حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا مصطفی علی خان،صدر ادیب الہندی سوسائٹی لکھنؤ نے کہا کہ جنت البقیع نہ صرف مدینہ منورہ بلکہ عالم اسلام کا وہ قبرستان ہے، جہاں چار معصوم اماموں حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام ، امام زین العابدین علیہ السلام ، امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی قبور مطہر کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا جناب عباس، امیرالمومنین علیہ السلام کی والدہ جناب فاطمہ بنت اسد، حضرت عباس علیہ السلام کی والدہ جناب ام البنین، ازواج رسول، اصحاب رسول دفن ہیں۔ بلکہ زمانہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آج تک جتنے لوگ بھی مدینہ یا اطراف کے وفات پاتے ہیں وہ اسی قبرستان میں دفن ہوتے ہیں۔ اہل سنت کے امام مالک بھی اسی جنت البقیع میں دفن ہیں۔
روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر یہاں تشریف لاتے اور فرماتے کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ جنت البقیع جاوں اور وہاں دفن لوگوں کی مغفرت کی دعا کروں۔ مکہ مکرمہ کے قبرستان حجون کے بعد دنیا کا اگر کوئی قبرستان جس میں مسلمانوں کے دو اہم فرقے شیعہ و اہل سنت کی مقدس ہستیاں دفن ہیں تو وہ جنت البقیع ہے۔ انہدام سے قبل بلا تفریق مذاہب و فرق جو مسلمان مدینہ جاتا وہ یہاں بھی ضرور جاتا تھا، اکثر مزارات پر گنبد و بارگاہ تعمیر تھے۔
لیکن افسوس 8 شوال 1344 کو منحوس و ملعون آل سعود نے بلڈوزر چلا کر جنت البقیع کو ویران کر دیا۔ ابن بطوطہ کا بیان ہے کہ انہدام کے بعد جب میں جنت البقیع پہنچا تو ایسا محسوس ہوا کہ یہاں جیسے بہت زبردست زلزلہ آیا ہو کہ ہر جانب ویرانی ہی ویرانی تھی۔
لیکن کیا واقعا یہاں کوئی زلزلہ آیا تھا؟ ہرگز نہیں! بلکہ آل سعود نے اپنی دیرینہ اسلام دشمنی کے سبب جنت البقیع کو ویران کیا، وہ سوچ رہے تھے کہ اس ویرانی سے مدفون شخصیتوں کے نام مٹا دیں گے، روضوں کو منہدم کر کے ذکر ختم کر دیں گے۔ لیکن ان حمقاء کو نہیں معلوم جس طرح جسم کو ختم کیا جا سکتا ہے روح کو نہیں اسی طرح روضوں کو منہدم کیا جا سکتا ہے عقیدتوں کو نہیں۔ نیک انسان کا جسم اسکی قبر میں دفن ہوتا ہے لیکن اس کا کردار، اخلاق، صفات افلاک پر چھا جاتے ہیں۔
ان عقل کے اندھوں کو شامی حاکم برقوق سے سبق لینا چاہئیے تھا جس نے اپنے درباری مفتی ابن جماعہ کے کہنے پر شہید اول کو قتل کیا، لاش کو سولی پر لٹکایا، سنگسار کرایا اور آخر میں لاش کو جلا کر راکھ کو اڑا دیا، لیکن کیا جسم کے خاتمہ سے شہید اول کا نام اور ذکر ختم ہو گیا؟ نہیں بلکہ جب تک حوزات علمیہ ہیں، شہید کی کتابیں خصوصا لمعہ پڑھی پڑھائی جاتی رہے گی، انکو ختم کرنے والے تاریخ کے قبرستان میں گم ہو گئے لیکن شہید کا نہ نام مٹا اور نہ ہی ذکر ختم ہوا۔ جب کہ شہید اول تو مذہب اہل بیت کے ایک پاسبان اور خادم تھے۔ جب ایک خادم کو دردناک شہادت سے ختم نہیں کیا جا سکا تو وہ جن اولیائے الہی سے محبت کرتے تھے، انکی اطاعت کرتے تھے، انکے مذہب کے پیرو اور پاسبان تھے تو ان کے روضوں کو منہدم کر کے کیسے ختم کیا سکتا ہے؟۔
بہرحال 98 برس سے جنت البقیع ویران ہے لیکن اس سے زیادہ عالم اسلام کی غیرت ویران ہے، دینی حمیت ویران ہے اور جنت البقیع کی ویرانی عالم اسلام کی غیرت و حمیت پر سوالیہ نشان ہے؟؟؟؟
ایسا نہیں ہے کہ جب 1344 ہجری کو یہ جرم انجام پایا تو سب خاموش رہے، نہیں ہرگز نہیں، عالم اسلام نے جب یہ خبر سنی تو ہر جانب بے چینی تھی، ہر جانب آل سعود پر لعنت ہو رہی تھی۔ لیکن دشمن نے سازش رچی اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوا، اس نے اسے شیعوں کا مسئلہ بنا دیا کہ یہاں شیعوں کی مقدس ہستیاں دفن ہیں۔
جس طرح بیت المقدس شیعہ سنی نہیں بلکہ عالم اسلام کا قبلہ اول ہے اسی طرح جنت البقیع میں عالم اسلام کی عظیم مقدس شخصیتوں کے مزارات ہیں۔ ضرورت ہے کہ عالم اسلام ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت میں متحد ہو کر آواز بلند کریں۔ظلم ظلم ہے چاہے جہاں ہو قابل مذمت ہے، ظالم ظالم ہے چاہے جو ہو اس کی مخالفت ضروری ہے، مظلوم مظلوم ہے چاہے جو ہو اس کی حمایت لازم ہے۔
عالم اسلام کو چاہئیے دشمن کی سازشوں سے ہوشیار رہے کیوں کہ فلسطین میں سنیوں پر یا یمن و بحرین میں شیعوں پر ظلم نہیں ہو رہا ہے بلکہ مسلمان پر ظلم ہو رہا ہے، انسان پر ظلم ہو رہا۔ لہذا مظلوم کی حمایت کریں اور ظالم آل یہود و آل سعود سے اظہار برات کریں۔