تحریر: مولانا سید جوہر عباس رضوی
حوزہ نیوز ایجنسی। ’’الم ذلک الکتاب لا ریب فیہ، ھدی للمتقین الذین یومنون بالغیب ع یقیمون الصلوٰۃ و مما رزقناھم ینفقون‘‘۔
یہ وہ کتاب ہے جسمیں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے متقین کے لئے ھدایت ہے، وہ لوگ جو غیب پت ایمان رکھتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے دیا ہےاسمیں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
اصل موضوع فلسفہ غیبت ہے ۔
آج مسئلہ ہے غیبت امام زمانہ کا اور یہ تذکرہ اس وقت شروع ہوا جب سے رسول خدا نے ذھنوں کو ہموار کیا ہے تاکہ امام کی غیبت کیلئے آماد ہ ہو جائیں اس غیبت کا فلسفہ کیا ہےاتنی طولانی غیبت کیوں ہوئی؟ جبکہ کسی بھی انبیاء یا اولیاء کو اتنی لمبی نہ تو عمر دی گئی اور نہ ہی اسکی زندگی کے اعتبار اتنی لمبی غیبت دی گئی کیوں اس امام کو اتنی لمبی غیبت دی ہے؟
پہلا فایدہ غیبت کے بعد انسان کے اندر عمل کا جزبہ پیدا ہوتا ہے اگرچہ جب انسان سامنے موجود رہتا ہے تو عمل میں تیزی ہوتی ہے لیکن اگر مالک کے سامنے موجود نہ ہو تو عمل میں سستی آجاتی ہے اور ایسا ہے بھی آپ کسی بھی دفتر میں چلے جائیں اگر مالک بیٹھا ہے تو کام کی رفتار کو دیکھ لیں اور اگر مالک نہ ہو تو رفتار عمل دیکھ لیں مدرسوں میں اداروں میں دیکھ لیں نگران اگر موجود ہے تو عمل کی رفتار تیز ہے ورنہ رفتار کم ہو جاتی ہے تو خدایا اگر تونے اسے پردہ میں نے رکھا ہوتا بلکہ نگاہوں کے سامنے رکھا ہوتا تو عمل کی رفتار تیز ہو جاتی ہےچونکہ ہماری زندگی کا تجربہ یہی ہے کہ اگر نگھبان سامنے نہیں ہے تو عمل میں سستی آجاتی ہے عجب نہیں خدا نے آواز دی ہو تمہارا نظریہ صحیح ہے لیکن یہ نظریہ ان کا ہے جن کا غیب پر ایمان نہیں ہے یہ دنیا میں ہوتا ہے کہ اگر سامنے ہے تو دیکھے گا اگر سامنے نہیں ہے تو عمل کو نہیں دیکھے گا لیکن جسے خدا نے پردہ میں رکھا ہے اس کے پردہ میں رہنے کا راز ہی یہی ہے کہ ہم اسے دیکھ نہیں پاتے لیکن وہ ہم کو بہرحال دیکھ رہا ہے۔
اسلامی عقائد کے اعتبار سے ۳ طرح کی غیبت ہے اللہ کی غیبت اب اگر لوگ کہیں خدایا اگر تو سامنے آجائے تو عمل کی رفتار تیز ہو جاتی ورنہ عمل کی رفتار سست ہو جائے گی اس طرح کا بظریہ تو کسی قوم کا نہیں ہے اسلئے کہ اللہ کو نہ تو کسی نے دیکھا ہے اور نہ ہی دیکھ سکتا ہے ایمان بالغیب کی پہلی شرط اللہ کی غیبت پر ایمان لانا ہے یا ہم نے جو رسول کو مانا ہے تو کیا ان کو دیکھ کر مانا ہے۔
اور اب وہ امکان بھی نہیں کی ہم رسول کو دیکھ سکے لیکن ہر مسلمان کا لیکن ہر مسلمان کا رسول پر ایمان ہے تو پہلا سلسلہ خدا کی غیبت اور دوسرا سلسلہ رسول خدا کی غیبت اور تیسرا مرحلہ امامت کا ہے وہ بھی رسالت کا ہی ایک حصہ ہے تو جب خدا کو بغیر دیکھے مان لیا رسول کو بغیر دیکھے مان لیا تو اب صرف امام ہی کے بارے میں بہ ضد کیوں ہیں کہ بغیر دیکھے نہ مانے گیں عزیزوں ۳ طرح کی غیبت ہے اللہ کو مانا جبکہ اسے نہ دیکھا ہے اور نہ ہی دیکھ سکتے ہیں رسول اللہ کو مانا جسے کل دیکھا تھا لیکن اب نہیں دیکھ سکتے تو جب اللہ کو مان لیا رسول اللہ کو مان لیا تو اس امام کو ماننے میں کیا دقت ہے جسے کل بھی دیکھا تھا اور بعد میں بھی دیکھیں گے۔
دوسری بات تحفظ کا مسئلہ امام کو پردہ میں کیوں رکھا؟
جب بھی حضور و غیاب کا مرحلہ آتا ہے غائب اور حاضر کا تو اکثر یہ ہوتا ہے کہ بزرگ جوان اور بچوں کو روک دیتے ہیں کہ تم رکو ہم جاتے ہیں آپ کیوں جائیں گے کہا اس لئے کہ ہماری تو عمر ہوگئی ابھی یہ جوان ہیں ان کو زندہ رہنا ہے اگر ہم کو کچھ ہو گیا تو کیا کرنا ہے ہم تو ویسے ہی جانے والے تھے لیکن یہ جوان ہیں انھیں ابھی چالیس پچاس سال تک رہنا ہے فرق پہچانا منزل عام پر وہ آ رہا ہے جسے امید ہے کہ جلدی جانا ہے اور جسے جلدی نہیں جانا ہے اسے گھر میں رکھا ہے تم مت جاؤ خطرہ ہے مجھے جانے دو یعنی سامنے آنا اور نہ آنا اس بات پر منحصر ہے کہ کسے جلدی جانا ہے اور کسے بعد میں جانا ہے اگر جلدی جانا ہے تو سامنے آنا ہے اور اگر دیر میں جانا ہے تو اتنا ہی چھپانے کا انتظام کیا جانا ہے عزیزوں اگر حوادثات دنیا ختم ہو گئے ہوتے تو بھیجنا ممکن تھا لیکن حوادثات تو اب بھی ہیں اسی نہ بھیجنے کو غیبت کہتے ہیں ۔
اب لوگ کہتے ہیں آپ ہی تو کہتے ہیں امام کے پاس بہت طاقت ہوتی ہے وہ چاند سورج پر بھی اختیار رکھتا ہے تو پھر انھیں آنے میں کیا دقت ہے یہ سچ ہے کہ امام کے پاس طاقت زیادہ ہوتی ہے اور آج کے اسلحے چاقو تکوار یہ امام کا کچھ نہیں کر سکتے لیکن یہ بتاؤ اگر امام کے پاس طاقت ہے تو نبی کے پاس امام سے کم طاقت نہیں ہوتی ۔
لیکن زمانے نے کیا کیا پیشانی کو زخمی کر دیا دندان مبارک کو شہید کر دیا یہودی عورت نے کھانے میں زہر ملا دیا تو جب کل نبی کے ساتھ یہ سب ہو سکتا ہے تو آج اگر امام آ جائیں تو ان کے ساتھ ہی یہی ہو سکتا ہے پوری تاریخ امامت میں کوئی ایک امام اپنی طبیعی موت مارا گیا بلکہ سب کو یا تو زہر دیا گیا یا تلوار سے شہید کیا گیا اور جس تک تلوار اور زہر نہیں پہونچ سکے وہ آج بھی زندہ ہے۔
ہر نبیؐ کے پاس طاقت تھی موسیٰ فرعون سے کمزور نہیں تھے ابراہیم نمرود سے کمزور نہیں تھے نوح کفار سے کمزور نہیں تھےسب کے پاس طاقت تھی لیکن کیا ہوا سب کو کسی نہ کسی طرح قتل کیا گیا شھید کیا گیا اس وقت انبیاء کا ظھور ضروری تھا لہذا قوم کے درمیان بھیجا آج غیبت ضروری ہے لہذا پردہ غیب میں رکھا ہے۔
تیسرا فایدہ
جسے آپ حضرات محسوس کرسکتے ہیں اگر انسان آپ کی نگاہوں کے سامنے رہے تو وہ احترام دل میں نہیں رہتا جو غیبت کے بعد میں ہوتا ہے اسے آپ خود درک کر سکتے ہیں کوئی آدمی سال بھر کے بعد آتا ہے تو اس سے کیسے ملتے ہیں اور کوئی روز آپ کے ساتھ رہتا ہو تو اس سے کیسے ملتے ہیں اب سوچیں خدا نے کیوں امام کو پردہ میں رکھا ہے یہ انسانی فطرت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ سامنے رہنے سے بے تکلفی ہو جاتی ہے ہنسی مذاق ہوتا ہے لیکن انسان بے تکلف تو ہو سکتا ہے بے ادب نہیں ہو سکتا بدتمیز نہیں ہو سکتا ساتھ بیٹھنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انسان بے ادب ہو جائے اور یہ فطرت ہر انسان میں ہے کافر ہو مسلمان ہو دین دار ہو بے دین ہو بس فرق اتنا ہے اگر باایمان ہوگا تو ادب و تھذیب باقی رہے گی اور اگر بے ایمان ہوگا تو ادب و اخلاق کو بھول جائے گا رسول اکرمؐ اپنی بزم میں مذاق کرتے تھے واقعہ موجود ہے ۔
بہرحال سامنے رہنے سے اہمیت تھوڑا کم ہو جاتی ہے لیکن جب انسان غیبت کے بعد گھر لوٹے تو اس کا انداز کیا ہوتا ہے آپ بھتر جانتے ہیں اب سامنے رہنے اور نہ رہنے کا فرق کیا ہے رسول کی اہمیت امام سے زیادہ ہے وہ بالاتر ہیں لیکن خدا نے رسول اکرم کو ۶۲ سال لوگوں کے سامنے رکھا یہ بھی زیادہ ہے ۴۰ سال تو عام زندگی گذاری ۲۳ سال نبوت و رسالت کے اس ۲۳ سال یا ۶۳ سال کے درمیان لوگوں میں اتنا فرق آگیا اتنی بے تکلفی آگئی کہ شروع میں جس نبی کے لئے کہا آمنا صدقنا آپ کی ساری باتیں سچ ہے وہ نبی جب دنیا سے جانے لگا اور کہا لاؤ قلم و دوات دے دو تاکہ کچھ لکھ دوں تو لوگوں نے ہذیان کا الزام لگا دیا خدا نے کہا ہم نے ۶۳ سال نبی کو تمہارے سامنے رکھکر تم کو آزما لیا اب اسے تمہارے درمیان نہیں رکھوں گا لہذا پردہ غیب میں رکھا ۔
اللہ نے غیبت کو آزمایش کا بہترین ذریعہ قرار دیا ہےقرآن گواہ ہے اللہ نے موسیٰ کو بلایا ایک ماہ کیلئے کوہ طور پر موسیٰ قوم کے درمیان آئے اور کہا دیکھو میں ایک مہینے کیلئے تمہارے درمیان سے جا رہا ہوں جب ۳۰ دن ہو گئے تو خدا نے کہا اے موسیٰ ۱۰ دن اور رک جاؤ اسلئے کہ ان کو ۳۰ دن کی اطلاع تو ہے قوم بنی اسرائیل جانتی ہے کہ موسیٰ ۳۰ دن کیلئے گئے ہیں ۱۰ دن خدا نے اور روک لیا قوم نے سوچا ۱۰ دن اور ہو گئے لگتا ہے اب نہیں آئیں گے سامری نے موقع کو غنیمت سمجھا اور ایک گوسالہ بنایا جس میں آواز پیدا ہو گئی اور جیسے ہی آواز پیدا ہوئی اس اعلان کیا کہ یہی وہ خدا ہے جو میرا خدا ہے اور تمہارا خدا ہے اور موسیٰ کا خدا ہے جس سے ملنے کے لئے موسیٰ گئے تھے اور اگر خدا نہ ہوتا تو بولتا کیسے سب مان گئے کہ یہ بول رہا ہے تو یہی خدا ہے ۔
جناب ہارون سمجھاتے رہے یہ کیسے خدا ہو سکتا ہے جسے تم نے بنایا ہے تم اشرف المخلوقات ہو یہ جانور ہے یہ خدا کیسے ہو سکتا ہے لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں ہارون سمجھا رہے ہیں لیکن نہیں مانا اور گوسالے کو خدا مان لیا اب سوچے ۳۰ دن کے وعدے پر موسیٰ گئے صرف ۱۰ دن کااضافہ ہو گیا تو اب تک جو ساری قوم موسیٰ کے خدا کا کلمہ پڑھ رہی تھی وہ گوسالے کو خدا ماننے لگی موسیٰ پلٹ کے آئے اور سمجھایا پوری داستان موجود ہے قرآن میں صرف دس دن کا اضافہ ہوا موسیٰ نہیں آئے یعنی ایسے دس دن میں کہ ظہور کا وقت معلوم نہیں تھا وہ غیبت صرف دس دن چلی اثر کیا ہوا پوری قوم گوسالے کو خدا ماننے لگی یہ ایک خدا کا امتحان تھا کہ ظھور کا وقت نہیں بتایا اور غیبت کا اعلان کر دیا نتیجہ بنی اسرائیل گوسالے کو خدا ماننے لگے۔
جو قوم دس دن کی غیبت کو برداشت نہ کر سکے اور ایمان سے پلٹ جائے اسے قوم یہود کہتے ہیں ۱۱ سو سال سے امام کی غیبت کا ایمان رکھے ہیں اور ایمان میں ذرہ برابر بھی شک نہ آئے عزیزوں جو غیبت سے گمراہ ہو جائے وہ یہودی ہے اور جو غیبت سے گمراہ نہ ہو وہ شیعہ علیؑ ہے۔
اب مسئلہ ہے کہ آکر اس غیبت کا فایدہ کیا ہے ایک روایت جو چارمعصوموں سے نقل ہوئی پیغمبر اکرمؐ، امام سجادؑ ، امام صادقؑاور خود امام زمانہ ؑ، روایت یہ ہے کہ میرے آخری وارث کی علامت یہ ہے کہ وہ غیبت میں اس سورج کی طرح ہے جس کے اوپر بادل ہے امام کو سورج اور غیبت کو بادل کیوں کہا گیا ہے؟ پہلا مسئلہ سورج کہا چاند کیوں نہیں کہا مصلحت ہوگی جبکہ ہم نے قرآن میں دیکھا ہے والشمس والنھار والقمر اذا تلھا؛ قسم سورج کی جب وہ چمکنے لگے اور قسم ہے چاند کی جب وہ پیچھے پیچھے چلے مفسرین نے لکھا یہاں سورج سے مراد رسول اکرمؐ ہیں اور چاند سے مراد امام علیؑ جبکہ یہ طے ہے کہ سورج کے پاس اپنی روشنی ہے اور چاند کے پاس جو روشنی ہے وہ سورج کی وجہ سے ہے یعنی علیؑ کے اندر جو کمال ہے وہ پیغمبر ؐ کی طرف سے منتقل ہوکر آیا ہےلیکن امام زمانہ کو سورج کہا جا رہا ہے پتہ چلا جب امام کا ذکر نبی کے ساتھ آئے گا تو اسے چاند کہا جائے گا اور جب امام کاذکر بغیر نبی کے آئے گا تو اسے سورج کہا جائے گا امام زمانہ اور خدا کے درمیان کوئی نہیں لہذا سورج کہا گیا۔
آپ ماہرین نجومیات سے پوچھ لیں چاند ستارے کواکب زمین کرہ یہ سب ہیں لیکن ان کے ذریعہ نظام نہیں چلتا نظام چلتا ہے شمس سے اسی لئے نظام شمسی کہا گیا یعنی سورج مرکز ہے چاند کا، ستارہ کا، کواکب کا ، کرہ زمین کا اور امام سورج کہا گیا پتہ چلا پوری کائنات کا مرکز امام زمانہ کی ذات ہے چاند کو روشنی چاہئے امام دیں گے زمین کو روشنی چاہئے امام دیں گے۔
سورج کے اندر کشش ہوتی ہے ستاروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے زمین میں بھی کشش ہوتی ہے اپنی طرف کھینچتا ہے ورنہ سب اڑ جائیں ھوا میں لیکن خدا نے دونوں کو طاقت دی سورج کھینچتا ہے اپنی طرف ستارے بھاگتے ہیں پتہ چلا ستاروں کا کام ہے بھاگنا سورج کا کام ہے نظام کو بچانا رسول نے امام کو سورج کہا لوگوں نے اصحاب کو ستارہ کہا الصحابی کالنجوم پتہ چلا امام نظام کو بچانا چاہ رہے ہیں ستارہ صحابی دامن چھڑا کے بھاگنا چاہ رہے ہیں پوری تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں آج تک کوئی بھی امام میدان سے نہیں بھاگا۔
اب مسئلہ بچا بادل کا یہ بادل کیا ہے سورج کی روشنی سمندر پر پڑتی ہے تو حرارت کی وجہ سے بھاپ نکلتی ہے اور وہ اوپر جاکر جم جاتی ہے اور بادل بن جاتی ہے بادل کا کام کیا ہے خدا بادل کے کاندھے پر بارش کا بوجھ ڈالتا ہے کہ جاؤ وہ چلے جاتے ہیں برس جاتے ہیں یہ کام تو سمندر بھی کر سکتا ہے لیکن سمندر ہر جگہ پانی نہیں پہونچا سکتا جیسے بادل پہونچا سکتا ہے اب آپ سمجھے بادل امام کے سامنے کیوں ہے امام بھی غیبت میں خود جاکر سب کو فیض نہیں پہونچا سکتا لہذا بادل کو سامنے رکھا تاکہ فیض امام ہرجگہ پہونچ سکے پتہ چلا غیبت امام فیض الھی کو روکنے کا نام نہیں ہے بانٹنے کا نام ہے۔
مآخذ
۱:قرٓن کریم
۲: تفسیر نور سورہ اعراف
۳:اصول کافی ج ۱
۴: قصص انبیا
۵:تاریخ انبیا
۶:فضایل صحابہ احمد ابن حنبل