تحریر: سید قمر نقوی
حوزہ نیوز ایجنسی | کسی بھی ملت کے عروج و زوال کا اندازہ اس کے ثقافتی رشد سے لگایا جاتا ہے جو کہ تمدن کے قالب میں پروان چڑھتی ہے.اور اس ثقافتی رشد کی بنیاد خاتون ہوتی ہے۔کیوں؟اس لیے کہ ایک متدین خاتون ہی ایک متدین خاندان کی روح ہوتی ہے اورایک متدین خاندان ہی ایک متدین اجتماع کی روح ہوتا ہے اور یہ اجتماع تمدن کی بنیاد ڈالتا ہے۔
ایک غربی اسٹراٹجسٹ بیٹس ٹاویکو کے بقول ہر ملت تین ثقافتی ادوار سے گزرتی ہے،پہلا اس قوم کا دوران جاہلیت ہے،دوسرا عصر تمدن و علم ہے اور تیسرا مرحلہ اس تمدن کا زوال ہوتا ہےاور غرب اس پر بہت پریشانی کی حالت میں ہے کہ اب تمدن وہاں سے زوال کی طرف جا رہا ہے۔
ایک اور معروف اسٹراٹجسٹ سیموئل ہنگٹنگٹن نے کہا کہ ابھی تمدن ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے اور جہاں پر یہ جاکر اوج پکڑنا چاہتا ہے بہتر ہے ہم اس جگہ کو ہی نابود کردیں اور جس سے سب سے زیادہ انہیں خطرہ ہے وہ تمدن اسلامی ہے۔
پس در اصل امانیسٹ (انسان محور)خاتون اور تھیویسٹ (خدا محور)خاتون آمنے سامنے ہیں۔
امانیسٹ خاتون کا ریشہ سیمن ڈگوا کی طرف پلٹتا ہے۔جہاں کشش کی بنیاد ارزش نہیں بلکہ فقط بیشتر منافع ہے۔ اخلاق،مودت،ایثاراور فداکاری نام کی کوئی چیز نہیں جبکہ ایک تھیویسٹ خاتون کا ریشہ سیدہ کونین کی طرف پلٹتا ہے۔جس کو "مکارم الاخلاق نبی" اور "ام ابیھا" کہتے ہیں،جو حضرت علی جیسے امام کی ہمسر ہیں جنہوں نے مصلحت اسلام کی خاطر 25 سالہ سقوط اختیار کیا (البتہ واضح رہے کہ طول تاریخ میں تشیع بعض جگہوں پر ساقط رہا ہے لیکن ساکن نہیں)تو اس سیدہ کونین (س) نے پشتِ در ولایت کا دفاع کیا۔ اور اگر جناب سیدہ (س) اس دن پشتِ دروازہ پر ولایت کا دفاع نہ کرتیں تو آج تمدن اسلامی کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔
ابھی تک کے ناقص مطالعات سے مجھے ذاتی طور پر یہ سمجھ آتی ہے کہ دنیا میں چاہے مادی نظام ہو یا الہی نظام ہو اگر اس کی خواتین میدان میں نہ ہوں تو ممکن ہی نہیں کہ وہ نظام نافذ ہو سکے۔
ایک مادی اور امانیسٹ انسان کو بھی اپنی حیوانی خواہشات کی تکمیل کیلئے خواتین سے کام لینا پڑتا ہے۔اور یہ آپ غربی میڈیا پر ہر روز دیکھتے ہیں۔ ایک صدر سے لے کر ایک فٹبالر تک نے ہمیشہ خاتون کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالا ہوتا ہے لیکن اس کا راستہ انحرافی ہے۔اس کے برعکس الہی خاتون ہے جو اخلاق، فداکاری اور ایثار کے دائرہ میں رہ کر الہی نظام کی تقویت کا سبب بنتی ہے۔
ہمیں جناب سیدہ (س) کی شہادت پر دکھ ہے اور گریہ کرتے رہیں گے۔لیکن اس سے بھی مہم مسئلہ اس شخصیت کے خون کی مدیریت ہے۔ہر شخصیت کی شہادت کے بعد اگر اس کے خون کی مدیریت ہوجائے تو ملت درست نتیجہ لیتی ہے ورنہ خون ضائع ہو جایا کرتا ہے۔کسی حد تک اس عظیم خون کی مدیریت ہوئی ہے تو چودہ سو سال بعد اس کا ثمرہ انقلاب اسلامی کی صورت میں ملا ہے جو کہ طول تاریخ میں انبیاء و ائمہ کرام اور صالحین کی آرزو تھی۔
لیکن یہ سلسلہ یہاں رکے گا نہیں بلکہ اس کو تمدن اسلامی میں بدلنا ہے۔اور اس تمدن کی بنیاد ایک خاتون کی تربیت سے شروع ہو گی۔پس جناب سیدہ (س) کے خون کی مدیریت کا مطلب ایسی خواتین تیار کرنا ہے جو آج مصلحین کے قیام کی صورت میں کردارِ زینبی (س) اور ان کے سقوط کی صورت میں کردار فاطمی (س) ادا کر سکیں۔ لہذا کمرِ ہمت باندھ کر اور حوصلہ اور بصیرت کے ساتھ اس تربیتی وادی میں داخل ہوجائیں۔شاید ممکن ہے آپ بھی تمدن اسلامی کی تشکیل کا ایک جزء ثابت ہوں۔البتہ واضح رہے اس کا عملی میدان صرف تحریر لکھنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔