۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
ایڈوکیٹ عاشق علی فردوس

حوزہ/ اسلام عورت کو انسانی زندگی کا محور گردانتا ہے اس لیے نمونہ عمل کے طور پر جناب سیدہ سلام اللہ کا کردار اس بات کا گواہ ہے کہ فاطمہ ؑ کی اولاد جیسی اولاد کائنات میں کسی کی نہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اگر کوئی خاتون اپنی زندگی کو سنوارنا چاہتی ہے تو فاطمہ زہرا سے بڑھ کر کوئی نمونہ عمل نہیں مل سکتا، جو اتنا کامل ہو کہ ہر کسی کی سعادت کی ضمانت دے سکے، اس بات کا اظہار ایڈوکیٹ عاشق علی فردوس سانکو کرگل لداخ نے روز خواتین و روز مادر کے عنوان سے اپنے ایک بیان میں کیا۔

انہوں نے کہا کہ سرکار دوعالم نے دنیا کو بتایھ کہ میں جو کچھ ہوں فاطمہ بھی اس کا حصہ ہیں۔ اگر میں رسول ہوں تو فاطمہ بھی میری رسالت میں شامل ہیں اگر میں رحمة اللعالمین ہوں تو فاطمہ بھی سیدة نساء العالمین ہیں، اگر میں مردوں کے لیے نمونہ عمل ہوں تو فاطمہ بھی خواتین کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ ہمیں رسول اسلام کی تاریخ زندگی میں یہ نہیں ملتا کہ آپ نے باہر سے آنے والے کسی فرد کو اپنی جگہ پر بٹھایا ہو ، ہاں بیشک یہ کرتے تھے کہ آنے والے مہمان کی تعظیم کرنے کے لیے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے تھے لیکن کھڑے ہونے کے بعد کسی کو اپنی جگہ پر نہیں بٹھایا لیکن یہ فاطمہ زہرا کا مقام ومنصب تھا کہ جب بھی آپ رسول اسلام کی خدمت میں تشریف لاتی تھیں رسول اسلام اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے تھے اور فاطمہ زہرا کو وہاں بٹھاتے تھے ، کیونکہ وہ مقام نبوت اور مقام رسالت ہے اس مقام پر یا نبی رہ سکتا ہے یا وہ جو نبی کا شریک کار ہو۔

انکا کہنا تھا کہ رسول اسلام کے اس رفتارو عمل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا کی شان ومنزلت خدا اور اس کے رسول کے نزدیک بہت بڑی ہے جو ان کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کر رہے ہیں کیونکہ رسول کا ہر قول اور فعل خدا سے منسوب ہوتا ہے وہ جو بھی کام یابات کرتے ہیں وہ خدا کی اجازت سے کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ یعنی ہمارے رسول اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں کہتے وہ جو کچھ کہتے ہیں وحی کے مطابق گفتگو کرتے ہیں۔حضرت فاطمہ زہرا کی عظمت کے لیے یہ کافی ہے کہ امام محمد باقر کی ایک حدیث ان کے بارے میں ہے کہ ہم خدا کی جانب سے خدا کی مخلوقات پر حجت ہیں اور ہماری ماں فاطمہ زہرا ہم پر حجت ہیں۔ پس فاطمہ زہراؑ تمام عورتوں کے لیے نمونہ عمل ہیں۔اگر کوئی خاتون اپنی زندگی کو سنوارنا چاہتی ہے تو فاطمہ زہرا سے بڑھ کر کوئی نمونہ عمل نہیں مل سکتا جو اتنا کامل ہو کہ ہر کسی کی سعادت کی ضمانت دے سکے۔

مزید کہا کہ آج ہمارے معاشرے میں ہر طرف برائی ہی برائی نظر آتی ہے اور انفرادی برائیوں کے علاوہ اجتماعی برائیاں بھی نظر آرہی ہیں۔ انفرادی گناہ کا ذمہ دار تو وہی شخص ہوگا جس نے گناہ انجام دیا ہے لیکن اجتماعی گناہوں میں صورتحال مختلف ہے۔ اجتماعی برائی کو ختم کرنے کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو کوشش کرنی پڑے گی کیونکہ یہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ اس لحاظ سے خواتین کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ایک معاشرے کی تربیت وپرورش کریں کیونکہ ہرانسان ماں کی گود سے ہی دنیا کو دیکھتا ہے اور ماں کی تربیت کے حساب سے ہی وہ اپنی زندگی میں قدم بڑھاتا ہے۔ ماں کی گود میں صرف ایک بچہ نہیں ہوتا بلکہ یہ آئندہ کا ایک مکمل خاندان ہوتا ہے ۔اگر ماں چاہے تو اس خاندان کی اچھی تربیت کرکے معاشرے کو اچھے افراد فراہم کرسکتی ہے۔

انہوں نے یہ اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسی لئے حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ یعنی جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔اس سے دو چیزیں سامنے آتی ہیں ، ایک یہ کہ اولاد کو بتایا جائے کہ ماں کی عظمت خدا کے نزدیک بہت زیادہ ہے۔ اگر کوئی بچہ جنت حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی ماں کی پیروی کرے اور ماں کی خدمت کرے کیونکہ اکثرانسانوں کی انتہائی کوشش جنت کیلئے ہی ہوتی ہے اور جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے لہذا ہمیں آگے پیچھے بھٹکنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے گھر میں ہی جنت موجود ہے اور وہ بھی سب سے پیاری اور محترم ذات، ماں کے قدموں کے نیچے لہذا ماں کا کہنا ماننا چاہیے اور اس کی کہی ہوئی باتوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے تاکہ جنت حاصل کی جاسکے۔

جنت کا ملنا اور نہ ملنا ماں کے ہاتھوں میں ہے

انہوں نے کہا کہ ہمیشہ نڈر ،بے باک، سچی اور بہادر ماں ہی نڈر اور بے باک، صاف گو اور بے مثال اولاد کی پرورش کر سکتی ہے اس لیے اسلام حقوق نسواں کے بارے میں بھی زور دیتا ہے۔ اسلام امن و محبت کے ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کو احترام دینے کا قائل ہے لیکن ساتھ ہی امر بالمعروف نہی المنکر کا بھی حکم دیتا ہے۔

آخر میں کہا کہ اسلام عورت کو انسانی زندگی کا محور گردانتا ہے اس لیے نمونہ عمل کے طور پر جناب سیدہ سلام اللہ کا کردار اس بات کا گواہ ہے کہ فاطمہ ؑ کی اولاد جیسی اولاد کائنات میں کسی کی نہیں۔ انسان کی عزت، عورت کی عزت، برائی کی نشاندہی، اچھائی کی ترغیب، عائلی زندگی میں عورت و مرد کا کردار، مظلوم کی حمایت اور ظالم کو آشکار کر کے کیفر کردار تک پہنچانا آل فاطمہ کا شیوہ ہے۔ یہ تمام اسوہ و ہ خاتون ہی اپنی اولاد میں منتقل کر سکتی ہے جو اپنی ذات میں مجسم اطاعت گزار احکام خدا وندی ہو۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .