حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق،دو نابینا فلسطینی لڑکیوں نے بصارت سے محرومی کے باوجود قرآن مجید کو حفظ کرلیا ہے۔شمس اور ہنیہ جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس سے تعلق رکھتی ہیں اور زندگی کی دیگر مشکلات کے علاوہ بصارت سے محرومی بھی انکے عزم کو متزلزل نہ کرسکی ہے۔
نابینا حافظات قرآن کے والد حاج سہیل سلیمان ابوشحمہ ہمیشہ محبت اور شفقت سے اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پکڑ کر انہیں زندگی کے مختلف شعبوں میں رہنمائی کے لیے لے جاتے ہیں۔
۲۳ سالہ هنیه ۲۳ جو کلاسوں میں ہمیشہ ۹۰ فیصد مارکس لیتی ہے اس وقت غزہ اسلامی یونیورسٹی میں مصروف ہے جہاں انہوں نے ۸۸,۵ مارکس لیکر بیچلر ڈگری مکمل کرلیا ہے۔
انکا زندگی کے امور کے حوالے سے کہنا تھا، میں نے بچپن سے حفظ کرنا شروع کیا اگرچہ اساتذہ کو مجھ سے تعلق اور پڑھانے میں کافی مشکلات پیش آتی تھیں۔ہنیہ کے والدین نے بھی انکی مدد کی اور قرآن کی تلاوت سن سن کر انکی مدد کرتے اور یوں انہوں نے پانچ پارے مکمل حفظ کرلیا پھر اس کے بعد بریل قرآن انکو دیا گیا۔
ہنیہ نے لگن کے ساتھ مشق کی اور یوں دیگر کورسز کے ساتھ انہوں نے بلا آخر قرآن مجید حفظ کرلیا۔
دوسری طرف انکی ۱۸ سال بہن شمس بھی ان سے کم نہیں ہیں۔ شمس بھی انکی یکساں مشکلات کے باوجود دوره متوسطہ عمومی میں امتیاز ۸۸,۵ فیصد مارکس حاصل کیا اور کلاس دهم میں ہی کل قرآن کو بھی حفظ کیا۔
شمس کا زندگی کی مشکلات بارے کہنا تھا کہ اگرچہ ہمارے گھر میں ۳ افراد بصارت سے محروم ہیں تاہم ہم مقابلہ کررہے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ مشکلات کی وجہ سے وہ اعلی تعلیم حاصل نہ کرسکی کیونکہ انکے گھر میں دو کمرے ہیں جس کے ایک کمرے میں ۴ چار بیٹیاں موجود ہیں جبکہ ایک بیٹا بصارت سے محرومی کے علاوہ گویائی سے بھی محروم ہے۔
شمس نے اعلی حکام کے بارے میں کہا کہ انکے کارناموں کے باوجود حکام نے انکی کوئی مدد نہیں کی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ صیہونی رژیم کے محاصرے کی وجہ سے غزہ میں معاشی مشکلات شدید ہیں اور ستّر فیصد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔