تحریر: محمد رضا مبلغ جامعہ امامیہ
حوزہ نیوز ایجنسی | انسان کا اپنی اولاد، اعزا و اقرباء، خاندان اور قوم کے لئے نمونہ عمل ہونا اس معنٰی میں ہے کہ اس کا ہر فعل، ہر کام ان سب کے لئے حجت قاطعہ اور واضح دلیل کی حیثیت رکھتا ہے ۔گویا ان افراد کا اپنا ذاتی کوئی فعل،عمل اور سیرت نہیں ہوتی بلکہ اس شخصیت کی سیرت کے سائے میں اپنے کاموں کو انجام دیتا ہےجس کی وہ پیروی کرتاہے اور اسے اپنے ہر کام میں آئیڈیل اور نمونہ سمجھتاہے۔ہر وہ انسان جس کے پیچھے اتنا بڑا قافلہ اس کے نقش قدم پر اپنے قدم کو رکھکر آگے بڑھ رہا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے کسی قدم کو اس راستے پر نہ لے جائے جو راستہ اسے اور اس کی اقتداء کرنے والے لوگوں کو گمراہیوں کی دلدل میں پہنچاکر انھیں منزل سے دوراور مقصد حیات سے بے بہرہ بنادے۔
ہر صاحب منزلت انسان اپنے ماتحت افراد کے لئے’’ نمونۂ عمل‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔حاکم اپنی رعایا کے لئے،پیش نماز مامومین کے لئے،خطیب اور ذاکر سامعین کے لئے اور والدین اپنی اولاد کے لئے’’ نمونۂ عمل‘‘ ہیں۔لہٰذا ان اعلیٰ مرتبت صاحبوں اور صاحب منزلت عہدہ داروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا ہر کام یہ بات ذہن میں رکھکر انجام دیں کہ ان کا ہر کام ان کے تابعین کے لئے آلۂ تربیت ہے اس طرح کہ اگر صحیح کام انجام دیں گے تو ان کی صحیح تربیت عمل میں آئے گی لیکن اگر غلط کاموں کی طرف رخ بھی کریں گے تو ان پیرو کاروں کے لئے نشان تربیت دھندھلے ہی نہیںہوں گے بلکہ گمراہی کی ایک کھائی بن جائیں گے۔جو زمانہ کے لئے ’’زہر ہلاہل ‘‘سے کم نہیں ۔
یہ تو محدود ،مقدور اورغیر معصوم دنیاوی عہدہ داروں کی بات تھی ۔اگر بات کو خاکی عہدہ داروں سے نکال کر نوری ذوات مقدسہ تک لے جا یا جائے تو سب کے سب غیر محدود ،غیر مقدوراور ازل سے ابد تک پیدا ہونے والی ساری مخلوق کے لئے مربی اور ان کا ایک ایک فعل ہی نہیں بلکہ حرکات و سکنات بھی مشعل راہ کی حیثت رکھتے ہیں۔
امامت ورہبری میںنہ ان کا کوئی بدیل ہے نہ ان سے زیادہ کوئی حقدار،اولاد کی تربیت اور قوم کی رہبریت میں وہ مثال آپ تھے۔ان کا کوئی بھی عمل ایسا نہیں تھا جس سے ان کی اولاد ،اعزاء واقرباء،خاندان ،چاہنے والے اور پوری دنیا کے انسان ایک لمحہ کے لئے بھی گمراہی کے اندھیرے میں چلے جائیں بلکہ ان کے دہن مبارک سے نکلے ہوئے ہر ہر لفظ میں اتنی نورایت تھی کہ وہ ظلمات میں بھٹکے ہوئے انسان کو ہدایت کی روشنی میں لانے کے لئے کافی ہیں چہ جائیکہ ان کے اعما ل وافعال۔؟
قرآن کریم میں نبی سے اپنے گھر والوں کو انذار کی ہدایت دی گئی جس سے صاف ظاہر ہے کہ گھر کا ماحول جب تک نو رانی اور قابل تاسی نہ ہو باہر والوں پر بات کا اثر کم ہوتا ہے ۔اسی حکم پر عمل کرتے ہوئے نو رانی ہستیوں نے اپنے گھر پر اپنی تربیت کے وہ نقش چھوڑے جن کی مثال اور نظیر نہیں۔
آپ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت کو ہی بغور دیکھ لیں کہ آپ نےاپنے بچوں کی اس طرح تربیت کی کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے زمانے میں ایک تاریخ رقم کی۔اور تاریخ کے گھٹا ٹوپ اندھیرےمیںدین کی صورت نور کے منارے کھڑے کردئیے۔فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایسی مربیہ تھیں کہ آپ نے ایک چھوٹے سے حجرے اور بوسیدہ مکان میں رہکر اپنے بچوں کی ایسی تربیت کی کہ ان کی سیرت وکردار کا نور زمین کے تحت الثریٰ سے چمکتا ہوا اوج ثریا پر پہونچ کر عالم انسانیت ونسوانیت کی تربیت کررہاہے۔
جو عمر تربیت پانے کی ہوتی ہے اس عمر میں سیدۂ کونین سلام اللہ علیہا اپنے بچوں کے لئےایک اچھی مربیہ بھی تھیں اورقیامت تک آنے والوں کے لئے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ بھی۔تاریخ میں فاطمہ کا انداز تربیت ملتا ہے:آپ حسنینِ کریمینؑ کو دن میں سلادیتی تھیں تاکہ شب قدر میں رات بھر جاگ سکیں اور عبادت الٰہیہ کرسکیں،مسجد سے گھر واپسی پر جناب فاطمہ زہرا کا بچوں سے رسول اکرم ؐ اور علی مرتضیٰؑ کے بیان اور دینی پیغامات کو پوچھتی تھیں یہ بھی تربیت کاایک انوکھا اور نرالا انداز ہے۔افطار کے وقت مسکین،یتیم اور اسیر کو روٹی دینے میں پہل کرنا اور ان کی پیروی کرتے ہوئے حسنینؑ کا اپنی روٹیاں بھی راہ خدامیں دے دینا اس میں بھی جناب سیدہ نے اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ عالم انسانیت کی مائوں اور بچوں کی تربیت کا بہترین طریقہ سکھادیا۔رسول نے جب پوچھا کہ عورت کا بہترین زیور کیا ہے؟اس کے جواب میں یہ کہنا کہ عورت کا بہترین زیور یہ ہے کہ نہ اسے کوئی نامحرم دیکھے نہ ہی وہ کسی نامحرم کو دیکھے اس جملے میں بھی آپ نے قیامت تک کے مردوزن کے لئے تربیت اور حیا داری کا بہترین اصول بیان کرنے کے ساتھ ساتھ سماج میںعورت و مرد کے ذریعہ پھیلنے والی برائیوں سے بچنے کا نسخہ بھی بیان کر دیا ۔
آپ کا ایک لقب ام الائمہ بھی ہے اور یہ محض اعزازی اور لفظی لقب نہیں بلکہ اس میںتربیت حضرت زہرا ؐ کا نقش آویزاں ہے۔آپ کی شہادت کے 200 سال سے بھی زیادہ عرصہ کے بعد منصب امامت پر فائز ہونے والے امام حسن عسکری ؑ نے فرمایاکہ ہم خلق خدا پر حجت ہیں اور ہماری جدہ ہمارے اوپر حجت ہیں۔زمانے کے امام حضرت ولی عصر ؑ نے فرمایا : میرے لئے بنت پیغمبر ؐ اسوۂ حسنہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔صاف ظاہر ہے کہ حضرت زہرا صرف اور صرف عورتوں کے لئے ہی نہیں بلکہ عالم انسانیت کے لئے اسوہ ٔ حسنہ ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمارے ائمہ علیہم السلام نے اپنی جدہ کے نقوش تربیت کو اپنے لئے اسوہ نہ بتایا ہوتا۔
امام خمینی ؒ نے فرمایا:ممکن ہے کہ کوئی ماں اپنے بچے کی اس طرح تربیت کرے کہ وہ امت کو ہلاکت سے بچاکر نجات کی طرف لے آئے اور کوئی ماں ایسی تربیت کرے کہ وہ بچہ اپنی قوم کو ہلاکت میں ڈال دے۔جہاں تک ہلاکت سے نجات کا سوال ہے تو اس کا نمونہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت میں دیکھنے کو ملتا ہے آپ اپنی اولاد کی تربیت اس حیثیت سے نہیں کررہی تھیں کہ وہ آپ کی اولاد تھیں۔بلکہ وہ اپنی اولاد کو دین کا خدمت گذار اور قوم کی رہبری کے لئے تیار کرر ہی تھیں۔یہ آپ کی تربیت کا ہی اثر تھا کہ ایک بیٹے نے سید الاوصیاء کے بعد امامت کو سنبھا لا اوردین خدا کے لئے صلح ومصالحت کرکے امت کو فساد و ہلاکت سے بچا لیا،تو دوسرے بیٹے نے امامت ورہبری اور دین خدا کی بقاء کے لئے گلے کو کٹا دیا اورزیر شمشیر ستم زخمی لبوں سے بھی امت کو دعا دیتے رہے اور ان کی سعادت وکامرانی کی دعا کرتے رہے۔وہیں دوسری طرف ایسی مائوں کی خراب تربیت بھی ہماری نظروں کے سامنے ہے کہ ایک جگر خوار کا بیٹا بنام دین خلافت الھیہ جیسے پاکیزہ منصب کو ملوکیت و بادشاہت کی طرف لاکر نظام الھی کا مذاق بنا رہا تھا،ایک نجس آغوش کا پر و ردہ، انکار وحی اور رقص و مئے خواری کے ذریعہ احکام الھی کو روند کر دین مسخ کرنے پر تلا تھا۔ مگر لاکھوں سلام اس ماں کی پاکیزہ آغوش و تربیت پر جس کے ایک لال نے مسموم ہوکر اور دوسرے نے سرخ لباس شہادت زیب تن کر کے دین محمد ؐ کو بچا لیا ۔
ماں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ یہ بات ذہن میں رکھکر بچے کی تربیت کرے کہ یہ بچے ہی قوم کا مستقبل ہیں۔اگر کسی ماں نے اپنے بچے کی تربیت صحیح انداز سے کردی تو گویا اس نے پوری قوم کو نجات یافتہ بنادیا اور اگر بدبختی سے کسی ماں نے اپنے بچے کی تربیت صحیح نہیں کی تو اس نے پوری قوم کی زندگیاں چھین لی۔
لہٰذا بچوں کی تربیت کو تمام کاموں پر فوقیت دینا چاہئے ہ۔مائیں چاہیں تو وہ اسی قوم کا مستقبل روشن کرسکتی ہیں اور اگر چاہیں تو اس قوم کا مستقبل تاریک کرسکتی ہیں ۔لہٰذا عورتیں اپنے آپ کو یا کوئی بھی انسان ان عورتوں کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھے۔ اس لئے کہ قوم کا مستقبل انہیں مائوں کے ہاتھوں میں بند ہے۔
تربیت سے پہلے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی پاکیزہ ترین زندگی کا مطالعہ مائوں پر فرض ہے ۔
اقبال نے کیا خوب کہا تھا:
مزرع تسلیم را حاصل بتولؑ
مادراں را اسوۂ کامل بتول ؑ
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔