۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
News ID: 361043
21 جون 2020 - 01:17
نماز آیات

حوزہ/نماز آیات ہر مکلف پر واجب ہے جب سورج گہن اور چاند گہن اسی طرح زلزلہ اور ہر وہ چیز جس سے اکثر لوگ خوف زدہ ہو جائیں۔

حوزہ نیوز ایجنسیl
نماز آیات کے اسباب

۱۔ نماز آیات کے واجب ہونے کے شرعی اسباب یہ ہیں : سورج گرہن اور چاندگرہن خواہ ان کے معمولی حصے کو ہی لگے، اسی طرح زلزلہ اور ہر وہ غیر معمولی چیز جس سے اکثر لوگ خوفزدہ ہوجائیں، جیسے سرخ، سیاہ یا پیلی آندھیاں کہ جو غیر معمولی ہوں یا شدید تاریکی، یا زمین کا دھنسنا ، پہاڑ کا ٹوٹ کر گرنا،بجلی کی کڑک اور گرج اور وہ آگ جو کبھی آسمان میں نظر آتی ہے۔
سورج گرہن ،چاند گرہن اور زلزلہ کے علاوہ باقی سب چیزوں میں شرط ہے کہ عا م لوگ ان سے خوف زدہ ہوجائیں لہٰذا اگر ان میں سے کوئی چیز خوفناک نہ ہو یا اس سے بہت کم لوگ خوف زدہ ہوں تو نماز آیات واجب نہیں ہے ۔

۲۔ نماز آیات اسی شخص پر واجب ہے جو حادثے والے شہر میں ہو ، اسی طرح اس شخص پر بھی واجب ہے جو اس سے متصل شہر میں رہتا ہو، اس طرح کہ دونوں کو ایک شہر کہا جاتا ہو۔

نماز آیات کو ادا کرنے کا وقت

۳. سورج اور چاند گرہن کی نماز آیات کو ادا کرنے کا وقت گرہن لگنے کے شروع ہونے سے اس وقت تک ہے جب تک وہ اپنی سابقہ حالت پر لوٹ نہ آئیں؛ احتیاط ترک نہ ہو اور اس سے پہلے کہ وہ اپنی سابقہ حالت پر لوٹنا شروع کریں نماز بجا لانے میں سبقت کرنی چاہیے اور اگر اس وقت سے تاخیر کرے تو نماز کو قربۃ الی اللہ کی نیت سے پڑھے اور ادا یا قضا کی نیت نہیں کرسکتا۔

۴. زلزلے اور اس جیسے امور میں کہ جہاں غالباً ان کے واقع ہونے کی مدت میں نماز آیات پڑھنے کی گنجائش نہیں ہوتی، نماز میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور اس صورت میں کہ جب معصیت کرے اور فورا نماز نہ پڑھے تو اس کے بعد پوری زندگی واجب ہے اور ہر صورت میں ادا کی نیت سے پڑھے۔

نماز آیات کو پڑھنے کی کیفیت

۵. نماز آیات کو چند طریقوں سے پڑھا جاسکتا ہے:

پہلا طریقہ:
نیت اور تکبیرة الاحرام کے بعد حمد و سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے اس کے بعد رکوع سے سر اٹھائے اورپھر سے حمد و سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے، پھر رکوع سے بلند ہوکر حمد و سورہ پڑھے پھر رکوع بجا لائے، پھر سر اٹھا ئے اور حمد وسورہ پڑھے اور اسی طرح اس رکعت میں پانچ رکوع بجا لائے پھر سجدے میں جائے اور دوسجدے بجا لانے کے بعد کھڑا ہو کر پہلی رکعت کی طرح عمل کرے پھر دو سجدے بجالائے اور اس کے بعد تشہد اور سلام پڑھے۔

دوسرا طریقہ:
نیت اور تکبیرة الاحرام کے بعد سورہ حمد اور کسی سورہ کی ایک آیت پڑھ کر رکوع میں جائے (البتہ بسم اللہ کو ایک آیت شمار کرنا صحیح نہیں ہے) پھر رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اسی سورہ کی دوسری آیت پڑھے اور رکوع میں جائے، پھر سر اٹھاکر اسی سورہ کی تیسری آیت پڑھے ،پانچویں رکوع تک اسی طرح بجا لائے یہاں تک کہ جس سورے کی ایک ایک آیت ہر رکوع سے پہلے پڑھی تھی وہ تمام ہوجائے اس کے بعد پانچواں رکوع اور پھر دو سجدے بجالائے پھر دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے اور سورہ حمد اور کسی سورہ کی ایک آیت پڑھ کر رکوع کرے اور دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح بجا لائے اور تشہد و سلام پڑھ کر نماز ختم کر دے، چنانچہ اگر ( اس طریقے کے مطابق ) ہر رکوع سے پہلے کسی سورہ کی ایک آیت پر اکتفا کرے تو سورہ حمد کو رکعت کی ابتداء میں ایک مرتبہ سے زیادہ نہ پڑھے ۔

تیسرا طریقہ:
مذکورہ دو طریقوں میں سے ایک رکعت کو ایک طریقہ سے اور دوسری کو دوسرے طریقے سے بجا لائے۔

چوتھا طریقہ:
وہ سورہ جس کی ایک آیت پہلے رکوع سے قبل قیام میں پڑھی تھی، اسے دوسرے ، تیسرے یا چوتھے رکوع سے پہلے والے قیام میں ختم کردے اس صورت میں واجب ہے کہ رکوع سے سر اٹھانے کے بعد قیام میں سورہ حمد اور ایک دوسرا سورہ یا اس کی ایک آیت پڑھے اگر تیسرے یا چوتھے رکوع سے پہلے ہو اور اس صورت میں واجب ہے کہ اس سورہ کو پانچویں رکوع سے پہلے مکمل کردے ۔

 نماز آیات کو جماعت کے ساتھ پڑھنا

۶. نماز آیات میں جماعت کا حکم یومیہ نمازوں میں جماعت کی طرح ہے اور امام جماعت کی قرائت ماموم کی قرائت سے کفایت کرتی ہے۔

ایک آیت کو دوحصوں میں تقسیم کرنا

۷. نماز آیات میں ایک آیت کو دوحصوں میں تقسیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مثال کے طور پر «لم یلد» ایک حصہ اور «ولم یولد» دوسرا حصہ ہو۔

جماعت میں دوسرے رکوع میں پہنچنا

۸. اگر کوئی شخص نماز آیات کی پہلی رکعت کے دوسرے رکوع کےوقت جماعت میں پہنچے تو جماعت میں شامل ہونا محل اشکال ہے۔

جماعت کےساتھ پڑھنا

۹.   نماز آیات کو جماعت کے ساتھ پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں بلکہ مستحب ہے کہ جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔

مردوں کے لئے اونچی آواز میں حمد و سورہ کی قرائت

۱۰. مستحب ہے اس میں حمد و سورہ کی قرائت اونچی آواز میں پڑھے۔

مستحب قنوت

۱۱. نماز آیات میں قرائت کے بعد ہر دوسرے قیام میں قنوت مستحب ہے۔ لہذا اس کی دو رکعتوں میں پانچ قنوت ہیں اور دو قنوت پر اکتفاء کرنا جائز ہے، ان میں سے پہلا (پہلی رکعت کے)پانچویں رکوع سے پہلے ہے لیکن اس قنوت کو رجاء کی نیت سے بجا لائے اور دوسرا قنوت دسویں (دوسری رکعت کے پانچویں)رکوع سے پہلے ہے۔ (دسویں رکوع سے پہلے)آخری رکوع پر اکتفا کرنا جائز ہے۔

نماز آیات کے وقت کا یومیہ نماز سے ٹکراو

۱۲. اگر نماز آیات اور یومیہ نماز دونوں کا وقت تنگ ہو تو یومیہ نماز مقدم ہے اور ضروری ہے کہ پہلے یومیہ نماز پڑھے۔

قضا ہونے والی نماز آیات

۱۳. س- وہ نماز آیات جو انسان سے چھوٹ گئی ہیں اور معلوم نہیں کہ زلزلے یا چاند گرہن یا سورج گرہن سے متعلق ہیں تو انہیں کس نیت کے ساتھ پڑھنا چاہیے؟

ج. ما فی الذمہ(جو ذمے میں ہے) کی نیت کے ساتھ پڑھے۔

چاند گرہن کا علم

۱۴. س- وہ شخص جو چاند گرہن کے وقت گرہن کو نہ دیکھے اور جانتا ہو کہ چاند گرہن ہوا ہے تو کیا اسے نماز آیات پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟

ج. سوال میں مذکورہ صورت میں چاند گرہن کے وقت اس کے لئے نماز آیات پڑھنا ضروری ہے۔

۱۵. س۔ اگر پورے سورج یا چاند کو گرہن لگے اور مکلف نے نماز نہ پڑھی ہو تو ذیل کی دوصورتوں میں اس کی کیا ذمہ داری ہے؟
الف) اگر گرہن لگنے کا پتہ چل جائے اور جان بوجھ کر یا بھول کر نماز آیات کو بجا نہ لائے؟
ب) اگر گرہن لگنے کا پتہ نہ چلے اور وقت گزرنے کے بعد اس سے واقف ہوجائے؟

ج. دونوں صورتوں میں قضا واجب ہے۔

دن میں چاند گرہن ہونا

۱۶. س۔ اگر ماہرین فلکیات اور نجوم کے بیان کے مطابق چاند گرہن کا وقت دن کے اس پہر میں ہو کہ چاند ابھی اس طرح سے نہ نکلا ہو کہ رویت کے قابل ہو تو کیا ایسی صورت میں بھی نماز آیات پڑھنا ضروری ہے یا چاند کے نکلنے تک صبر کرنا چاہیے؟

ج. نماز آیات کا وجوب ان لوگوں سے مخصوص ہے جو کسی ایسے شہر میں ہوں جہاں چاند گرہن دکھنے(رویت) کے قابل ہو اور اسی طرح اس شخص پر بھی واجب ہے جو اس سے متصل شہر میں رہتا ہو، اس طرح کہ دونوں کو ایک شہر کہا جاتا ہو۔

سجدہ سہو

17.س- چاند گرہن کی نماز آیات میں اگر گرہن لگنے کے وقت کے بعد سجدہ سہو ادا کیا جائے جبکہ نماز آیات چاند گرہن کے وقت ادا کی صورت میں پڑھی گئی ہو تو کیا نماز صحیح ہے؟

ج. نماز صحیح ہے۔

نماز آیات کی قضا

18. س- میں نے چند سالوں تک جہل اور سہل پسندی کی وجہ سے اپنی نماز آیات نہیں پڑھیں ہیں اور اس وقت مجھے معلوم نہیں کہ ان چند سالوں کے دوران کتنی نماز آیات مجھ پر واجب ہوئی ہیں۔ اب ان نمازوں کی تعداد کے بارے میں میرا کیا وظیفہ ہے جو مجھے پڑھنی چاہیں؟

ج. نمازوں کی اتنی مقدار کا بجا لانا واجب ہے جن کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ آپ کے ذمے ہیں اور مشکوک مقدار کی بابت آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .