تحریر: شفیعی محمد ہاشم
ترجمہ: مولانا اشہد نقوی
حوزہ نیوز ایجنسی । منجی کے ظہور کی گفتگو اور بحث، تمام الہی ادیان حتی غیر الهی ادیان کا بهی مشترکہ موضوع ہے اور اگر کہیں اختلاف موجود ہے تو وہ فقط مصداق میں اختلاف ہے ۔
عیسائیوں کے عقیدہ کے برخلاف حضرت عیسی ابن مریم (مسیح) علیہ السلام زندہ اور با حیات ہیں، اپ امام زمانہ (عج) کے ظہور کے وقت آسمان پر اتریں گے اور حضرت (عج) کی امامت میں ہونے والی نماز جماعت میں، حضرت (عج) کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے اور اپ (عج) کی امامت میں نماز پڑهیں گے، یہ اقتداء ایک نئی نہضت اور تحریک کا آغاز ہے کہ اس کے نتیجہ میں دنیا کے یہودی اور عیسآئی جوق در جوق حضرت (عج) سے ملحق ہونا شروع ہوجائیں گے۔
بعض ادیان و مذاهب جیسے عیسائی، حضرت عیسی علیہ السلام کو منجی سمجهتے ہیں کیوں کہ وہ معتقد ہیں حضرت عیسی علیہ السلام آخر الزمان میں واپس لوٹ آئیں گے مگر عیسائیوں کی کتابوں میں حضرت عیسی کے حوالے سے جن خصوصیات کا تذکرہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر منجی سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام کے سوا کوئی اور ذات گرامی ہے۔ [۱]
قرآن کریم نے اپنی آیات میں حضرت عیسی علیہ السلام کو ایک ایسے پیغمبر کے عنوان معرفی کیا ہے کہ اپ کی رحلت اور انتقال سے پہلے تمام اہل کتاب اپ پر ایمان لے ائیں گے، «وَ إِنْ مِنْ أَهْلِ الْکِتابِ إِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَ یَوْمَ الْقِیامَةِ یَکُونُ عَلَیْهِمْ شَهیداً ؛[۲] اور (قربِ قیامت نزولِ مسیح علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسٰی (علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحیح طریقے سے) ایمان لے آئے گا، اور قیامت کے دن عیسٰی (علیہ السلام) ان پر گواہ ہوں گے» جبکہ تاریخ شاهد و گواہ ہے کہ اپ کی نبوت کے زمانہ میں بہت سے یہودی اپ پر ایمان نہیں لائے تهے تو یقیناً اس ایت کا مقصود اور زمانہ اور کوئی دور ہونا چاہئے!
دوسری جانب قران کریم کی دیگر آیتیں حضرت عیسی علیہ السلام کے با حیات ہونے کی تاکید اور تائید کرتی ہیں کہ جیسا کہ اس ایت کریمہ میں آیا ہے " «وَ ما قَتَلُوهُ وَ ما صَلَبُوهُ وَ لکِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَ إِنَّ الَّذینَ اخْتَلَفُوا فیهِ لَفی شَکٍّ مِنْهُ ما لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّباعَ الظَّنِّ وَ ما قَتَلُوهُ یَقینا ؛[۳] حالانکہ نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑهایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لئے (کسی کو عیسٰی علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا، اور بیشک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں (حقیقتِ حال کا) کچه بهی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں) اور انہوں نے عیسٰی (علیہ السلام) کو یقیناً قتل نہیں کیا ۔»
مذکورہ دو ایۃ کریمہ سے یہ بات بخوبی روشن و واضح ہے کہ امام زمانہ (عج) کے ظهور کے وقت حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان اتریں گے اور اپ کے اترنے کے بعد دنیا میں دو اہم واقعہ رونما ہوگا:
جاری ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱]. مجله انتظار، ش ۳۴، مقاله «مقایسه گونه شناسی موعود مسیحیت با موعود شیعه»، ص ۱۱۹.
[۲]. سوره نساء، آیه ۱۵۹.
[۳]. سوره نساء، آیه ۱۵۷.