حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،یوم خواتین کی مناسبت سے تحریک حسینہ پاکستان اور ادارہ منہاج الحسینؒ جوہر ٹاون لاہور کے سربراہ علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے کہا کہ طول تاریخ میں عورت ظالم بھی رہے اور مظلوم بھی ، خاص طورپر دور جاہلیت میں تو اس کی مظلومیت تمام حدود کو عبور کرگئی تھی حالت یہاں تک آ پہنچی تھی کہ پیدا ہوتے ہی اسے زندہ درگور کردیاجاتا تھا ۔ باقاعدہ ان کی خریدوفروخت کی منڈیاں اور بازار سجتے تھے ۔ لیکن اسلام نے عورت کو نہ صرف عزت و وقار کی انتہائی بلندیوں تک پہنچایا بلکہ اسے ماں باپ کیلئے رحمت اولاد کیلئے جنت اور شوہر کیلئے نصف ایمان کی محافظہ بنانے کے ساتھ ساتھ حق ملکیت ، تجارت ، کاروبار اور حجاب جیسی نعمت سے سرفراز کرکے اوج ثریا تک پہنچا دیا۔ لیکن اسلام کی روشنی جس نے ظلم و جور کی تاریکیوں کو ختم کردیا تھا ملوکیت اور عالمی استعمار نے اسے آج پھر دور جاہلیت سے بھی بہت آگے ظلمت اور تاریکیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پھینک دیا ہے اور آج کا دور جسے انسان اپنے طورپر ترقی یافتہ اور روشن فکری کا دور کہتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ عورت کے استحصال کا دروازہ پہلے سے کہیں عجیب انداز میں کھلا ہوا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ عورت ہر پروڈکٹ کا عریاں اشتہار بنی ہوئی فخر محسوس کرتی ہے ہے۔ مردوں کے برابر حقوق مانگ کرگھر کی چاردیواری کے اند ر اپنی عزت، عفت اور ناموس کی حفاظت کے ساتھ دنیا کی تمام تر ضروریات اپنے قدموں میں حاصل کرنے کی بجائے گھر سے باہر نکل کر فتنوں ، قتل و غارت اور وڈیروں ، سرمایہ داروں ، صنعتکاروں کی خواہشات اور خدمت گاری کو اپنے لئے عزت اور شرف تصور کرکے اسلام کی مخدرات عصمت بیبیوں ازواج مطہرات رضوان اللہ علیھن اور خانوادہ اہلبیت اطہار ؑ کی عظیم مرتبت بیبیوں بالخصوص سیدہ طیبہ طاہرہ صدیقہ کبریٰ بضعۃ الرسول حضرت فاطمہ زہرا ء علیہا السلام کے کردار کو اپنا آئیڈیل بنانے کی بجائے آج کی دنیا کی بدقماش اور بدکردار عورتوں کو آئیڈیل بناکر ذلت اور رسوائی کے تاریک گڑھوں میں جا گری ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ گھر کے اندر ایک شوہر اور اولاد کی خدمت سے تنگ دن بھر میں ہزاروں نامحرم مردوں کی خدمت پر راضی رہنا پسند کرتی ہے اور ایسے لباس اور وضع قطع میں گھر سے نکلتی ہے گویا حضرت علی علیہ السلام کے اس فرمان کی عملی تفسیر بن چکی ہیں جو آپ علیہ السلام نے بطور پیشین گوئی ارشاد فرمائی تھی کہ ’’عنقریب لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں عورتیں لباس تو پہنیں گی لیکن عریاں ہوں گی ، دنیا کے ہر فتنہ و فساد میں حصہ دار ہوں گی ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں جائیں گی اور مردوں کو مخاطب کرکے آپ ؑ نے ارشاد فرمایا: تم بری عورتوں کے شرسے تو بچو ہی سہی بلکہ جو نیک ہیں ان سے بھی محتاط رہو، تم اچھے کاموں میں بھی بے سوچے سمجھے اور حد سے زیادہ ان کی فرمانبرداری نہ کرو تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو برائی میں بھی اسیر نہ کرلیں۔
اے لوگو !تم عورتوں کو راز دار نہ بنائو اور نہ ہی مال ودولت کی حفاظت کی انہیں ذمہ داری سونپو اور نہ ہی گھر یلو امور میں سب کچھ ان پر چھوڑ دو کیونکہ اگر انہیں چھوڑ دیا جائے تووہ نا چاہتے ہوئے بھی تباہیوں میں ڈال دیں گی اور مملکتوں کو تباہ وبرباد کردیں گی ہم نے انہیں ایسا پایا ہے کہ وہ اپنی خلوتوں میں بے دینی ،اپنی شہوتوں میں بے صبری اور اپنی ضرورتوں میں بے تقوائی اختیار کرلیتی ہیں ان کے ساتھ لذت آسان اور حیرت زدہ ہے ، تکبر ان کی سرشت میں داخل ہے خواہ بوڑھی ہی کیوں نہ ہوجائیںاور غرور خود بینی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے خواہ وہ کتنی ہی عمر رسیدہ کیوں نہ ہوں، ان کی خوشی ان کی شرمگاہوں میں ہے اور اگر انہیں تھوڑی چیز نہ دی جائے تو وہ کثیر چیزوں پر بھی شکرگزار نہیں ہوتیں، خیر اور اچھائی اور نیکی کو بھول جاتی ہیں، شر اور برائی کو یاد رکھتی ہیں، الزام تراشی میں پیش قدم ہوتی ہیں ان میں یہودیوں والی تین خصلتیں پائی جاتی ہیں۔
۱۔مظلوم بنتی ہیں جبکہ خود ظالم ہوتی ہیں۔ ۲۔قسمیں کھاتی ہیں جبکہ جھوٹی ہوتی ہیں۔ ۳۔روکتی ہیں جبکہ خود رغبت رکھتی ہیں۔
بہرحال ان کے ساتھ مدارات کرو ان کے ساتھ ا چھی گفتگو کرو شاید نیکی کی راہ پر چل پڑیں۔
اسی طرح دانشوروں کا قول ہے اگر ایک عورت اپنے آپ کو اسلام کے صحیح نورانی سانچے میں ڈھال لے تو پورا معاشرہ گلستان کا منظر پیش کرے گا۔ ایک عورت کی صحیح تربیت تین خاندانوں کی اعلیٰ تربیت کی ضامن ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کی عورتوں کیلئے بالعموم اور مسلمان خواتین کیلئے بالخصوص حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لخت جگر حضرت فاطمہ زہرا ء علیہا السلام جن کا آج یوم ولادت ہے کی سیرت اور کردار ہر حوالے سے آئیڈیل اور مثالی کردار ہے۔ آپ علیہا السلام کو آنحضرت ؐ نے مومنات کی اولین و آخرین جنتی عورتوں کی سیدہ و سردار قرار دیا ہے ۔
اس دنیا میں اگر عورتوں نے فرعون نمرود شیداد قارون جیسے ظالموں اور طاغوتوں کو جنم دیا ہے ‘انبیاء اولیاء اوصیاء نے بھی اسی عورت کی طیب و طاہر کوکھ سے جنم لیا ہے ۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان دشمن ایک مرتبہ پھر وطن عزیز کی پر امن فضائوں کو قتل و غارت ، بم بلاسٹنگ اور خودکش حملوں کی آگ میں لپیٹنے پر تل چکے ہیں اسلام آباد ، لاہور ، ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ اور دیگر شہروں کے حالیہ واقعات نے پور ی قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور وزیرداخلہ نے اگرچہ تمام صوبوں اور سیکیورٹی کے اداروں کو ہائی الرٹ جاری کردیا ہے اور اپنے تائیں گویا کہ اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوگئے ہیں ‘قوم اور پاک افواج نے اسی ہزار سے زیادہ قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے بڑی مشکل سے ملک و امن و سلامتی کا گہوارہ بنایا لیکن ہمارے مشرقی اور مغربی سرحد متصل دشمنوں سمیت ان تمامتر پرامن کوششوں پر پانی پھیرنے کیلئے خودکشی اور قتل و غارت ٹارگٹ کلنگ بے گناہ افراد کی گمشدگی جیسے گھنائونے جرائم کا دوبارہ سلسلہ شروع کردیا ہے اگرچہ حال ہی میں پاکستان کی سکیورٹی کے اداروں نے مشترکہ اجلاس کرکے حالات کو باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور یقینا لائحہ عمل بھی تیار کیا ہے لیکن اس کے باوجود عوام پاکستان کو بالعموم اور خاص طورپر مذہبی سیاسی تجارتی اجتماعات کے مقامات کے مکینوں کو اپنے طورپر بھی سکیورٹی پر بھرپور توجہ دینی چاہیے ۔
اسی طرح کرونا کی ایک خطرناک ترین لہر نے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے ۔ لہٰذا صفائی و نظافت اور ایس او پیز کو پہلے سے زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے گھروں دفتروں سمیت مساجد اور امام بارگاہوں سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں دینی مدارس کی انتظامیہ کو بھی ماسک ، سینی ٹائزر اور دیگر حفاظت صحت کے قواعد و ضوابط پر عمل کو یقینی بنا ناچاہیے۔ اور اپنے رب کے حضور گڑ گڑا کر گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے ۔ اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرما کر ہمیں ان وبائوں سے نجات عطا فرمائے۔