۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا کوثر عباس قمی

حوزہ/ فاطمہ سلام اللہ علیہا کیا ہیں ؟..اگر آپ کو  محض پیغمبر اکرم کی بیٹی ہونے کی حیثیت سے یا ایک عام انسان کے عنوان سے جاننا چاہیں گے تو کبھی بھی آپ سیدہ کونین کی معرفت حاصل  نہیں کر  پائیں گے صرف اسی صورت میں آپ کی کسی حد تک معرفت حاصل ہو سکتی ہے جب ہم  اس زاویے نظر سے دیکھیں کہ خداوند متعال اور  نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک آپ کا کیا رتبہ و مقام و منزلت ہے، اگر یہ معلوم ہو جائے تو اس وقت بہت سے اعتقادی اور تاریخی مسائل حل ہو جائیں گے۔

تحریر: مولانا کوثر عباس قمی

حوزہ نیوز ایجنسی। فاطمہ سلام اللہ علیہا کیا ہیں ؟..اگر آپ کو محض پیغمبر اکرم کی بیٹی ہونے کی حیثیت سے یا ایک عام انسان کے عنوان سے جاننا چاہیں گے تو کبھی بھی آپ سیدہ کونین کی معرفت حاصل نہیں کر پائیں گے صرف اسی صورت میں آپ کی کسی حد تک معرفت حاصل ہو سکتی ہے جب ہم اس زاویے نظر سے دیکھیں کہ خداوند متعال اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک آپ کا کیا رتبہ و مقام و منزلت ہے، اگر یہ معلوم ہو جائے تو اس وقت بہت سے اعتقادی اور تاریخی مسائل حل ہو جائیں گے۔

سب سے پہلے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کا نور اقدس کس طرح عرش سے فرش پہ منتقل کیا گیا رب ذوالجلال نے نبی وعلی کا نور جبین حضرت آدم میں رکھا اور پھر تقلب فی الساجدین کی آیت کے مصداق یہ نور مقدس اور سجدہ کرنے والی جبینوں سے سفر کرتا ہوا جبین حضرت عبد المطلب میں پہنچ کے دو حصوں میں تقسیم ہوا ایک جبین حضرت عبداللہ میں منتقل ہوا جو صدف عصمت حضرت آمنہ کے ذریعے ظہور پزیر ہوا اور محمد ص کہلایا دوسرا جبین حضرت ابو طالب میں منتقل ہوا اور صدف عصمت حضرت فاطمہ بنت اسد کے ذریعے ضو فشاں ہوا اور علی کہلایا،مگر واہ رے نور سیدہ عالمین فخر مریم خدا نے نور سیدہ معراج کی شب مستقیما" ایک جنتی سیب کے ذریعے جبین محمد مصطفیٰ میں منتقل کیا۔

نبی کریم نے فرمایا فاطمہ حوراء انسیہ ہیں یعنی انسانی شکل میں آسمانوں سے اتاری گئی نورانی حور
پوچھنے والوں نے پوچھا یا رسول الله ھمیں سمجھائیے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی فرشتہ کی مثل ہو اور انسان بھی ہو
فاطمہ زہراءؑ در حقیقت حوراء بھی ہوں اور انسان بھی ؟ آخر یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟۔۔۔

پیغمبرِ اسلامؐ نے فرمایا: جبرائیلؑ نے جنت سے ایک سیب لا کر مجھے ہدیہ دیا اور کہا؛ اے محمدؐ! اس سیب کو تناول فرما لیجئے۔

میں نے پوچها:
اے میرے دوست! یہ سیب کس کی طرف سے ہدیہ ہے؟
حضرت جبرائیل نے کہا:
حکم خدا ہے اسے کھا لیجئے.
پس میں نے اسے کاٹا تو اس سے ایک نور چمکا، میں اس نور کو دیکھ کر حیران ہوگیا.
جبرائیلؑ نے کہا: کھا لیجئے "فان ذالک نور المنصورۃ فاطمۃ"* یہ فاطمہؑ منصورہؑ کا نور ہے.
میں نے پوچھا:
منصورہ کون ہے؟
جبرائیلؑ نے کہا:
آپ کی بیٹی ہے کہ جن کا نام آسمانوں میں منصورہؑ اور زمین پر فاطمہؑ ہے.
انہیں آسمان میں منصورہؑ اور زمین پر فاطمہؑ کیوں کہتے ہیں؟
کہا:
زمین پر فاطمہؑ ہیں. کیونکہ ان کے پیروکار آتش جہنم سے نجات یافتہ ہیں اور ان کے دشمن ان کی محبت سے دور ہوگئے. اسی طرح اس آیہ کریمہ کی روشنی میں.."ویومئذ یفرح المومنون بنصر اللہ" (سورةروم،آیت:4و5)
آسمان میں انہیں منصورہ کہتے ہیں۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے جب نبی کریم ص سے شادی کر لی تو آپ کی سہیلیوں نے آپ سے قطع تعلق کر لیا کہ آپ نے ملیکہ العرب ہو کے ایک یتیم سے شادی کر لی
آپ جب گھر میں تنہا ہوتیں تو نبی کریم کو یہ دیکھ کے قلق ہوتا اور آپ فرماتے خدیجہ میرے ساتھ شادی کی وجہ سے آپ کی سہیلیوں نے آپ سے قطع تعلق کر لیا ہے آپ کو گھر میں وحشت محسوس ہوتی ہو گی ، تنہائ کا احساس ہوتا ہو گا؟
جناب خدیجہ نے فرمایا نہیں یا رسول اللہ میرے بطن میں جو بچہ ہے وہ مجھ سے تنہائی میں باتیں کرتا ہے اور جب مجھ سے باتیں نہ کررہا ہو تو مجھے اس کی تسبیح کی آواز آتی رہتی ہے۔
آپ مسکرائے اور فرمایا بہت خوب مگر خدیجہ آپ کے بطن اقدس میں بیٹا نہیں بلکہ وہ "محدثہ "بیٹی ہے
(ولسوف یعطیک ربک فترضی' کی مصداق ہے) جس کے ذریعے خدا میری نسل بڑھائے گا اور جس کی اولاد میں سے 11 قیامت تک میرے دین کے محافظ ہوں گے اور ان کا آخری میرا ہم نام ہو گا جس کا لقب مھدی ہو گا۔

یہ عظمت زہرا ہی تو تھی کہ آپ کی ولادت کے وقت جناب حضرت خدیجہ کے پاس حضرت حوا حضرت مریم حضرت آسیہ اور حضرت کلثوم استقبال کے لیئے موجود تھیں
خداوند متعال نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بتول بنا کے بھیجا یعنی سیدہ نے زندگی میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں دیکھا کہ جس طرح عام خواتین پر مہینے میں کچھ دن نماز روزے کا وجود ساقط ہو جاتا ہے،آپ سے بھی ساقط ہوا ہو،نہیں ہرگز نہیں۔ مستند روایات میں ہے کہ آپ نے حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت کے بعد نماز ادا کی
احادیث کی کتابوں میں عظیم صحابی حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری سے بھی ایک روایت نقل ہے کہ جسے آپ نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ:

قال الصدوق حدثنا أبـى حدثنا محمد بن معقل القرمسينـى ، عن محمد بن زيد الجزرى ، عن إبراهيم بن إسحاق النهاوندى، عن عبد الله بن حماد ، عن عمرو بن شمر، عن جابر، عن أبي عبد الله قال: «قلت له لِمَ سمّيتَ فاطمة الزهراء زهراء ؟ فقال لأنّ الله عزوجل خلقها من نور عظمته فلما أشرقَتْ أضاءَت السماوات و الأرض بنورها و غشيت أبصار الملائكة و خرّت الملائكة ساجدين و قالوا: إلهنا و سيدنا ما لهذا النور فأوحي الله إليهم هذا نور من نورى أسكنته فـى سمائى خلقته من عظمتـى أخرجه من صلب نبی من أنبيائى أفضله علی جميع الأنبياء و أخرج من ذلك النور أئمة يقومون بأمری يهدون إلى حقى و اْجعَلهم خلفائى فـى أرضى بعد انقضاء وحيى۔

امام صادق (ع) سے عرض کرتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا کو کیوں زہرا کہا گیا ہے ؟
( یہ بھی واضح ہو کہ روایات میں نقل ہے کہ خدا کے نزدیک حضرت زہرا کے نو اسماء ہیں ،کہ یہ خود اپنی جگہ ایک بہت ہی اھمیت کی حامل بات ہے ؛ لیکن ابھی سوال یہ ہے کہ ان ناموں میں سے ایک نام زہرا کیوں ہے ؟)

حضرت نے جواب میں فرمایا کہ : لان اللہ عزوجل خلقہا من نور عظمتہ… خداوند نے حضرت فاطمہ زہرا کو اپنے نور کی عظمت سے خلق فرمایا ہے، پیغمبر اکرم اور امیر المؤمنین کے بارے میں بھی ہے کہ ان کی خلقت خداوند کے نور سے ہوئی ہے۔

علل الشرايع: ج1 ص 180.

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ کی خلقت عام انسان کی خلقت سے مختلف ہے ، تمام انسان خدا کی مخلوق ہیں، لیکن خدا کے نور سے خلق نہیں ہوئے کیونکہ اگر تمام بشر خدا کے نور سے خلق ہوتے تو کوئی بھی انسان گناہ انجام نہ دیتا اور خدا کی نافرمانی نہ کرتا ، حضرت فاطمہ (س) خدا کے نور سے خلق ہوئی ہیں اور وہ بھی خدا کی عظمت کے نور سے ، تو اس کا معنی یہ ہے کہ یہ ایک عظیم اور بزرگ مخلوق ہے، چونکہ خدا کے نور کی عظمت، بہت عظیم اور بزرگ ہے۔

' 'فلمّا اشرقت اضائت السماوات و الارض بنورھا ' 'آسمان اور زمین حضرت فاطمہ (س) کے نور سے روشن ہوئے ہیں۔

اس کے بعد روایت میں ہے کہ خداوند نے فرشتوں سے فرمایا :

ھذا نور من نوری و اسکنتہ فی سمائی خلقتہ من عظمتی۔

یہ حدیث حضرت فاطمہ سلام علیہا کی آفرینش کو بیان کر رہی ہے کہ کیسے ان کو خلق فرمایا اور کہاں سے خلق کیا ، جس سےمعلوم ہوتا ہے کہ حضرت زہرا (س) کی خلقت دوسرے انسانوں کی خلقت سے جدا ہے ، حضرت زہرا کے علاوہ کسی دوسری خاتون کے بارے میں یہ نہیں ہے کہ وہ خدا کی عظمت کے نور سے خلق ہوئی ہو،دنیا کی خواتین میں کچھ قابل احترام خواتین ہیں جیسے حضرت مریم بن عمران ،حضرت آسیہ حضرت خدیجہ … یہ سب دوسری خواتین کی نسبت کامل ہیں مگر خدا کی عظمت کے نور سے خلق نہیں ہوئیں۔

سفینۃالبحار میں ایک روایت نقل ہوئی ہے: قال أنَّ فاطمة دخلَتْ يوماً علی أبيها فأستقبلها و قَبّل يديها ثم لما ودّعتْ وَ مَشتْ شيعها النبـى و قبّل يدَيها أيضاً، فقلتُ: يا رسول الله ما رأيتُ مثل هذا فـى أحدٍ من النساء و لا يناسب لمثلك فقال: ما فعلتُه إلّا بأمر ربـى تعالى۔

ایک دن حضرت زہرا پیغمبر اکرم کی خدمت میں تشریف لائیں ' 'فاستقبلہا ' ' پیغمبر اکرم نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا ' ' و قبّل یدیھا ' ' اور ان کے دونوں ہاتھوں کا بوسہ لیا ' 'ثم لمّا ودّعت و مشت ' ' جب آپ واپس جانا چاہ رہی تھی تو ' 'شیعاھا النبی ' ' پیغمبر اکرم چند قدم آپ کے ہمراہ گئے ' 'و قبل یدیھا ' ' اور ہاتھوں کا بوسہ لے کر آپ کی خدا حافظی کی ،
حضرت ابوبکر نے پیغمبر اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ: فقلت یا رسول اللہ ما رایت مثل ھذا فی احد من النسائ ' 'یا رسول اللہ آپ حضرت زہرا س کے ساتھ جس تواضع کے ساتھ پیش آ رہے ہیں اس طرح گھر کے کسی دوسری خاتون کے ساتھ پیش آتے ہوئے نہیں دیکھا 'یعنی آپ کیوں فاطمہ کے ساتھ اتنی تواضع سے پیش آتے ہیں ؟
' 'ولا یناسب لمثلک ' '
کسی کے لیئے ایسا کرنا آپ کے شایان شان نہیں اس وقت پیغمبر اکرم نے ایک اہم جملہ ارشاد فرمایا : ' 'فقال ما فعلتہ الا بامر ربی ' ' میں نے خدا کے حکم کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دیا۔

مجمع النورين: ص27.

پیغمبر اکرم (ص) حضرت زہرا (س) کی جو بھی عزت و احترام کرتے ہیں، وہ صرف عاطفی لحاظ سے نہیں تھا کہ کسی باپ نے اپنی بیٹی کا عزت و احترام کیا ہو، یا ایک مطہرہ و طاہرہ خاتون ہونے کی وجہ سے کیا ہو ، بلکہ مطلب اس سے کہیں بلند و بالا ہے کہ خدا کے حکم سے یہ کام انجام پایا ہے ، کیونکہ پیغمبر اکرم اشرف مخلوقات ہیں، آپ سب کے سامنے اعلانیہ طور پر خدا کے نور کی عظمت سے خلق ہونے والے ایک انسان کی عزت اور تکریم کر رہے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو اس میں ایک بہت ہی خاص بات ہے جسے علامہ سید علی نقی نقا" مرحوم اعلی الله مقامہ نے لکھا ہے کہ ایک تو زھرا س دشمنوں کے ابتر کے طعنے کا جواب تھیں، حضرت زہرا (س) نے جس معاشرے میں آنکھیں کھولیں اس میں لڑکی کے پیدا ہونے کی خبر سن کر باپ غصہ سے کانپنے لگتا تھا اور ان کے چہروں کا رنگ بدل جاتا تھا۔ یہ وہ معاشرہ تھا کہ اگر اس میں کسی انسان کے فقط بیٹیاں ہی ہوتی تھیں تو اسے بے اولاد سمجھا جاتا تھا اور اس زمانہ کے دنیا پرست انسان اسے ایک عیب تصور کرتے تھے۔

لیکن پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ ایک دوسرا مسئلہ یہ بھی تھا کہ آپ کے بارے میں لوگوں کا یہ خیال تھا کہ چونکہ آپ کے کوئی اولاد نہیں ہے لہذا جب آپ دنیا سے چلے جائیں گے تو آپ کی نسل ختم ہو جائے گی اور آپ کی نبوت کا بھی کوئی نام و نشان باقی نہ رہے گا۔

اولاد نہ ہونے کی بنا پر آپ کی مذمت کرنے والا عاص بن وائل تنہا انسان نہیں تھا بلکہ وہ اس پورے جاہل اور انسانیت مخالف معاشرے کا ترجمان تھا جو اپنی طاقت کے ساتھ پیغمبر اسلام اور تعلیمات الہیہ کی مخالفت کر رہا تھا۔

ان تمام برائیوں اور آخری پیغمبر کی نبوت کے مٹ جانے کے بیہودہ خیالوں کے جواب میں خداوند نے پیغمبر کو کوثر (فاطمہ) عطا کی، اور آپ کی شان میں سورہٴ کوثر کو نازل فرمایا۔ اگر اس سورہ کی تفسیر خیر کثیر بھی کی جائے تب بھی یہ سورہ حضرت زہرا کی ذات پر منطبق ہو گی، کیونکہ پیغمبر اسلام اور حضرت علی کی نسل سے گیارہ امام حضرت زہرا کے ہی بیٹے ہیں۔ اور حجت خدا حضرت امام مہدی (عج) جن کے وجود سے الله اس جہان کو عدل و انصاف سے پر فرمائے گا وہ بھی آپ کے ہی بیٹے ہیں۔ آج ہمیں دنیا کے ہر کونے میں پیغمبر اسلام کی اولاد نظر آ رہی ہے جن میں بہت سے جید علماء بھی ہیں یہ سب اولاد حضرت زہرا (س) ہی تو ہیں۔

یہ خیر کثیر ، یہ کوثر،اور یہ پاک و پاکیزہ نسل قیامت تک اسی طرح جاری رہے گی خدا کا شکر کہ پیغمبر کی نسل ہر روز بڑھتی ہی جا رہی ہے، جبکہ نبی کو ابتر کہنے والوں کا نام و نشان ہی مٹ گیا اب قیامت تک نبی کے دین کے محافظ اولاد زہرا سے ہوں گے۔ علامہ سید علی نقی نقن صاحب مزید لکھتے ہیں کہ چونکہ نبی کریم ص مرد ہونے کی بنا پر خواتین کے لیئے عملی طور پر نمونہ عمل نہیں بن سکتے تھے (کہ اسلامی حیثیت سے نمونہ عمل بیٹی،بیوی ، اور ماں کیسی ہو ) تو خدا کی طرف سے نساء کے لیئے نمونہ عمل سیدہ زہرا قرار پائیں تو سیدہ زہرا رسالت کا تکملہ قرار پائیں رسالت کی تکمیل کا نام فاطمہ زہرا ہے لھذا نبی کریم اپنی بیٹی کا نہیں بلکہ اپنے منصب کااحترام کررہے ہیں اور اپنے منصب کے احترام کے لیئے کھڑے ہو رہے ہیں، کسی بھی خاتون کے زندگی میں تین مرحلے (یا تین رشتے کہہ لیں) ہو سکتے ہیں پیدائش کے بعد بیٹی۔
شادی کے بعد بیوی
اور اولاد کے بعد ماں
آپ رحمت للعالمین باپ کے لیئے ایسی رحمت جسے نبی کریم ریحانہ الرسول کہیں کہ میں جب بھی زہرا کے ھاتھ پہ بوسہ دیتا ہوں مجھے جنت کے اس سیب کی خوشبو آتی ہے جو میں نے شب معراج کھایا تھا

زوجہ ہیں سید الاوصیاء کی کہ اگر علی نہ ہوتے تو حضرت فاطمہ کا حضرت آدم تک کوئی کفو نہ تھا (اس بات پہ جتنا غوروفکر کیا جائے عقل کے دریچے کھلتے اور مسائل حل ہوتے جاتے ہیں)ماں ہیں تو جنت کے سرداروں کی
الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنہ گویا جنت کے سرداروں کی اپنی جنت زہرا کے قدموں میں ہے اسی سہ شاخہ فضیلت کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے کہ مریم از یک نسبت از حضرت عیسی' عزیز۔

از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

نور چشم رحمۃ للعالمین

آں امام اولین وآخرین

بانوے آں تاجدار ھل اتی'
مرتضی' ۔مشکل کشاء،شیر خدا

مادر آں مرکز پرکار عشق

مادر آں کاروان سالار عشق

آں یکی شمع شبستان حرم
حافظ جمعیت خیر الامم

مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوہ کامل بتول

قرآن کریم نےحضرت آدم کی توبہ کا جو واقعہ بیان فرمایا ہے اس میں ارشاد ہوا کہ فتلقی' آدم من ربہ بکلمات کہ حضرت آدم کو توبہ کے لیئے بطور وسیلہ کچھ کلمات عطا ہوئے وہ کلمات کیا تھے ؟کتاب دار قطنی میں لکھتے ہیں کہ عن ابن عباس: سألت النبي عن الكلمات التي تلقاها آدم من ربه؟ فقال: قال سأل بحق محمد وعلي وفاطمة نبی کریم ص کے چچا حضرت عباس نے نبی کریم سے پوچھا کہ وہ وہ کلمات کیا تھے تو آپ نے فرمایا کہ حضرت آدم نے بحق محمد و علی و فاطمہ یعنی ان اسماء کے واسطہ دے کے دعا کی تو خداوند متعال نے آپ کی توبہ قبول کی تو یہ دراصل ھمارے لیئے سبق ہے کہ جب حضرت آدم کی توبہ کا وسیلہ یہ اسماء ہیں تو ھمیں بھی انہی اسماء کے وسیلے سے بالاخص جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے وسیلے سے دعا مانگنا ہے اور اس کے الفاظ یوں منقول ہیں:
اللھم بحق محمد وانت المحمود
بحق علی وانت الاعلی'
بحق فاطمہ وانت فاطر السموات والارض
بحق الحسن وانت المحسن
بحق حسین علیہم السلام وانت قدیم الاحسان

اسی طرح خداوند متعال نے قرآن کریم کی کئی آیات میں حضرت زہرا (س) کے فضائل بیان فرمائے ہیں، قرآن کریم میں حضرت زہرا (س) کی شان میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں کہ ان میں سے ایک سورہ دہرکی آیات ہیں؛روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ حسنین (ع) بیمار ہوئے ، پیغمبر اسلام ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور ان کی حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے ۔ آپ نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ کیا اچھا ہو کہ اگر ان بچوں کی صحت کے لیے نذر مانی جائے!

حضرت علی نے بچوں کے صحت یاب ہونے پر تین دن روزہ رکھنے کی نذر مانی ، حضرت زہرا اور کنیز زہرا جناب فضہ نے بھی یہی نذر مانی۔

حسنین کے شفایاب ہونے پر نذر کو پورا کیا گیا ۔ حضرت علی (ع)، حضرت زہرا (س) اور فضہ نے روزہ رکھا۔ سیدہ زہرا اور جناب فضہ نے جو کو پیس کر افطار کے لیے کچھ روٹیاں تیار کیں افطار کا وقت قریب آیا اور اب حضرت علی کے مسجد سے گھر پلٹنے کا انتظار ہونے لگا ۔ جب حضرت علی گھر تشریف لائے تو دسترخوان بچھایا گیا ، تمام اہل بیت اور فضہ دسترخوان پر آ کر بیٹھ گئے، اس بابرکت دسترخوان پر فقط چار روٹیاں رکھی ہوئی تھیں ابھی کسی نے روٹی کی طرف ہاتھ بھی نہ بڑھایا تھا کہ کسی نے دروازہ پر آ کر آواز دی اے اہل بیت نبوت آپ پر میرا سلام ہو، میں ایک مسکین ہوں آپ جو کھا رہے ہیں اس میں سے مجھے بھی عطا کریں، خدا آپ کو جنت کے کھانوں سے سیر فرمائے گا۔ یہ سن کر دسترخوان پر رکھی ہوئی روٹیاں اٹھا کر سائل کے حوالہ کر دی گئیں اور اہل بیت نے پانی سے افطار کیا۔ دوسرے اور تیسرے دن بھی حضرت زہرا نے روٹیاں تیار کیں اور پہلے دن کی طرح ہی یتیم و اسیر کو دے کر پانی سے افطار کر کے بھوکے سو گئے۔ اسی دوران جبرئیل امین اہل بیت کی شان میں سورہٴ دہر لے کر نازل ہوئے۔ جب تک قرآن باقی رہے گا اور اس کی تلاوت ہوتی رہے اور سورہٴ دہر کی آیات کو پڑھا جاتا رہے گا اہل بیت (ع) کا یہ افتخار دنیا کے سامنے نمایاں ہوتا رہے گا۔

(2) آیت اجر رسالت:

قل لا اسئلکم علیہ اجراً الا المودة فی القربیٰ،

یعنی اے پیغمبر! آپ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا مگر یہ کہ میرے قرابت داروں سے محبت کی جائے۔

قربی' فعلی ' کے وزن پر الف مقصورہ کے ساتھ واحد مونث کا صیغہ ہے جس سے مراد جناب سیدہ اور آپ کے قرابت دار ہیں
سرور کونین ھمیشہ در زہرا پہ آ کے اس طرح سلام کرتے
السلام علیکم یا اھل بیت النبوۃ ومعدن الرسالہ

(3) آیت مباہلہ:

پیغمبر اسلام (ص) نے الله کے پیغام کو پہنچایا اور انسانوں پر حجت کو تمام کیا۔ کچھ لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا اور حق کی مخالفت کرنے لگے۔ الله نے پیغمبر اسلام کو حکم دیا کہ ان لوگوں کے ساتھ مباہلہ کرو اور ان سے کہو کہ تم اپنے بیٹوں کو لاؤ اور ہم بھی اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں ، تم اپنی عورتوں کو لاؤ ہم بھی اپنی عورتوں کو لاتے ہیں، تم اپنے نفسوں کو لاؤ ہم بھی اپنے نفسوں کو لاتے ہیں اور مباہلہ کریں اور دعا کریں کہ جھوٹوں پر الله کی لعنت (عذاب) نازل ہو

حق کو قبول نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ عیسائیوں کا بھی تھا۔ وہ مباہلہ کے لیے تیار ہو گئے اور اس کے لیے 24 ذی الحجہ کا دن طے ہوا ۔ جیسے جیسے مباہلہ کا وقت قریب آتا جا رہا تھا لوگوں کی بیچینیاں بڑھتی جا رہی تھیں کہ دیکھیں اب پیغمبر اسلام کیا کرتے ہیں؟

اچانک لوگوں نے دیکھا کہ پیغمبر اسلام اس شان سے اپنے گھر سے نکلے کہ امام حسین (ع) کو گود میں لیے ہوئے تھے ،حضرت امام حسن (ع) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، حضرت زہرا (س) آپ کے پیچھے چل رہیں تھیں اور حضرت علی (ع) ان کے پیچھے چل رہے تھے۔ آج پیغمبر اسلام کے لیے بیٹے حسنین ، نفس علی، اور خاتون حضرت زہرا تھیں۔

صدیقین کا یہ کاروان خدا کے دین کی صداقت کی گواہی کے لیئے ایک نرالی شان سے میدان مباھلہ میں جا گزین ہوا، نصاری نجران یہ سوچ رہے تھے کہ پیغمبر اسلام بادشاہوں کی طرح شان و شوکت اور بھیڑ بھاڑ کے ساتھ میدان میں آئیں گے لیکن جب انھوں نے پیغمبر اسلام کو اس شان سے آتے دیکھا تو دنگ رہ گئے اور آپ اور آپ کے اہل بیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ اپنے سب سے بڑے عالم سے کہنے لگے اے ابو حارث! دیکھ رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا: مجھ سے پوچھتے ہو کہ کیا دیکھ رہا ہوں ؟ میں ان انسانوں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ الله کو قسم دے کر یہ کہیں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دیں تو وہ ایسا ہی کرے گا ۔ حضرت عیسی کی قسم اگر مسلمانوں کا نبی دعا کرے تو کوئی عیسائی زمین پر باقی نہیں رہے گا۔ ان سے مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔تو اس آیت کے مطابق حضرت زہرا صدیقہ ہیں اور آپ کے مقابل اور مخالف جھوٹے ہیں

(4) آیہ تطہیر:

انما یرید الله لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیراً۔

کیونکہ آیہٴ تطہیر کی تفسیر کے لیئے کافی تفصیل کی ضرورت ہے مگر ھم یہاں تحریر کے طولانی ہونے کے خدشے کے پیش نظر اختصار کے ساتھ لکھ رہے ہیں
شیعہ و سنی علماء کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت زہرا (س) آپ کے بابا، آپ کے شوہر اور آپ کے بچوں کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

حدیث کساء سے ظاہر ہے کہ اس کی شان نزول کا محور بھی حضرت زہرا کی ہی مقدس ذات ہے۔
کیونکہ جب اللہ نے ملائکہ اور حضرت جبرائیل کو اھل البیت کا تعارف کرایا اور بتایا کہ چادر تلے کون ہیں تو فرمایا
ھم فاطمہ و ابوھا وبعلھا و بنوھا
تو فرمایا الله نے یہ آیت آپ کی شان میں نازل کر کے فرمایا کہ اے اہل بیت بس الله کا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے ہر قسم کےرجس کو دور رکھے اور آپ کو ایسا پاک و پاکیزہ قرار دیوے جیسا پاکیزہ قرار دینے کا حق ہے

جناب زہرا خاتون جنت بھی ہیں اور خاتون قیامت بھی

شیخ صدوق محمد بن مسلم سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ روز قیامت جہنم کے دروازے پہ تھوڑا توقف کر کے نظر ڈالیں گی جہاں ہر شخص کی پیشانی پہ مومن یا کافر لکھا ہوا دکھائی دیا جا رہا ہو گا۔

جب سیدہ کی مودت رکھنے والوں میں سے بعض گناہ گاروں کو جہنم میں ڈالنے کا حکم ہو گا تو جناب سیدہ خدا کی بارگاہ میں عرض کریں گی بار الہا آپ نے میرا نام فاطمہ رکھا تھا یعنی اپنی اولاد اور محبوں کو جہنم کی آگ سے دور کرنے والی، تیرا وعدہ برحق ہے۔

تو ارشاد قدرت ہو گا بے شک میرا یہ وعدہ تھا اور میرا وعدہ بر حق ہے میں نے ان گناہ گاروں کو جہنم میں ڈالنے کا حکم اس وجہ سے دیا ہے تاکہ آپ ان کی شفاعت کریں اور میدان محشر میں میرے فرشتوں نبیوں اور سفیروں کے سامنے آپ کی عظمت اور مقام و منزلت آشکار ہو پس آپ اپنی اولاد
محبوں اور محبوں کے محبوں کی بھی شفاعت کریں گی
نیز روایات میں ہے (تذکرہ الخواص صفحہ 368) کہ قیامت والے دن منادی ندا دے گا یا اھل الموقف غضو ابصارکم و نکسو رؤسکم حتی تجوز فاطمہ بنت رسول الله
اے میدان محشر والو اپنی آنکھیں بند کر لو اور سروں کو جھکا لو تاکہ فاطمہ بنت محمد یہاں سے گذر جائیں
عام لوگوں کو ہی نہیں انبیاء و اوصیا کو بھی یہی حکم ہو گا
جناب سیدہ کے ھاتھ میں ایک خون بھرا کرتا ہو گا
دوسرے ھاتھ میں حضرت عباس کے کٹے ہوئے بازو
حسین ابن علی کی خون آلود قمیض اور ھمراہ حضرت محسن کی لاش!
قائمہ عرش پکڑ کر عرض کریں گی بار الہا آج یوم الدین ہے انصاف فرما
میری اولادوں اور محبوں کو کیوں قتل کیا گیا انہیں کیوں اسیر کیا گیا ؟؟
اس وقت دریائے غضب الہی جوش میں آئے گا اور معلوم ہو جائے گا کہ مغضوب علیہم اور ضالین کون تھے
اور سورہ بقرہ کی آیت 205 کے مطابق نسل رسول کا قاتل اور حرث رسول (نبی کی کھیتی ) اجاڑنے والا کون تھا
پروردگار عالم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ خاتم المرسلین کی سیدہ العالمین بیٹی اور محمد وآل محمد روز محشر ھمیں اپنی شفاعت سے محروم نہ فرمائیں
آمین یا رب العالمین
بحق محمد وآلہ الطاہرین

تبصرہ ارسال

You are replying to: .