۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
شهادت امام حسن مجتبی (ع)

حوزہ/ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ، جنہیں امویوں اور دوسرے دشمنوں نے اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور زہر دغا سے شہید کر دیا،اور شہادت کے بعد آپ کے جنازے پر تیروں کی بارش کی گئی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ، جنہیں امویوں اور دوسرے دشمنوں نے اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور زہر دغا سے شہید کر دیا،اور شہادت کے بعد آپ کے جنازے پر تیروں کی بارش کی گئی۔(۱)

یہ دشمن کون تھے اور ان کا مقصد کیا تھا؟ اور انہوں نے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا؟ جب کہ پیغمبرؐ کے نزدک آپ جوانان جنت کے سردار تھے۔

مؤرخین کے مطابق جن لوگوں نے امام حسن علیہ السلام کو ان کی زندگی کے دوران اور ان کی شہادت کے بعد ایذا رسانی میں موثر کردار ادا کیا ان میں سے ایک ابو سفیان کا بیٹا معاویہ ہے۔ اس نے امویوں کے مستقبل کے متعلق امام حسن سے خطرہ محسوس کیا اور آخر کار وہ امام حسنؑ کی بیوی جعدہ بنت اشعث کے ذریعہ امام حسن علیہ السلام کو شہید کرانے میں کامیاب ہو گیا۔(۲)

ایک اور شخص جو کہ امام حسنؑ سے دشمنی رکھتا تھا اور اس نے حضرت کے جنازےکو روضہ رسولؐ کے پاس دفن ہونے سے روکنے میں بھی موثر کردار ادا کیا تھا۔ مروان بن حکم کا بیٹا تھا۔ وہی شخص جس کو پیغمبر اکرم ؐ نے اسے اور اس کے باپ کو ان کے ظلم اور اسلام سے دشمنی کی وجہ سے مدینہ سے نکال دیا تھا، عمر اور ابوبکر نے ان کی جلاوطنی ختم کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن عثمان اپنی خلافت کے دوران انہیں دوبارہ شہر لے آئے اور مروان کو اپنا داماد بنایا۔ مروان کو پیغمبر کے خاندان سے شدید نفرت تھی اور اس نے اہل بیت کو ایذا پہنچانے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بنی امیہ اور ابی سفیان نے اسلام قبول کرنے سے ناگزیر کیا تھا، اور وہ اس وقت اسلام لائے جب اسلام کی حکومت آئی، اور انہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے اسلام قبول کیا، اس لیے انہوں نے کبھی بھی خالصتاً اور ارادے اسلام قبول نہیں کیا۔ اور اسلام پر حملہ کرنے کے کسی بھی موقع سے گریز کرتے تھے۔ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے فرامین اور احکامات کی طرف توجہ نہیں کی۔ امام حسن علیہ السلام کی تدفین کے وقت جب ابو سعید خدری (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے صحابی) نے مروان سے کہا: کیا تم حسن ؑکو ان کے نانا کے پاس دفن کرنے سے روکتے ہو جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وٓٓلہ و سلم نے انہیں امام کہا، نوجوانان جنت کا سردار کہا۔ مروان نے طنزیہ انداز میں کہا: اگر تم جیسے لوگ حدیث نبوی نہ بیان کرتے تو حدیثیں برباد اور فنا ہو جاتیں۔(۳)

روایتوں کو دیکھ کر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مروان اور اس کے لوگ اسلام کے کتنے پابند تھے! اور حتیٰ کہ انہوں نے کوشش کی کہ احادیث اور احکام کا ذکر نہ کیا جائے اور لوگوں کے ذہن سے آحادیث کو ختم کر دیا جائے۔ امویوں نے اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے اسلام کو بطور ڈھال استعمال کیا۔

ایک اور وجہ جو مروان کو امام حسن علیہ السلام کو دفن کرنے سے روکنے کے حوالے سے بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ اس وقت مروان کو مدینہ کی حکومت سے ہٹا دیا گیا تھا، اس لیے وہ معاویہ کے نزدیک اپنے آپ کو ثابت کرنا چاہتا تھا اور اس طرح اپنی وفاداری ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ اور دوبارہ مدینہ کی حکومت کو حاصل کرنا چاہتا تھا، اور اسی وجہ سے امام ؑکو دفن کرنے سے روکنے کے بعد، اس نے معاویہ کو بڑے فخرکے ساتھ اطلاع دی۔(۴)

ایک اور شخصیت جس نے روضہ رسولؐ میں امامؑ کی تدفین کو روکنے میں کردار ادا کیا وہ عائشہ تھیں، جو ابی بکر کی بیٹی اور نبی کی بیوی تھیں، جس نے مروان کے اکسایا (۵) اور امام علی علیہ السلام اور ان کے فرزندوں سے دشمنی کی وجہ سے امام حسنؑ کو روضہ رسولؐ میں دفن ہونے نہیں دیا۔ مروان نے اس فتنہ کے سرغنہ کے طور پر کہا کہ عثمان کو مدینہ سے باہر کیوں دفن کیا گیا ؟ اس لئے ہم امام حسنؑ کو رسول اللہ ؐ کے ساتھ دفن ہونے نہیں دیں گے۔ اس کے بعد خاندان اموی اور بنی عثمان نے اس بات سے اتفاق کیا اور دفن ہونے سے روک دیا۔ عائشہ بھی امام علی علیہ السلام کی اولاد خصوصاً امام حسن علیہ السلام سے کینہ اور شدید بغض رکھتی تھیں۔

عائشہ نے امام حسن علیہ السلام کی تدفین کے وقت کہا: تم کسی ایسے شخص کو اپنے گھر میں لانا چاہتے ہو جسے میں پسند نہیں کرتی۔(۶)جب کہ عائشہ کے حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا تھوڑا سا حصہ تھا اور وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتی تھیں کہ سارا گھر ان کا ہے، ان کو اس سے پہلے کے واقعات کی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام اور ان کی اولاد سے نفرت اور دشمنی تھی۔ اسی وجہ سے دفن نہ ہونے دینے کا یہ بہانہ استعمال کیا۔

امام حسن علیہ السلام کے دفن سے ممانعت کرنے والوں کا ایک اور ہدف یہ تھا کہ خاندانِ رسولؑ کو ان قبر پیغمبرؐ سے دور کر دیا جائے اور ان کی جگہ اپنے رشتہ داروں کو پیغمبر کے پاس دفن کیا جائے ، لیکن وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

حوالہ:

[۱] . قرشی، سید علی اکبر، شخصیت امام مجتبی، چاپ میهن، ۱۳۸۰ هـ ، ص ۳۷۲، نوبت چاپ اول.

[۲] . اصفهانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، ترجمه سید هاشم رسولی محلاتی، تهران، کتابفروشی صدوق، ۱۳۴۹، ص ۶۵.

[۳] . جعفریان، رسول، حیات فکری سیاسی امامان شیعه، قم، انتشارات انصاریان،‌چاپ پنجم، ۸۱، ص۱۶۸.

[۴] . همان، ص۱۶۹، به نقل از انساب الاشراف، ج۳، ص۶۵.

[۵] . مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، مؤسسه وفاء، بیروت، چاپ دوم، ۱۴۰۳ هـ ، ج۴۴، ص۱۵۷.

[۶] . قائمی، علی، در مکتب کریم اهل‌بیت امام حسن مجتبی ـ علیه السلام ـ ، انتشارات امیری، چاپ اول، ۷۴، ص ۴۴۲، و قمی، شیخ عباس، منتهی الآمال، ج۱، انتشارات هجرت چاپ هشتم، ۷۳، قم، ص۴۴۰.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .