تحریر: محمد اشفاق،دمشق
حوزہ نیوز ایجنسی। کتاب کا آخری صفحہ پڑھتے ہی میری نظر گھڑی پر پڑی، تو دیکھا سوا دو بج رہے ہیں، کتاب کو میز پہ رکھا اور باورچی خانے کا رخ کیا، تو یاد آیا روٹی نہیں، باہر کے دروازے کی چابی اٹھائی اور حجیرہ ٹاؤن کے مرکزی چوک کی طرف روانہ ہوا، رستے میں تقریبا سناٹا تھا، لیکن مختلف چیزوں کی دکانیں جا بجا کھلی ہوئی تھیں، ایک دکان سے روٹی لی واپسی کا رخ کیا، تو ایک منظر دیکھ کر تھوڑی حیرت ہوئی، ایک جوان لڑکی رات کے ڈھائی بجے بالکل تنہا چوک سے ٹاؤن کے طرف جا رہی ہے، بے ساختہ گھڑی پر نظر پڑی، تو دیکھا پونے تین بج رہے تھے، دل میں خیال آیا، کہ رات کے اس پہر اس لڑکی کو کوئی خوف نہیں، کیونکہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، لیکن پھر اس سوچ نے سہارا دیا، کہ شام کا امن مثالی ہے، اور اس ملک کا شمار دنیا کے پر امن ترین ملکوں میں ہوتا ہے، یہاں آپ گھر سے کسی وقت بھی نکلیں، آپ کو کوئی خطرہ نہیں، اور خود ہی اپنے آپ سے کہنے لگا کہ آخری میں بھی ٹاؤن سے روٹی لینے ڈھائی بجے نکلا ہوں، اور ہاتھ میں چاقو تک بھی نہیں، کیونکہ پتہ ہے، کہ یہاں ہر طرف امن و آمان ہے، کوئی ڈر خوف نہیں، اور ساتھ یہ بھی سوچا، کہ یہ امن بھی کیا عظیم نعمت ہے، چاہے وہ جان و مال کے اعتبار سے ہو، یا غذائی امن ہو، اور فورا سورہ قریش کی آیتیں ذہن میں گردش کرنے لگیں، جن میں ارشاد پروردگار ہے:
" چونکہ (اللہ نے) قریش کو مانوس کر دیا۔ (1) یعنی جاڑے اور گرمی کے تجارتی سفر سے مانوس کر دیا ہے۔ (2) تو ان کو چاہیے کہ اس گھر (خانۂ کعبہ) کے پروردگار کی عبادت کریں۔ (3) جس نے ان کو بھوک میں کھانے کو دیا اور خوف میں امن عطا کیا۔"
اور پہلی بار شاید ایک نئے زاویے سے اس سورت کی سمجھ آئی، کہ بھوک سے نجات دلانا، اور خوف کو ختم کرکے امن و آمان کو فروغ دینا، اللہ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، اور اس نعمت کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوتا، جب تک یہ موجود ہوتی ہے، انہی سوچوں میں گم تھا، کہ گھر پہنچا، کھانا کھایا، کچھ دیر انتظار کیا، اور نماز صبح پڑھنے کے بعد نیند کے خمار کے سامنے ہمت ہار کر پتہ ہی نہیں چلا کہ کب سویا۔
یہ 2008 کا واقعہ ہے، کہ جب شام میں ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ تھا، ایک طرف کھانے پینے کی چیزیں وافر مقدار میں تھیں، اور ساتھ میں سستی بھی تھیں، تو دوسری طرف پورے ملک میں ایک مثالی امن تھا، اس امن کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دمشق شہر سے شام کے مشرقی شہر دیر الروز جاتے ہوئے رستے میں دسیوں کلو میٹر کی سڑک صحرا کے بیچ گزرتی ہے، جہاں نہ کوئی آبادی، نہ کوئی دکان، نہ بندہ نہ بندے کی ذات، لیکن امن کی یہ صورت حال تھی کہ آپ صحرا کے درمیان گاڑی کھڑی کرکے کچھ دیر کے لئے آرام کر سکتے تھے، اور آپ کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا۔
پھر یوں ہوا کہ ملک شام کو کسی حاسد کی نظر لگی، اور دیکھتے دیکھتے اس ملک کے گوش و کنار میں امن و آمان کا جنازہ نکالا گیا، ملک کے مختلف شہروں، قصبوں، اور دیہاتوں میں قتل و غارت، وحشت اور بربریت ننگا ناچ کرنے لگی، 2012 سے لے کر 2018 تک لاکھوں افراد یا تو قتل ہوئے، یا زخمی، یا پھر لاپتہ ہوئے، قصبوں کے قصبے اجڑ گئے، دیہاتوں کے دیہات ویران، اور شہروں کے شہر امن کا نوحہ پڑھنے لگے، جہاں کبھی رات کے 2 بجے جوان لڑکی گھر سے نکلتے وقت کوئی خوف محسوس نہیں کرتی تھی، وہاں ان چھ سالوں میں شام ڈھلتے ہی عورت تو دور کی بات مرد نکلنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے۔ ایک ہنستا بستا ملک دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے آنکھوں کے سامنے برباد ہو گیا۔
شام کی بربادی میں جہاں امریکہ، یورپ، اور بعض خلیجی ملکوں اور ترکی کا ہاتھ ہے، وہیں یہاں کی بعض عوام کا بھی اس تباہی اور بربادی میں بنیادی کردار ہے، کیونکہ جب امریکہ اور اس کے حواریوں نے دنیا کے 80 ملکوں سے دہشت گردوں کو اکٹھا کرکے انہیں شام بھیجنا شروع کیا، تو ان دہشتگردوں کو کسی بھی شہر یا دیہات میں داخل ہونے میں ان افراد کا بنیادی کردار رہا ہے، جو ان دہشتگردوں اور ان کے حامیوں کے پروپیگنڈے کی زد میں آئے، ان کی حکمت عملی یہ رہی، کہ شروع شروع میں کسی بھی علاقے میں داخل ہونے سے پہلے یہ لوگوں کو یہ یقین دلاتے، کہ وہ شامیوں کو ظالم حکومت سے نجات دلانے، اسلامی نظام کے نفاذ، اور دین خدا کی تبلیغ کرنے آئے ہیں، لہذا کافی لوگ یا تو ان کے پروپیگنڈے کے دھوکے میں آئے، یا ان سے خوفزدہ ہو کر ان کو آنے دیا گیا، یا پھر شامی حکومت سے بغض کی وجہ سے انہیں قبول کیا، کئی ایک قصبوں میں تالیاں بجا کر ان دہشت گردوں کا استقبال کیا گیا، ان پر چاول، گندم، اور پھول پھینک کر ان کے آنے کی خوشی منائی گئی، اور پھر ہوا یوں کہ ان دہشتگردوں نے حکومت اور فوج کے خلاف تو ویسے بھی محاذ آرائی کی، البتہ سب سے زیادہ نقصان انہوں نے ان لوگوں کو دیا، جنہوں نے ان کے آنے پر تالیاں بجائی، ان پر چاول، گندم اور پھول پھینکے، اور ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا، ان دہشتگردوں نے ان کے گھروں میں گھس کر ان کی عورتوں کی عزتوں کو پامال کیا، کسی کا گھر لوٹا، تو کسی کو گھر بدر کردیا، تو کسی کو قتل کیا، یا پھر انہیں زبردستی شامی حکومت اور فوج کے خلاف مزاحمت کرنے پر مجبور کیا۔
جن افراد نے اپنے دیہاتوں، قصبوں یا شہروں کے مرکزی چوکوں پر کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا، انہی کے جوان بچوں کو یا تو حکومت سے زبردستی لڑنے پر مجبور کیا، یا پھر انکار کی صورت میں انتہائی بربریت کے ساتھ انہی چوکوں میں مار دیا گیا، جہاں سکول تھے، انہیں ان خونی دہشتگردوں نے اپنی بربریت کا مرکز بنایا، اور پھر یہی لوگ مجبور ہوئے کہ حکومت کے ساتھ مصالحت کرکے فوج سے درخواست کریں، کہ وہ انہیں ان درندوں سے نجات دے، فوج نے دسیوں جگہوں پر کارروائی کرتے ہوئے ان دیہاتوں کو دہشتگردی سے تو خالی کیا، لیکن گھمسان کی جنگ لڑنے کی وجہ سے، یہ علاقے کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگے، وہی بستیاں، دیہات، قصبے اور شہر جہاں پہلے زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ خوشیاں بکھیر رہی تھی، اب انہی علاقوں میں تباہی و بردباری کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
شام کے اس المناک تجربے میں صاحبان عقل و ادراک والوں کے لئے نشانیاں ہیں، اس تلخ تجربے سے سیکھنے کی ضرورت ہے، خصوصا جبکہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد وہاں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے، ہماری حکومت اور خصوصا سرحدی علاقوں میں بسنے والی عوام کی یہ ذمداری ہے، کہ اگر طالبان افغانستان پر دوبارہ قبضہ کرتے ہیں، تو ان غلطیوں کو نہ دہرایا جائے، جو طالبان کے پہلے دور میں ہم سے ہوئی تھیں، اور پھر شام کا تجربہ آپ کے سامنے ہیں، اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے، متشدد فکر رکھنے والے یہ دہشت گرد تنظیمیں چاہے جتنا بھی اپنے آپ کو نرم خو، امن پسند، اور انسان دوست ظاہر کریں، یہ کبھی بھی تشدد، قتل و غارت اور بربریت سے باز نہیں آتے، لوگوں کے گھروں پہ قبضہ کرنا، ان سے ان کی مال و دولت چھیننا، ان کی عزتوں کو پامال کرنا، بے جرم و خطا قتل و غارت کرنا، اور زبردستی کرنا ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے، بہت مشکل ہے، کہ یہ اس وحشی پن اور بربریت کو چھوڑ کر امن کا پرچم بلند کریں، کیونکہ ایک تو جیسا عرض کر چکا، کہ یہ قتل و غارت ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے، دوسرا یہ کہ ان کا اختیار ان کے اپنے ہاتھوں میں نہیں، یہ عالمی سامراج، اور استکباری قوتوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں، اور انسان دشمن طاقتوں کا ایک ہی مقصد ہے، کہ ملکوں کے امن و امان کو تباہ کرکے ان کے وسائل کو لوٹو، اور کسی بھی ملک کی تباہی کے لیے ان سامراجی قوتوں کے پاس سب سے اہم ہتھیار یہی دہشت گرد تنظیمیں ہیں، جنہیں بقول ہیلری کلٹن کے خود امریکہ نے بنایا ہے، اور ان کی مالی معاونت بھی کی ہے۔
لہذا اسی تناظر میں وزیر اعظم عمران خان کا وہ بیان قابل تحسین ہے، جس میں انہوں نے طالبان کے قبضے کی صورت میں سرحد بند کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے، کہ اپنے گھر کو محفوظ بناو، تاکہ پڑوسیوں پر چوری کا الزام لگانے کی نوبت نہ آئے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے، کہ ہمیں اپنے وطن عزیز اور اپنی عوام کی حفاظت کو اولین ترجیح دینا چاہیے، اور ان دہشت گردوں کی کسی بھی بات پر اعتماد کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچنا چاہیے، اور داخلی طور پر بھی ان قوتوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے، جو ان دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، یہ قوتوں ویسے تو بظاہر محدود ہوتی ہیں، لیکن اگر ان کا بر وقت علاج نہ کیا جائے، تو پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے، کہ ہم ہزاروں جوانوں کی لاشیں اٹھاتے ہیں، اور اپنے ملک کے امن و امان کو ان مٹھی بھر دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
وطن عزیز میں اگرچہ ہوشربا مہنگائی ہوئی ہے، البتہ امن و آمان کی صورت حال کافی بہتر ہے، جو کہ ایک نعمت ہے، حکومت، امن و امان برقرار رکھنے والے ادارے اور عوام کی ذمداری ہے، کہ وہ اس نعمت کی حفاظت کریں، اور اسے مزید قوت اور استحکام بخشیں، تاکہ ہمارے ساتھ وہ کچھ نہ ہو، جو شامی، عراقی، افغانی، اور لیبیا کی عوام کے ساتھ ہوا۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔