حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مبارکپور،ضلع اعظم گڑھ/ قرآن مجید میں پروردگار عالم ارشاد فرما رہا ہے کہ اے اہل بیتِ پیغمبرؐ اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے(سورہ احزاب آیت۳۳)اس پر تو تمام علماء کا اتفاق ہے اور سنیوں اور شیعوں میں سے کوئی اس کا مخالف نہیں کہ اہل بیت ِ رسول ؐ حضرت علی ؑ ،جناب فاطمہ ؐ، امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ ہیں۔اور اس میں بھی کسی کو کوئی شک نہیں کہ یہ آیت ان ہی بزگوں کی شان میں نازل ہوئی حتیٰ کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہو یا ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا یا صحابی رسول حضرت جابر ابن عبدللہ انصاری کی روایت ہو کسی روایت میں خمسہ نجباء کے علاوہ کسی اور انسان کے داخل کساء ہونے کا ذکر بالکل نہیں ہے۔ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے کساء کے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی تھی مگر رسول اللہ ؐ نے کہا تم خیر پر ہو مگر اس میں داخل ہونے کی اہل نہیں ہو۔جب ام سلمیٰ جیسی بی بی کو کساء میں جگہ نہیں ملی تو پھر کسی اور زوجہ کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
ان خیالات کا اظہار معروف خطیب اہل بیت الحا ج مولانا ڈاکٹر سید کاظم مھدی عروجؔ جونپوری نے ’’ عظمت ِ اہل بیت ؑ ‘‘ کے موضوع پر محلّہ شاہ محمد پور،مبارکپور ضلع اعظم گڑھ (اتر پردیش ) ہندوستان میں جناب ظفر عباس صاحب کی جانب سے ان کی رہائش گاہ پرمرحوم الحاج مبارک حسین ،مرحومہ صابرہ خاتون،مرحوم اختر عباس،مرحومہ افسری بیگم،مرحومہ احمدی بیگم و کل مرحومین مومنین و مومنات کے ایصال ثواب کی غرض سے منعقد مجلس عزا ء کو خطاب کے دوران کیا۔
مولانا نے مزید فرمایا کہ یہ مجالس عزاء جو دو مہینے آٹھ دن صرف ایام عزا ہی میں منعقد نہیں ہوتی ہیں بلکہ سال بھر مختلف و متعدد مواقع پر مسلسل برپا ہوتی رہتی ہیں ان مجلسوں کا فائدہ کیا ہے ؟۔مجالس عزا کا پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ باعث برکت ہیں ان کی وجہ سے برکتیں نازل ہوتی ہیں اور نحوستیں دفع ہوتی ہیں۔دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ایصال ثواب اور ترویح روح کا ذریعہ ہیں ۔تیسرا فائدہ یہ ہے کہ حصول معرفت اہل بیت ؑ کا وسیلہ ہیں۔آج جب کہ پوری دنیا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری شان و شوکت اور نہایت عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے تو بہت سے لوگ ایسے بھی ملتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان میں بھی عزاداری ہوتی تھی،ہمارے باپ باپ دادا کے زمانہ میں ماتمداری ہوتی تھی۔ہمارے گھروں میں بھی پہلے تعزیہ داری ہوتی تھی ۔مگر اب نہیں ہوتی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں صرف عزاداری،ماتمداری،تعزیہ داری ہوتی تھی مگر مجلسیں نہیں ہوتی تھیں وہاں ماتمداری و عزاداری و تعزیہ داری کا سلسلہ بند ہو گیا ۔مگر جہاں مجلسیں بھی ہوتی تھیں وہاں آج بھی سلسلہ عزاداری جاری ہے ۔کیونکہ مجلسوں سے اہل بیت علیہم السلام کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور جب کوئی عمل معرفت کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے تو وہ پائیدار ہوتا ہے۔ آخر میں مولانا نے حضرت سکینہ بنت الحسینؑ کے مصائب بیان کئے جسے سن کر لوگوں کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔
مجلس کا آغاز محمد حسن ،ریاض باقر،صغیر علی ، محمد ریحان و ہمنوا کی سوز خوانی سے ہوا۔ اس موقع پر مولانا ابن حسن املوی واعظ،مولانا کرار حسین اظہری استاد مدرسہ باب العلم ،مولانا حسن محمد،مشتاق خان،ماسٹر فرزند علی خان،حاجی مسلم،حسن رضا نائب سکریٹری مدرسہ باب العلم،حسن محمد منیب جی، محمد قاسم جوادی ،علی کوثر،ظفریاب اکبر،ظرافت عباس،حیدر عباس شاداب،شہاب مبارکپوری وغیرہ سمیت کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔آخر میں جملہ شرکاء کی خدمت میں تبرک تقسیم کیا گیا۔