۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی

حوزہ/ امام محمد تقی علیہ السلام کے یوم شہادت کے موقع پر آپ علیہ السلام کی ایک نورانی حدیث تفسیر اور تشریح کے ساتھ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

تحریر: محمد یعقوب بشوی

حوزہ نیوز ایجنسی। قارئیں کرام اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث وہ درخشاں گوہر اور در نایاب ہیں کہ انسان کی زندگیاں بدل کے رکھ سکتی ہیں،زندگی کی تاریک راہوں میں یہ حکمت آمیز باتیں انسان کو نہ تنہا بھٹکنے نہیں دیتیں بلکہ منارۂ ہدایت بن کر اسے صراط مستقیم پرچلاتی ہیں۔

زیر نظر حدیث مبارکہ میں امام محمد تقی علیہ السلام بعض اہم زندگی کے رہنما اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:" اَلدّینُ عِزٌّ وَالْعِلمُ کَنزٌ وَالصَّمْتُ نُورٌ وَغایَهُ الزُّهدِ ألوَرَعُ وَلاهَدْمَ لِلدّینِ مِثْلُ الْبِدَعَ وَلااَفسَدَ لِلرَّجُلِ مِنَ الطـَّمَعِ وَبِالرّاعى تَصْلِحُ الرَّعِیـَّهُ وَبِالدُّعاءِ تُصْرَفُ الْبَلِیَّهُ"؛دین سرفرازى اور عزت ہے، علم خزانہ ہے، خاموشی نور و روشنی ہے،زہد کی انتہا،گناہوں سے بچنا ہے،دین کو نابود کرنے میں کوئی بھی چیز بدعت سے بڑھ کر نہیں ہے،مرد کو تباہ کرنے کے لئے لالچ سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں ہے ،رہبروں کے ذریعے لوگوں کی اصلاح ہوتی ہے اور بلائیں دعا کے وسیلے سے بر طرف اور دور ہوتی ہیں۔

اس حدیث مبارکہ میں بعض اہم زندگی کے رہنما اصول بیان ہوئے ہیں،جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
 
پہلا اصول:دین عزت؛انسان زندگی میں عزت کی تلاش میں رہتا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے سرٹور کوشش کرتا ہے لیکن اصل عزت دین ہے لہٰذا عزت پانے کے لئے دیندار بننا پڑے گا دین ہی انسان کو دونوں جہانوں میں سرخرو اور سرفراز بنا سکتا ہے۔

دوسرا اصول: خزانہ علم؛ انسان اس دنیا میں سب سے زیادہ وقت دولت کمانے میں خرچ کرتا ہے کچھ لوگ کامیاب ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ کامیاب نہیں ہوتےہیں لیکن انسان دولت کمانے کےلئے ہر راستہ اور طریقہ اپناتا ہے اور بہت سے لوگ حلال و حرام کا بھی بالکل ہی خیال نہیں رکھتے لیکن زندگی میں ختم نہ ہونے والا خزانہ علم کا خزانہ ہے جسے جب چاہیے جیسے چاہیے خرچ کرے یہ بڑھتا چلا جائے گا اور یہی انسان کی بقاء کا راز بھی ہے اور علم وہ خزانہ ہے کہ جسے جس قدر خرچ کریں گے مزید بڑھتا چلا جائے گا ورنہ صاحب علم تو مرنے کے ساتھ ہی منوں مٹی تلے دفن ہوجاتا ہے اور اس شخص کے حصے میں حسرت کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔

تیسرا اصول: خاموشی؛ نورانیت اور روشنی کی تلاش ہرانسان کو ہے لیکن اسے حاصل کرنے میں بہت سے لوگ ناکام رہتے ہیں امام محمد تقی علیہ السلام نے یہ اصول بتا دیا کہ خاموشی ہی اس نورانیت اور روشنی کو حاصل کرنے کا فرمولا ہے۔یہ فرمولا دل کی تاریکی کو روشنی سے بھر دے گا۔

چوتها اصول: زہد؛ ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ ایسے ہوں گے جو واقعی طور پر زاہد بننا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے محنت بھی کرتے ہیں نسبی طور پر وہ کامیاب بھی ہوتے ہیں لیکن زہد کی انتہا کو اگر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے گناہوں سے بچنا پڑے گا اور پرہیزگاری کی ردا اوڑھنی پڑے گی۔ حرام طریقوں سے حاصل شدہ مال و دولت سے دوری اختیار کرنا ہو گی اور حرام نگاہ،حرام کان اور حرام زبان سے بچنا ضروری ہے جس طرح معاملات میں حلال و حرام کا خیال رکھنا ضروری ہے اسی طرح معنوی امور میں بھی حرام اور حلال کی پابندی ضروری ہے۔

پانچواں اصول: بدعتوں سے بچنا؛آج کا ہمارا معاشرہ بدعتوں سے بھرا نظر آ رہا ہے، بہت سارے جاہل انسان دین میں صاحب نظر بنے ہوئے ہیں اور مختلف بدعتوں کو دین کے نام پر لاگو کرنے کی کوشش کررہے ہیں یہ لوگ در اصل اپنے ایمان کا سودا کررہےہیں اور ان کا دین تباہ ہو جائے گا اس لئے ہمیں بہت ہی احتیاط سےچلنے کی ضرورت ہے اور بدعتوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔

چھٹا اصول: لالچ؛لالچ انسان کو برباد کر کے رکھ دیتی ہے یہ اصل میں فساد کی جڑ ہے اسے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ معاشرے میں تباہی مچا دے گی۔

ساتواں اصول: رہبر؛ معاشرے میں ہر قسم کا نظام قائم کرنا اور لوگوں کو اصول و ضوابط کے ماتحت چلانا یہ رہبر کا کام ہوتا ہے اسی وجہ سے یہ مسئلہ بہت ہی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے کہ رہبر کس کو ہونا چاہیے؟رہبر؛یعنی وہ جو لوگوں کے دین،دنیا اور آخرت کو سنوارتا ہو۔

آٹھواں اصول: دعا؛دعا بلاؤں اور مصیبتوں کو ٹال دیتی ہے ۔ مولا امام محمد تقی علیہ السلام نے دعا کی ضرورت اور اس کی اہمیت کو ایک آدھے فقرے میں سمجھا دیا کہ یہ بلاؤں کو رفع دفع کرتی ہے اور انسان کی حفاظت کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین اور الٰہی ہادیوں کے رہنما دستورات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے!
 
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .