۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
چاند گرہن اور سورج گرہن

حوزہ/ چاند اور سورج گرہن کے کوئی بھی مضر اثرات نہیں نہ اسلام میں نہ سائنس میں البتہ شریعت میں اس وقت دعا، استغفار اور نماز آیات کا حکم ہے البتہ ضروری بس نماز آیات ہے جو کہ پڑھنا واجب ہے اور سورج و چاند گرہن کے وقت نکاح کرنا اور ہمبستری کرنا مکروہ ہے حرام نہیں! اور سائنس میں یہ ہے کہ سورج گرہن کا کھلی آنکھ سے دیکھنا آنکھوں کے لئے نقصان دہ ہے اور چاند گرہن کو دیکھنے کے کوئی مضر اثرات ابھی سائنس نے واضح طور پر ثابت نہیں کئے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی | چاند گرہن و سورج گرہن اللہ کی دو نشانیاں ہیں ۔ ممکن ہے ان دو نشانیوں کے ظاہر ہونے سے کچھ لوگ وحشت زدہ ہوں اور خوف کھائیں اور ممکن ہے ان سے کچھ لوگوں کو کوئی پریشانی اور وحشت نہ ہو۔ اگرچہ پہلے زمانے میں جب علم اور سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اس وقت لوگ سوج گرہن اور چاند گرہن سے بہت ڈرتے تھے اور اس کے ہونے کو ایک بد شگونی تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن آج عام تصور اس کے برخلاف ہے اور خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں اب سائنس کے عام ہونے کے سبب لوگ اس سے خوف نہیں کھاتے۔

لیکن دین اسلام نے بہت سے طبیعی مظاہر کے پیش آنے پر نماز آیات کو واجب قرار دیا ہے جیسا کہ چاند گرہن اور سوج گرہن، زلزلہ، شدید طوفان وغیرہ وغیرہ۔
ویسے تو چاند اور سورج کو گرہن لگتے وقت نماز آیات پڑھنے کے کئی اسباب و وجوہات ہوسکتے ہیں اور اس کے حقیقی فلسلفہ کا علم بس اللہ کے پاس ہے یا ان حضرات کے پاس ہے جنہیں اللہ نے علم لدنی سے نوازا ہے ۔ البتہ احادیث کی روشنی میں علمائے دین نے نماز آیات پڑھنے کے کچھ اسرار کی طرف بہر کیف اشارہ کیا ہے جن میں سے کچھ کو ذیل میں بیان کیا جارہا ہے:

ہم نماز آیات کو پڑھنے کے راز کو بیان کرنے سے پہلے امام علی رضا علیہ کی اس حدیث کا سہار لیں گے جس میں راوی مولا سے سوال کرتا ہے کہ نماز آیات کے واجب ہونے کا راز کیا ہے؟ مولا(ع) نے فرمایا:’’لانه آية من آيات الله، لايدري أ لرحمة ظهرت أم لعذاب، فاحبّ النبيّ ـ صلّي الله عليه و آله ـ ، أن يفرغ امته الي خالقها و راحمها عند ذلك يصرف عنهم شرّها و يقييهم مكروها‘‘۔(ميرزا حسين نوري، مستدرك الوسايل، ج 6، ص 164)۔گرہن(چاند اور سورج کو گہن لگنا) اللہ کی قدرت و عظمت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اور چونکہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ رحمت کے لئے ظاہر ہوا ہے یا عذاب کے لئے، لہذا پیغمبر اکرم(ص) کو یہ پسند تھا کہ آپ کی امت ان علامات و آیات کے ظہور کے وقت تمام چیزوں سے بے نیاز ہوکر اپنے خالق اور رحم کرنے والے کی بارگاہ میں پناہ لے لے اور نماز بجا لائے تاکہ اللہ تعالیٰ اسے اس امر میں موجود بدی(اگر ہو تو) سے دور رکھے اور اس کی حفاظت فرمائے۔

بعض شیعہ علماء کہتے ہیں: سورج گرہن اور چاند گرہن کے وقت اس وجہ سے مسجد کا رخ کرنا چاہیئے اور نماز آیات پڑھنی چاہیئے چونکہ سورج اور چاند گرہن ان آسمانی علامات میں سے ہیں کہ جو قیامت کے برپا ہوتے وقت ظاہر ہونگی اور اسی طرح زلزلہ اور شدید ہواؤں کا چلنا بھی قیامت میں ظاہر ہونے والی علامات و آیات میں سے ہیں۔ اسی وجہ سے شریعت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان جیسی آیات و علامات کو دیکھ کر قیامت کے منظر کو یاد کرتے ہوئے بندگان خدا کو چاہیئے کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کریں اور وہ مسجدیں جو روئے زمین پر اللہ کے گھر کی حیثیت رکھتی ہیں ان کو اپنی پناہ گاہ بنا لیں اور اپنے کو اللہ کے سامنے تسلیم کردیں۔( حرّ عاملي، وسايل الشيعة، ج 5، ابواب صلاة الكسوف، باب 1، ص 142)

مذکورہ بیان کی روشنی میں۔ جیسا کہ بعض علماء نے بیان کیا ہے۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سور و چاند گرہن کے وقت نماز آیات کا ادا کرنا درحقیقت قیامت کے منظر کو یاد کرنا اور عظمت خدا کی طرف توجہ کرنا ہے اور چونکہ شریعت محمدی(ص) میں بشر کی ہدایت، تہذیب نفس اور تربیت کے متعدد طریقے موجود ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان ہمیشہ کمال کی طرف گامزن رہے اور آسمانی آیات کا ظاہر ہونا کہیں انسان کو اپنے چکر میں نہ الجھا دے لہذا ایسے وقت میں بھی اس(انسان) کے کمال کا سفر جاری و ساری رہے۔

یہ سورج و چاند گرہن کے متعلق اسلام کا وہ ثابت نظریہ ہے جسے ہمارے علماء اور اسلاف نے بیان کیا ہے۔ اب ہمارے معاشرے خاص طور پر بر صغیر کے دیہاتی علاقہ جات میں حاملہ عورتوں(pregnant) کے اندر ایک خاص قسم کا خوف پایا جاتا ہے اور بہت سے کاموں سے انہیں گھر کی بوڑھی عورتیں منع کردیتی ہیں جیسا کہ چاقو سے کوئی سبزی وغیرہ نہ کاٹیں چونکہ ان کے یہاں مشہور یہ ہے کہ اگر کوئی حاملہ عورت سورج گرہن اور چاند گرہن کے وقت چاقوں سے کچھ کاٹے گی تو اس کا اثر اس کے بچہ پر پڑے گا اور وہ لنگڑا لولا پیدا ہوگا وغیرہ وغیرہ ...

متفقہ طور پر تمام مراجع کرام کے یہاں یہی ملتا ہے کہ جب سورج اور چاند میں سے کسی ایک کو گہن لگے تو نماز آیات پڑھنا واجب ہے۔ البتہ ایسے وقت میں صرف نکاح کرنے(یعنی ہمبستری کرنے) سے ممانعت کی گئی ہے اور اس کا حاملہ عورت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

قارئین کرام! جو کچھ ہم نے مذکورہ بالا سطور میں بیان کیا وہ سب ٹھیک، درست اور حقیقت ہے اور باقی جو کچھ بھی اس کے متعلق کہا جاتا ہے وہ سب رسمی باتیں ہیں اگر کسی کو کچھ ہوتا بهی ہے تو اس کی کوئی اور وجہ ہوگی، یہ نہیں!اور اگر یہ مان لیا جائے کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کا اثر ہمارے ممالک ہی میں کیوں ہوتا ہے دوسرے ملکوں میں کیوں نہیں ہوتا جہاں یہ احتیاطیں نہیں برتی جاتی جو پاکستان و ہندوستان میں برتی جاتی ہیں۔

واضح رہے چاند اور سورج گرہن کے کوئی بھی مضر اثرات نہیں نہ اسلام میں نہ سائنس میں البتہ شریعت میں اس وقت دعا، استغفار اور نماز آیات کا حکم ہے البتہ ضروری بس نماز آیات ہے جو کہ پڑھنا واجب ہے اور سورج و چاند گرہن کے وقت نکاح کرنا اور ہمبستری کرنا مکروہ ہے حرام نہیں! اور سائنس میں یہ ہے کہ سورج گرہن کا کھلی آنکھ سے دیکھنا آنکھوں کے لئے نقصان دہ ہے اور چاند گرہن کو دیکھنے کے کوئی مضر اثرات ابھی سائنس نے واضح طور پر ثابت نہیں کئے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں گہن کے بارے میں شعور و آگہی پیدا کی جائے اور انہیں توہمات کے دائرے سے نکالا جائے ۔ کیونکہ ان توہمات کے باعث زندگی کے معمولات متأثر ہوتے ہیں جس کا نتیجہ دنیاوی اور اخروی نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .