حوزہ نیوز ایجنسی। مدینہ منورہ میں ورود کے بعد جناب سیدہ سن بلوغ کو پہنچیں تو قریش کے سرکردہ افراد کی طرف سے خواستگاری کے پیغام آنے لگے۔ ایک صاحب کو اپنی دولت پر بڑا غرور تھا۔ اس نے گرانبہا مہر کی پیش کش کر کے خواستگاری کی مگر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے کچھ لوگوں کے پیغام پر منہ کو پھیر لیا اور صاف جواب دے دیا اور کچھ لوگوں کے جواب پر فرمایا ان امرھا الیٰ ربھآ ان شآء ان یزوجھآ زوجھآ۔ فاطمہؑ کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جہاں چاہے گا نسبت ٹھہرا دے گا۔ جب رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف سے کسی کو ہمت افزا جواب نہ ملا تو بعض صحابہ نے حضرت علیؑ کو مشورہ دیا کہ آپ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ابن عم اور قریب ترین عزیز ہیں۔ آپ کا خون ایک اور خاندان ایک ہے۔ آپ بھی پیغام دیجئے اور خواستگاری کیجئے۔ کوئی وجہ نہیں کہ آپ درخواست کریں اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) انکار کردیں۔ فرمایا کہ مجھے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے عرض کرتے ہوئے حجاب محسوس ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے اصرار کیا تو کہا اچھا کسی مناسب موقع پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے عرض کروں گا۔ چنانچہ ایک دن ضروری کاموں سے فارغ ہوکر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایک گوشہ میں سرجھکا کر بیٹھ گئے۔ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے آپ کو خاموش دیکھا تو سمجھ گئے کہ اس خاموشی کے پردہ میں کوئی عرضداشت چھپی ہوئی ہے۔ فرمایا کہ علی کچھ کہنا چاہتے ہو؟ عرض کیا کہ ہاں۔ فرمایا کہ پھر کہو۔ علی کے چہرے پر شرم کی سرخی دوڑ گئی۔ نگاہوں کو نیچا کر کے دبی زبان میں کہا کہ یا رسولؐ اللہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مجھے بچپن سے پالا پوسا ہے۔ مجھ پر آپ کے احسانات ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہیں۔ اب میں مزید احسان کا امیدوار ہوکر حاضر ہوا ہوں۔ یہ سن کر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چہرہ اقدس پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ فرماایا کچھ دیر توقف کرو میں ابھی آتا ہوں۔ یہ سن کر گھر کے اندر تشریف لے گئے اور فاطمہ زہرا سے کہا کہ بیٹی! علی رشتہ کی درخواست لے کر آئے ہیں تمہاری کیا مرضی ہے؟ فاطمہ سرجھکائے بیٹھی رہیں اور کوئی جواب نہ دیا۔ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا سکوتھا اقرارھا۔ خاموشی اظہارِ رضامندی ہے۔ اور باہر تشریف لاکر علیؑ سے بشاش چہرہ مبارک کے ساتھ فرمایا کہ ہاں ایسا ہی ہوگا۔ اب تم زرِ مہر کا سروسامان کرو۔ حضرت علیؑ نے کہا کہ یا رسول اللہ میرے پاس زرہ، تلوار اور ایک اونٹ ہے۔ فرمایا کہ تلوار اور اونٹ رہنے دو۔ زرہ زائد ہے۔ اسے فروخت کرڈالو۔ آپ نے وہ زرہ حضرت عثمان کے ہاتھ چار سو اسی درہم میں فروخت کردی اور اس رقم کو بطور مہر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپ نے ان درہموں میں سے کچھ درہم حضرت ابوبکر کو دیئے اور عمار یاسر اور چند صحابہ کو ان کے ہمراہ کردیا تاکہ وہ گھر گرہستی کا سامان خرید لائیں اور کچھ درہم بلال ہو دیئے اور فرمایا کہ اس رقم سے خوشبو کا سامان عطروغالیہ خرید لاؤ۔
دو ہجری ماہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ کو مسجدِ نبوی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں محفلِ عقد آراستہ ہوئی۔ صحابہ نے شرکت فرمائی۔ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خطبہ دیا۔ فصاحت کی کلیاں چٹکیں۔ بلاغت کے پھول کھلے اور طرفین سے ایجاب و قبول ہوا اور یہ مبارک تقریب انتہائی سادگی کے ساتھ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دعائے خیر و برکت پر ختم ہوئی۔ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دعوتِ ولیمہ کے سلسلہ میں گوشت اور روٹیوں کا سروسامان کیا اور علیؑ نے روغن اور کھجوریں مہیا کیں۔ دعوت کا اعلانِ عام تھا۔ سب مہاجر و انصار شریک ہوئے۔ زن و مرد نے شکم سیر ہوکر کھایا۔ اللہ نے اس کھانے میں ایسی برکت دی کہ سب نے سیر ہوکر کھایا، پھر بھی کھانا بچ رہا۔ اس بچے ہوئے کھانے میں سے ایک طبق علیؑ و فاطمہؑ کے لئے مخصوص کردیا گیا اور ایک ایک خوان ازواجِ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے گھروں میں تقسیم کے لئے بھیجا گیا۔
جب دن نے اپنا دامن سمیٹا، رات نے اپنے سیاہ پردے آویزاں کئے، عقد پروین نے جبین فلک پر افشاں چنی اور مشاطہ فطرت نے عروس سپہر کو ستاروں سے آراستہ کیا تو پیغمبرؐ اکرم نے جناب فاطمہؑ کو اپنی خچر شہباء پر سوار کیا۔ تکبیر کی آوازوں سے فضائے مدینہ گونج اٹھی۔ ہر طرف سے خیر و برکت کی صدائیں بلند ہوئیں۔ تحمید و تقدیس کے نغمے در و دیوار سے ٹکرائے۔ انصار و مہاجرین کی عورتیں رجز پڑھتی ہوئی ساتھ ساتھ، سلمان فارسی باگ پکڑے ہوئے آگے بڑھے۔ پیغمبرؐ اکرم اور تمام بنی ہاشم تلواریں علم کئے پیچھے پیچھے۔ اس شان و شکوہ سے یہ جلوس روانہ ہوا اور مسجد نبویؐ کا طواف کرنے کے بعد منزلِ مقصود پر پہنچا۔ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر علیؑ کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا بارک اللہ لک نی ابنۃ رسولؐ اللہ۔ علی تمہیں دخترِ رسولؐ مبارک ہو۔ پھر پانی کا ایک پیالہ طلب کیا اور اس میں سے ایک گھونٹ منہ میں لے کر اسی میں انڈیل دیا اور علیؑ و فاطمہؑ کے سروسینہ پر چھڑکا اور فرمایا:۔ اللٰھم بارک فیھما وبارک علیھما وبارک فی تسلھما۔ (اصابہ۔ ج4۔ ص 366) بارِ الٰہا ان دونوں کو برکت دے۔ ان دونوں پر برکت نازل کر اور ان کی نسل و اولاد میں بھی برکت دے۔
اس تقریب پر تبرک کے بعد جب علیؑ و فاطمہؑ کے ہاں آئے تو پھر ان کے حق میں خیر و برکت کی دعا کی اور یادگارِ خدیجہؑ کو اپنے گھر میں بستے آباد ہوتے دیکھ کر خوش خوش واپس ہوئے۔
یہ رشتہ ازدواج اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ ایک طرف اس سے نسلِ رسولؐ کا سلسلہ قائم رہا اور دوسری طرف ان دشمنانِ دین کی روسیاہی کا سامان ہوا جنہوں نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ابتر (بے اولاد) کا خطاب دے رکھا تھا۔ اگرچہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نرینہ اولاد زندہ نہ رہی مگر حسنؑ و حسینؑ فرزندانِ دختر ہونے کے اعتبار سے ابناء رسولؐ قرار پائے اور انہی دونوں سے آپ کی نسل پھولی پھلی، دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلی اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نسبت سے ذریت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کہلائی۔ چنانچہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا ارشاد ہے:۔ ان اللہ عزوجل جعل ذریۃ کل نبی فی صلبہ وان اللہ تعالیٰ جعل ذریتی فی صلب علیؑ ابن ابی طالب۔
(صواعق محرقہ۔ ص 154) خداوند عالم نے ہر نبی کی ذریت کو اس کے صلب میں قرار دیا اور میری ذریت کو علیؑ ابن ابی طالب کے صلب میں قرار دیا ہے۔
اولاد صلبی ہو یا دختری دونوں اولاد کا درجہ رکھتی ہیں۔ اولادِ دختری کو اولاد نہ سمجھنا زمانہ جاہلیت کے غلط نظریات کی پیداوار ہے۔ اس دور میں بعض افراد اس کو برداشت ہی نہ کرسکتے تھے کہ وہ اپنی لڑکیوں کا ازدواجی رشتہ قائم کر کے انہیں دوسروں کی کنیزی میں دے دیں۔ یہاں تک کہ بعض قبائل میں لڑکیوں کو زندہ دفن کردینا عزت کا معیار قرار پاچکا تھا۔ اور جن قبائل میں لڑکیاں ہلاکت سے بچ کر بیاہی جاتی تھیں ان کی اولاد کو اولاد ہی نہ سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ عرب کا ایک شاعر عرب ذہنیت کی نمائندگی کرتے ہوئے کہتا ہے:
بنونا بنوا بنائنا وبنا تنا بنوھن ابناء الرجال الاباعد ہمارے بیٹوں کے بیٹے ہمارے بیٹے ہیں۔ رہے ہماری لڑکیوں کے بیٹے تو وہ اجنبی لوگوں کے فرزند ہیں۔
پیغمبرؐ اسلام نے فرزندانِ دختری کو فرزند قرار دے کر دورِ جاہلیت کی غلط ذہنیت پر کاری ضرب لگائی اور اس حقیقت کو عملاً نمایاں کیا کہ جس طرح پسر کی اولاد اولاد ہوتی ہے اسی طرح دختر کی اولاد بھی اولاد ہے اور نسبت مادری بھی اعتبار کے اسی درجہ پر ہے جس درجہ پر نسبت پدری۔ چنانچہ پیغمبرؐ اکرم جب بھی فرزندانِ زہراءؑ کا ذکر کرتے ہیں تو انہیں بیٹا کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ اور حسنین علیہما السلام بھی انہیں باپ کہہ کر خطاب کرتے۔ اور امیر المومنین کو باپ کےبجائے یا ابا الحسن کہہ کر پکارتے۔ البتہ وفاتِ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد انہیں باپ کہہ کر پکارنا شروع کیا اور امیر المومنینؑ بھی انہیں اولادِ فاطمہ ہونے کی بناء پر فرزندانِ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سمجھتے تھے۔ چنانچہ جنگ صفین میں جب امام حسن علیہ السلام قتال کے لیے آگے بڑھے تو آپ نے فرمایا:۔ املکوا اعنی ھٰذا الغلام لایھدنی فانی انفس بھذین علی الموت لئلا ینقطع بھما نسل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہوسلم) ۔
(نہج البلاغہ ) میری طرف سے اس جوان کو روک لو اس کی موت مجھے خستہ و بے حال نہ کردے کیونکہ میں ان دونوں نوجوانوں (حسن و حسین) کو موت کے منہ میں دینے سے بخل کرتا ہوں کہ کہیں ان کے مرنے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نسل قطع نہ ہوجائے۔
ایک مرتبہ ابوالجارود نے امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے امام حسنؑ و امام حسینؑ کے فرزندانِ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہونے پر آیہ مباہلہ ابناء ناوابناء کم سے ثبوت پیش کیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ دختر کی اولاد اولاد تو ہوتی ہے مگر صلبی اولاد نہیں ہوتی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں حرام عورتوں کے سلسلہ میں فرمایا ہے:۔ وحلائل ابناء کم الذین من اصلابکم۔ اور تمہارے صلبی لڑکوں کی بیویاں ( تم پر حرام کی گئیں)
تم ان معترضین سے دریافت کرو کہ کیا پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے حسنین علیہما السلام کی بیویوں سے نکاح جائز تھا؟ اگر وہ کہیں کہ جائز تھا تو یہ صریحاً غلط ہے۔ اور اگر یہ کہین کہ جائز نہیں تھا تو وجہ حرمت اس کے سوا کیا ہے کہ وہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی صلبی اولاد کی ازواج تھیں جنہیں اللہ نے اس آیت میں حرام ٹھہرایا ہے۔
ابن بابویہ قمی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے کہ جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہارون رشید کے ہاں طلب کئے گئے تو اس نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ تم اولادِ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کہلاتے ہو حالانکہ تم اولادِ علی ہو۔ اور سلسلہ نسب باپ سے چلتا ہے نہ ماں سے۔ حضرت نے فرمایا کہ اگر رسولؐ اکرم دوبارہ دنیا میں تشریف فرما ہوں اور تم سے رشتہ طلب کریں تو کیا تم اسے قبول کرو گے؟ کہا سر آنکھوں پر۔ یہ رشتہ ہمارے لیے عرب و عجم میں باعث صد افتخار ہوگا۔ یہ سن کر حضرت نے فرمایا:۔ لکنہ لایخطب الی ولا ازواجہ لانہ ولد نی ولم یلدک ۔ (عیون الاخبار) لیکن وہ ہم سے رشتہ طلب نہیں کرسکتے اور نہ ہم انہیں رشتہ دے سکتے ہیں کیونکہ ہم ان کی اولاد ہیں اور تم ان کی اولاد نہیں ہو۔
News ID: 370350
12 جولائی 2021 - 16:57
- پرنٹ
حوزہ/ یہ رشتہ ازدواج اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ ایک طرف اس سے نسلِ رسولؐ کا سلسلہ قائم رہا اور دوسری طرف ان دشمنانِ دین کی روسیاہی کا سامان ہوا جنہوں نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ابتر (بے اولاد) کا خطاب دے رکھا تھا۔