رہبر معظم کی تقاریر سے اقتباس
حوزہ نیوز ایجنسی। تسلط پسند ممالک تو مسلسل روز افزوں رفتار کے ساتھ روز افزوں پیشرفت حاصل کرتے رہے، ان کی پیشرفت کی رفتار مسلسل بڑھتی رہی جبکہ تسلط کا شکار ممالک جمود میں اور پسماندگی میں مبتلا رہے۔ یہاں بہت اہم نکتہ مضمر ہے۔ یہ تصور نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ تسلط کے شکار ممالک یعنی ایشائی ممالک یا افریقی ممالک یا لاطینی امریکہ کے بعض ممالک جو تسلط پسندی کے شکار تھے وہ شروع ہی سے علم و ثقافت اور تہذیب و تمدن سے بے بہرہ تھے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔
آپ ذرا ایک نظر ڈالئے (جواہر لعل) نہرو کی کتاب Glimpses of World History پر۔ نہرو تشریح کرتے ہیں کہ جب انگریز بر صغیر میں پہنچے تو اس وقت بر صغیر میں صنعتیں تھیں، اس زمانے کے اعتبار سے پیشرفتہ صنعتیں تھیں۔ یہ بات نہرو نے اپنی کتاب 'تاریخ جہان پر ایک نظر' میں ذکر کی ہے۔ یعنی ہندوستان اس وقت کی پیشرفتہ صنعتی مصنوعات تیار کرتا تھا۔
دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال تھی۔ انگریز جب ہندوستان پہنچے تو انھوں نے اسے بند کروا دیا۔ یعنی ایسے اقدامات انجام دئے کہ ہندوستان کی مقامی صنعت ٹھپ ہوکر رہ گئی، پسماندگی میں چلی گئی تاکہ اس طرح لوگوں کو برٹش مصنوعات اور امپورٹڈ اشیا کی ضرورت پڑے۔ اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی۔ یہی ہر جگہ ہوا۔
ایران میں بھی اسی منصوبے پر کام ہوا۔ ہندوستان اور دیگر ممالک سے ایران کا فرق یہ ہے کہ ایران میں رسمی طور پر استعمار نہیں تھا، ایران نو آبادی نہیں تھا، جبکہ ہندوستان باقاعدہ طور پر نوآبادیات میں شامل تھا۔
پیشرفت اور جمود کی دوہری پالیسی۔ اختراع اور تقلید کی دو رخی پالیسی یعنی تسلط پسند ممالک زندگی میں، علم کے میدان میں، وسائل کے میدان میں آئے دن کوئی نئی ایجاد کرتے رہیں، لیکن تسلط کے شکار ممالک خود کوئی بھی اختراع کرنے کے بجائے اور اختراع کے لئے سازگار ماحول تک رسائی کے بجائے ہمیشہ تقلید کرتے رہیں۔ انھوں نے مسلسل اختراعات و ایجادات کیں اور یہ ممالک فقط تقلید کرتے رہے۔
امام خامنہ ای
7 جون 2017