا چاہئے تاکہ وہ ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شامل رکھیں۔
پروردگار انکے ظہور میں جلدی کر ہمیں انکے انصار ومددگار میں اور انکے پرچم تلے قرار دے، پروردگار دنیا انکے ظہور کو دورجبکہ ہم قریب سمجھتے ہیں انکی شفاعت و برکت سے مومنین کو کورونا جیسی وباء سے محفوظ رکھ۔
اللهم عجل لوليك الفرج واجعلنا من أنصاره وأعوانه واللائذين تحت لوائه، إنّهم يرونه بعيدا ونراه قريبا وليدفع عنا هذا البلاء بشفاعته إلى الله(عز وجل)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .